Sunday, July 06, 2025
 

سوما، ہوما اورشوما (دوسرا اور آخری حصہ)

 



کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ اتنی اہم، مفید اورمقدس ’’بوٹی‘‘ یا پودا دنیا سے یوں غائب ہوجائے۔ اول تو ’’بوٹیاں‘‘ (پودے )غائب نہیں ہوتیں،قدرت کانظام ایسا ہے کہ بوٹیوں میں نئی نئی قسمیں اورانواع پیدا ہوتی ہیں، غائب نہیں ہوتیں، پھر اگر غائب ہوگئی تو کم ازکم ہندی دھرم کے نوشتوں میں اس کی شناخت اورپہچان تو باقی رہنی چاہیے تھی،یوں ایک بوٹی بھی غائب ہوگئی، اس کو پہچاننے والے بھی غائب ہوگئے اورنوشتوں میں کسی نے بھول کر بھی اس کی نشاندہی نہیں کی ہے ، دیانند سرسوتی نے تو محض ہوائی چھوڑی ہے ۔دراصل یہ پورا قصہ ہی افسانہ اورلاعلمی کاشاخسانہ ہے، ایسی بوٹی یا پودا دنیا میں کبھی تھا ہی نہیں اوراس حقیقت کاانکشاف مجھ پر خوشحال خان خٹک کے ایک شعر سے ہوا ، شعر ہے شیخ دے مونزروژہ کا زہ بہ ڈکے پیالے شوقم ہرسڑے پیدا دے خپل خپل کارلرہ کہ نہ ترجمہ:(شیخ اپنا روزہ نماز کرے اورمیں بھرے ہوئے پیالے پیوں گا ، ہرکسی کا اپنا اپنا کام ہے۔) اس شعر میں لفظ’’شوقم‘‘ استعمال ہوا ہے حالانکہ پشتو میں پینے کے لیے ’’سکل یا سکم‘‘ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ’’شوم، شوامنا، شومتا‘‘ عام پینا نہیں بلکہ ’’خاص پینا‘‘ ہوتا ہے جیسے عربی میں عام پینے کے لیے سقا، ساقی، سقہ کے الفاظ ہوتے ہیں لیکن خاص چیز کے لیے ’’شرب‘‘ استعمال ہوتا ہے ، اردو ،فارسی میں بھی عام پینے کے لیے پینا اورخاص پینے کے لیے’’نوش‘‘ استعمال ہوتا ہے ۔ یہی سلسلہ پشتو، شوم، شومتا اورشومہ کاہے ، کوئی مخصوص مشروب پیا نہیں جاتا ، شوماجاتا ہے۔ اس کی شہادت لفظ ’’شوملے‘‘ سے بھی ملتی ہے جو پشتو میں ’’لسی‘‘ کو کہا جاتا ہے۔ لفظ شوم (کنجوس) کا بھی اس سے تعلق ہے کیوں کہ ساقی کو اکثرشوم (کنجوس) کہا جاتا ہے۔  ہندی اورفارسی میں (س) اور(ھ) کاذکر ہوچکا ہے، ان دونوں کے درمیان ایک تیسرا ہجہ (ش) کابھی ہے جو ساری ہندی زبانوں میں عام ہے جیسے سری اورشری،اسنان اوراشنان ، کاسی اورکاشی،سیو، شیو، کرسنا،کرشنا، دیس، دیش، سوپن شوپن وغیرہ ، یہ ش کا ہجہ کسی حد تک پشتو میں بھی ہے جیسے مہینے کو ہندی میں ’’ ماس‘‘ کہتے ہیں ، ایرانی ’’ماہ‘‘ اورپشتو میں ماش یا میاشت۔ سنسکرت میں محترم لوگوں کو مہسر یا مسرا (مہاسر)کہتے ہیں، فارسی میں مہاہر،مہر کہتے ہیں جیسے شہنشاہ ایران کو ’’آریامہر‘‘ کہتے تھے، مذہبی بزرگوں کو بھی مہرکہتے تھے اور پشتو میں مشریاجیسے کس اورکش۔۔ سیندوکش، ہندوکش یادیس ، دیہہ اوردیش۔ اسی طرح لفظ سوما ،ہوما اورشوما کا معاملہ بھی ہے۔ اور یہ بھی بتادوں کہ اصل لفظ’’شومہ‘‘ ہے کیوں کہ کوئی بھی چیز پیتے وقت ہونٹوں سے ’’شو‘‘ کی آواز نکلتی ہے لیکن پینے کے لیے ایک قدرتی آواز ہے شو، شوم ، شومہ اورشومل ، شوملے وغیرہ ۔پشتو کے ایک اورلفظ’’شومہ دم‘‘ سے یہ سارا معمہ حل ہوجاتا ہے۔ ’’دم‘‘ تو پشتو میں وقت کے لیے عام لفظ ہے اردو اورفارسی میں بھی ’’صبح دم‘‘ گرم دم گفتگو۔ جس ’’دم، یک دم ،ہردم نمی دانم کہ آخر چوں ’’دم دیدار‘‘مے رقصم  مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیش یاررقصم توہر’’دم‘‘ می سرائی نغمہ وہربارمی رقصم  لہرطرزے کہ می رقصائی من اے یارمی رقصم مطلب ’’دم ‘‘ ویسے تو سانس کوکہتے ہیں مگر مجازی طورپر وقت یاکسی خاص کام کے لیے مقررہ وقت کو کہا جاتا ہے، یوں شومہ دم کا مطلب شومہ یاپینے کاوقت۔ یہ عشاکے بعد اورآدھی رات سے پہلے کا وقت ہے، عام بول میں شومہ دم سو گیا یا شومہ دم جاگا۔ شومہ دم کھیتوں کو پانی دے ۔شومہ دم اچانک شورہوا۔ اب ذرا شعروشاعری اورناؤنوش کی بھی بات ہوجائے ، اردو، فارسی، پشتو اوردوسری کئی مشرقی زبانوں میں مئے نوشی کے لیے مخصوص مقررہ اوربہترین وقت یہی سمجھاجاتا ہے جس سے چاند کابھی تعلق ہے ۔ غالب چھٹی شراب، پر اب بھی کبھی کبھی پیتا ہوں روزابر وشب ماہتاب میں  کوئی کہے کہ شب مہ میں کیا برائی ہے بلاسے آج اگر دن کو ابروباد نہیں اس سے یہ بھی کھل جاتا ہے کہ اصل چیز سومہ، ہومہ اورشومہ ہے ۔ یہ چاند، چاند دیوتا، چاندنی راتیں وغیرہ محض رومانی وارداتیں ہیں ۔ خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہوا کہ سوما، ہوما یاشوما نہ تو کوئی جڑی بوٹی ہے نہ پودا ہے، نہ کسی خاص چیز کا رس ہے ۔یا یوں کہیے کہ یہ اسم نہیں فعل پینا نوش کرنا وغیرہ ۔ لیکن یاروں نے اسے معمہ بنادیا ۔اوراس کے ساتھ ہی یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ ہرقوم ، نسل، مذہب یاخطے کااپنا اپنا شومہ ہوتا ہے جس میں کچھ تقدیس، کچھ عقیدت اورکچھ رومانویت بھی ہوتی ہے یا قومی، نسلی یامذہبی پہچان اور شناخت بھی ۔مثلاً ہندوستان میں ساؤتھ کی طرف کا شومہ ’’توتاڑی‘‘ ہے لیکن اتریعنی شمال کی طرف کاشومہ ’’بھنگ ‘‘ ہے ۔ جے جے شیوشنکر ، کاٹنالگے نہ کنکر کہ پیالہ تیرے نام کا پیا ہندی تہواروں میں بڑے پیمانے پر بھنگ کاشومہ ہوتا ہے بلکہ ملنگ، فقیر، یوگی جو خود کو برتر سمجھتے ہیں، اسے حرزجاں بنائے ہوئے ہیں، اسی کی ایک شکل چرس پینے والے کہتے ہیں چرسی کدی نہ مرسی (درازی عمر) یوں عربوں کاشومہ نیند تھا جو کھجورکی مئے ہوتی تھی۔ منگولوں کاشومہ گھوڑی کے دودھ کی شراب ہوتی تھی۔ چین کاشومہ ایک زمانے میں افیون ہوا کرتی تھی ، عیسائی بھی ایک موقع پر شراب کو شوما بناتے تھے۔ دیکھاجائے تو سکھوں کابھی ایک طرح لسی شوما ہے ، ستو بھی تقریباً شوما ہے۔ مشہور کردار حسن بن صباح کے فدائیوں کاشومہ بھی بھنگ تھا ۔حسن بن صباح کے بارے میں یوں تو تقریباً ساری کہانیاں محض افسانے ہیں کہ اس نے قلعہ الموت میں ایک جنت بنائی تھی، تاتاری دورمیں جب یہ قلعہ فتح ہوا تو وہاں ایسا کچھ نہیں تھا، کیوں کہ بھنگ پی کر انسان خود کو گل وگلزار میں محسوس کرتا ہے، چاہے وہ کسی کوڑے کے ڈرم یا گٹر میں کیوں نہ پڑا ہو بلکہ تمام نشے والے گلزار نشین ہوجاتے ہیں اورجب نشہ چلا چاتا ہے اسی گلزار کو پھر پانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ حسن بن صباح کے فدائی بھی شاید اسی ’’جنت‘‘ کے لیے سب کچھ کرتے تھے ۔ بہرحال ایک مرتبہ پھر دہراؤں گا کہ سوما ، ہوما یاشوما نام کا پودا نہ کبھی تھا نہ ہے ۔یعنی شوما نام ہے ، اس کا جو ہونٹوں کی آواز سے پیدا ہوتی ہے ، باقی سب افسانے ہیں ۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل