Loading
ڈاکٹر قرۃ العین طارق کا نام تحقیق و تنقید کے اعتبار سے اردو ادب کی تاریخ میں معتبر اور اہمیت کا حامل ہے، ’’اردو شاعرات کا مزاحمتی لحن‘‘ یہ ان کی تیسری کتاب ہے، اس سے قبل وہ تنقیدی بصیرت اور فہم و فراست کی روشنی میں دو کتابیں اور لکھ چکی ہیں۔ ایک کتاب ’’جن سے تیری بزم میں تھے ہنگامے بہت‘‘ ممتاز شاعر و دانشور عزیز حامد مدنی کے فن و شخصیت کا احاطہ کرتی ہے جب کہ دوسری کتاب ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’اردو ادب میں دہشت گردی کی ارتقائی عکاسی کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘‘ ہے۔ قرۃ العین نے موضوع کے اعتبار سے بہترین محقق کا کردار ادا کیا ہے، ان کی ادب سے لگن، محنت اورکوشش نے ان کے کام کو توقیر اور اعتبار بخشا ہے، وہ ادب کی تاریخ کا مکمل جائزہ اس طرح پیش کرتی ہیں کہ فکشن نگاری کے قالب میں ڈھالے گئے، وہ کردار جو ظلم اور جبر و قہر کا شکار ہوئے، ایسے کرداروں کو قارئین و ناقدین کے سامنے لانے میں انھوں نے تاریخ کے ان صفحات کو نمایاں کیا ہے جہاں عشق و محبت کی داستانیں رقم نہیں کی گئی ہیں بلکہ سیاسی و معاشرتی طور پر قتل ہونے والے ان لوگوں کی عکاسی کی ہے جو ناانصافی کا شکار ہوئے اور انھیں ان کے ہی خون میں نہلایا گیا۔ مذکورہ کتاب جس پر میں خامہ فرسائی کرنے بیٹھی ہوں ’’ اردو شاعری کا مزاحمتی لحن‘‘ قرۃ العین طارق نے اس وقت کی ان شاعرات اور ان کی شاعری کا فنی جائزہ لیا ہے جب خواتین کا شعر و سخن میں طبع آزمائی کرنا اور اخبار و رسائل میں چھپنا شجر ممنوع سے کم نہیں تھا۔ وہ اکثر مردانہ ناموں سے اپنی تخلیقات کی نقاب کشائی اشاعت کی شکل میں کرتیں اور یہ بڑا مشکل مرحلہ تھا جو انھوں نے طے کیا۔ ناقد نے ابتدا سے عصر حاضر تک کی شاعری پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ کام آسان ہرگز نہیں تھا، بہت محنت طلب، ویسے بھی تنقید ایک بھاری پتھر کی مانند ہے جس کو بہت سے قلم کار اٹھا تو لیتے ہیں لیکن تکمیل کی صورت میں تنقیدی و تحقیقی تحریریں سامنے نہیں آ پاتی ہیں، بس چوما اور رکھ دیا، اس کے برعکس مصنفہ نے اپنی دونوں کتابوں کی طرح مکمل اور بھرپور طریقے سے تحریری فریضہ انجام دیا ہے۔ کتاب پر محمود شام کا عالمانہ اور فصیح و بلیغ مضمون درج ہے، ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی اور حمیدہ شاہین نے بھی اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا ہے۔263 صفحات پر مشتمل کتاب الحمد پبلی کیشنز لاہور سے شایع ہوئی ہے، سرورق دیدہ زیب اور اشاعتی غلطیاں دور دور تک نظر نہیں آتی ہیں۔ باب اول میں ابتدا سے 1947 تک کی شاعرات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ تحقیقی کام کی تکمیل آسان ہرگز نہیں ہوتی ہے۔ موضوع کوئی بھی ہو تاریخ کو کھنگالنا پڑتا ہے، تب کہیں گوہر مقصود ہاتھ لگتا ہے، ہیرے اور موتیوں کی کان آگہی کی روشنی میں نمایاں ہوجاتی ہے اور لفظوں کی قندیل جگ مگ کرتی ہے۔ ناقد کی حیثیت ایک جوہری کی سی ہوتی ہے کہ وہ پرکھے کس کا کام موتیوں سے مشابہت رکھتا ہے اور سونے چاندی کے ڈھیر میں کتنے ذرے اپنی آب و تاب دکھا رہے ہیں ان کا کوئی خریدار نہیں، لیکن مخلص و دیانت دار مبصر و مدبر اور وسیع النظر قلم کار ان ہیرے موتیوں کو ادب کے ٹھیکیداروں سے بچا کر اپنی تحریروں کی زینت بنا لیتا ہیں، کم ظرف اور تنگ نظر، جھوٹے، خوشامد پسند ناقدین کی عزت پر داغ لگ جاتا ہے اور حق کا خوب بول بالا ہوتا ہے۔ تو میں عرض یہ کر رہی ہوں کہ قرۃ العین کا شمار ایسے ہی اعلیٰ ظرف ناقدین میں ہوتا ہے۔ انھوں نے بلاتعصب ان شاعرات کے مزاحمتی لحن کا ادراک کرتے ہوئے قلم اٹھایا ہے۔ ایسی ہی کاوش پر نقاد اور ادب کا قاری داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر قرۃ العین نے مزاحمتی شاعرات کے نام اورکام کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے ’’اردو شاعرات کے کلام میں ’’ مزاحمتی لحن‘‘ کی ابتدا شاید اسی وقت ہو گئی تھی جب پہلی شاعرہ نے اپنی صنفی محکومی اور معاشرتی مجبوریوں کو بیان کیا تھا، اس وقت وہ برملا اس کا اظہار نہ کرسکی، لیکن اس کے فہم و ادراک میں مزاحمتی رویے پروان چڑھتے رہے،کبھی چھپے لفظوں کی صورت میں نمایاں ہوئے تو کبھی مردانہ لب و لہجے میں اپنے ردعمل کو ظاہرکیا۔ اس ضمن میں دکن اور شمالی ہند میں شعرا کا تو ذکر ملتا ہے لیکن شاعرات کا نہیں۔ پہلی مرتبہ مولوی کریم الدین پانی پتی نے تذکرہ گلدستہ ناز نیناں 1845 میں شایع کیا جس میں دس شاعرات کا کلام شامل تھا، وہ بھی انتخاب کی شکل میں۔ حکیم فصیح الدین رنج میرٹھی کا ’’ بہارستان ناز‘‘ اس کے طبع دوم اشاعت 1869 میں شاعرات اور طبع سوم 1882 میں 174 شاعرات کا کلام موجود ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے مطابق ’’بہارستان ناز‘‘ میں بیش تر شاعرات طبقہ طوائف سے تعلق رکھتی ہیں۔ اکثر شریف زادیوں نے بھی شعر و سخن میں اپنا رنگ جمایا ہے، اور ناانصافی، ستم ظریفی کا نقشہ موثرانداز میں کھینچا ہے۔ قرۃ العین نے اس زمانے کی شاعرات کی شاعری کے نمونے بھی درج کیے ہیں۔ بادشاہ بیگم کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیے: لے اڑی طرز فغاں بلبل نالاں ہم سے گل نے سیکھی روش چاک گریباں ہم سے انھوں نے ماحول اور ان حالات سے پیدا ہونے والے مسائل کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیا ہے کہ جبر و قہر اور ناانصافی کی فضا نے کس طرح شاعرات کو متاثر کیا تھا۔ نظم ’’پیش لفظ‘‘ میں ادا جعفری نے اس ستم گری کا نقشہ پیش کیا ہے جو خواتین کو درپیش تھے۔ شفیق فاطمہ نے عورتوں کے دکھوں اور محرومیوں کا ذکر اپنی شاعری میں ایک المیے کی طرح بیان کیا ہے۔ گیلی سلکتی لکڑی عورت سیل زماں میں مدغم ہو گئی خیر ہو یا رب دشت و دمن کی آنکھ جنوں کی پرنم ہو گئی 1980 تا عصر حاضر۔ اس کتاب کا تیسرا باب ہے ، قرۃ العین نے 1977 کے مارشل لا کا ذکر نہایت کرب اور دکھ کے احساس سے کیا ہے، کہ گزرے زمانوں میں عورت نے قید و بند کی صعوبتیں کس طرح برداشت کیں۔ بے بس و معصوم انسانوں پر ہونے والے مظالم کو شاعری کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس دور میں ادا جعفری، فہمیدہ ریاض، شفیق فاطمہ، سیدہ فرحت، وحیدہ نسیم، پروین شاکر اور فاطمہ حسن کے کلام کی وہ جھلکیاں دکھائی ہیں جب شاعرات نے آپ بیتی اور جگ بیتی کو لفظوں کی قندیل عطا کی۔ مثال کے طور پر۔ میں اپنے حق کے واسطے تنہا کھڑی رہی میزان عدل پر مجھے تولا نہیں گیا غیرت کے نام پہ کبھی حرمت کے نام پر بکتی رہی زمانے میں بکنا نہیں گیا ادا جعفری ترقی پسند شعرا میں ممتاز حیثیت رکھتی ہیں، ان کی شاعری میں نسائی جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔ قرۃ العین ان کے بارے میں لکھتی ہیں ’’ ادا جعفری کی شاعری کا آغاز ایسے دور میں ہوا جو قومی و بین الاقوامی سطحوں پر انتشار و سیاسی تغیرات کا دور تھا، ایک طرف آزادی کی تحریک عروج پر تھی اور دوسری طرف برطانوی اقتدار سے نجات پانے کی آخری جنگ جاری تھی۔ ان حالات میں ادا جعفری کے طرز سخن میں مزاحمت کی لے ابھری۔ نظم ’’ پیش لفظ‘‘ میں ادا جعفری نے برملا ان رجحانات کی ترجمانی کی ہے، مثال کے طور پر یہ اشعار: انھیں روندی ہوئی ٹھکرائی ہوئی راہوں میں کتنی نوخیز امیدوں کے سجیلے سپنے کتنی معصوم امیدوں کے سجیلے سپنے چند دانوں کے عوض بکتے رہے بکتے رہے بربریت کے ستم سہتے رہے سہتے رہے زندگی میرے لیے خواب نہ تھی، گیت نہ تھی ہماری دعا ہے قرۃ العین کا قلم اندھیروں سے تخلیق کی روشنی کشید کرتا رہے، مبارکاں!
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل