Loading
زندگی کبھی ایک جیسی نہیں رہتی۔ یہ ہر پل رنگ بدلتی ہے اور انسان کے لیے مشکلات، ناکامیاں یا صدمے لے کر آتی ہے۔ یہ لمحے انسان کے ذہن کو جھنجھوڑ دیتے ہیں، مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ان آزمائشوں سے گزرکر نہ صرف سنبھل جاتے ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکر ابھرتے ہیں۔ اس اندرونی قوت کو نفسیات کی زبان میں سائیکولوجیکل ریزیلینس کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ذہنی اور جذباتی صلاحیت ہے، جو انسان کو زندگی کی سختیوں، ذہنی دباؤ اور صدمات سے نمٹنے اور ان سے سیکھنے میں مدد دیتی ہے۔ نفسیاتی مسائل کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان میں ڈپریشن، اینزائٹی، پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) اور دیگر ذہنی الجھنیں شامل ہیں۔ بعض اوقات یہ مسائل ایک بڑے صدمے کے بعد جنم لیتے ہیں، جیسے کسی عزیزکا انتقال، طلاق، مالی نقصان یا بچپن میں کسی قسم کی زیادتی کا سامنا۔ مگر کئی بار یہ اندرونی کشمکش، مسلسل ذہنی دباؤ یا عدم تحفظ کے ماحول سے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی شدت انسان کے سوچنے، محسوس کرنے اور فیصلے کرنے کے انداز کو متاثرکرتی ہے اور اگر بروقت ان کا ادراک نہ کیا جائے تو یہ پورے وجود کو تھکا کر رکھ دیتے ہیں۔ ادراک، دراصل پہلا قدم ہے بہتری کی طرف۔ جب انسان اپنے ذہنی و جذباتی حال کا شعور حاصل کرتا ہے، تو وہ خود کو بہتر طریقے سے سنبھالنے لگتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں نفسیاتی مسائل کو اکثر شرمندگی یا کمزوری سے تعبیرکیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ ان کا سامنا کرنے کے بجائے ان سے فرار اختیار کرتے ہیں، مگر اصل طاقت اپنے درد کو پہچاننے، قبول کرنے اور اس سے سیکھنے میں ہے۔ نفسیاتی لچک محض ایک فطری صلاحیت نہیں، بلکہ اسے سیکھا اور مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ اس کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ جس میں ایک اہم عنصر مثبت سوچ ہے۔ ذہنی طور پر پختہ افراد مشکلات کے باوجود اُمید کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔ وہ حالات کو خود پر حاوی ہونے کے بجائے، ان میں موقع تلاش کرتے ہیں۔ ان کے اندر ایک طرح کی ذہنی لچک ہوتی ہے جو انھیں مشکل حالات میں بھی ٹوٹنے نہیں دیتی۔ دوسرا پہلو مضبوط سماجی روابط ہیں جو ذہنی استحکام کا سبب بنتے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنے جذبات دوسروں سے بانٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، زیادہ آسانی سے جذباتی دباؤ سے نکل سکتے ہیں۔ ایسے میں دوست، خاندان یا تھراپسٹ کا کردار بہت اہم ہو جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے افراد اپنے اندر ایک واضح مقصد رکھتے ہیں۔ ان کے سامنے زندگی کے بارے میں ایک واضح تصور ہوتا ہے، جو انھیں راہ دکھاتا ہے۔ وہ چھوٹی کامیابیوں سے حوصلہ لیتے ہیں اور ناکامیوں سے سبق سیکھتے ہیں۔ معروف ماہرِ نفسیات کارل روگرز نے کہا تھا ’’ انسان وہی بنتا ہے جو وہ اپنے بارے میں سوچتا ہے۔‘‘ یہ جملہ سائیکولوجیکل ریزیلینس کی روح کو سمجھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ جب ایک شخص خود کو کمزور، ناکام یا ناقابلِ قدر تصورکرتا ہے، تو اس کی ذہنی حالت بگڑنے لگتی ہے، لیکن جیسے ہی وہ اپنے آپ کو قبول کرنا شروع کرتا ہے، اپنے احساسات کو سچائی سے دیکھتا ہے، تو اس کی ذات میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح وِکٹر فرینکل، جو خود ہولوکاسٹ جیسے بھیانک تجربے سے گزرے، اپنی کتاب ''Man's Search for Meaning'' میں لکھتے ہیں کہ ’’ زندگی کے ہر لمحے میں معنی تلاش کرنا ہی انسان کو بقا اور ترقی کی طرف لے جاتا ہے۔‘‘ ان کے مطابق مصیبت کو جھیلنے کی طاقت تب پیدا ہوتی ہے جب انسان کو یہ محسوس ہو کہ اس کی تکالیف کا کوئی مقصد ہے۔ نفسیاتی فہم کو فروغ دینے کے لیے سب سے پہلے ماحول میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ بچوں کی پرورش ایسے انداز میں ہو کہ وہ جذبات کو اظہار کرنے میں جھجک محسوس نہ کریں۔ تعلیمی ادارے، جہاں بچوں کی ذہنی ساخت تیار ہوتی ہے، انھیں محض علمی کامیابیوں کے بجائے جذباتی صحت اور خود آگہی کی تربیت دینی چاہیے۔ ایسے نصاب کی ضرورت ہے جو طلبہ کو اپنے اندر جھانکنے، دوسروں کو سمجھنے اور زندگی کے نشیب و فراز سے نمٹنے کے طریقے سکھائے۔ ریزیلینس کے فروغ میں mindfulness یعنی حال میں رہنے کی مشق بہت مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ انسان کو اپنے خیالات، جذبات اور جسمانی کیفیات کا مشاہدہ کرنے کی تربیت دیتی ہے، بغیرکسی فیصلے یا مزاحمت کے۔ ایسی مشقیں ذہن کو سکون دیتی ہیں، خودی کو مضبوط بناتی ہیں اور انسان کو اپنی اندرونی طاقت سے متعارف کراتی ہیں۔ علاج کے طور پر، تھراپی بھی اس مثبت رویے کو فروغ دینے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ CBT یعنی Cognitive Behavioral Therapy فرد کو یہ سکھاتی ہے کہ وہ منفی خیالات کو کیسے پہچانے اور انھیں مثبت یا حقیقت پسندانہ انداز میں کیسے بدلے۔ اس سے سوچ کا زاویہ بدلتا ہے اور دھیرے دھیرے انسان میں استقامت اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ زندگی میں ایسے لوگ ملنا بھی خوش نصیبی ہے جو آپ کے دکھ کو محسوس کر سکیں۔ ان کے ساتھ وقت گزارنا، گفتگو کرنا اور اعتماد کا رشتہ قائم رکھنا، ریزیلینس کو پروان چڑھانے میں مدد دیتا ہے، مگر جب ایسا کوئی ساتھ موجود نہ ہو، تو خود کو سنبھالنے، لکھنے، عبادت یا فطرت سے تعلق بنانے جیسی سرگرمیاں انسان کو ٹوٹنے سے بچاتی ہیں۔ سائیکولوجیکل ریزیلینس،گویا ایک مسلسل سفر ہے۔ یہ ایک دن یا ہفتے میں حاصل نہیں ہوتی۔ ہر تجربہ، ہر درد، ہر چیلنج، انسان کو اندر سے نکھارنے اور اس کی شخصیت کو گہرا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اصل کامیابی صرف مشکلات سے بچنے میں نہیں، بلکہ ان کا سامنا کرنے اور ان سے سیکھنے میں ہے۔ جو معاشرے اپنی فرد کی ذہنی اور جذباتی بھلائی کا خیال رکھتے ہیں، وہاں نہ صرف انفرادی سطح پر ذہنی سکون پیدا ہوتا ہے بلکہ اجتماعی طور پر بھی ایسے معاشرے زیادہ بیدار، پرامن اور ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ سائیکولوجیکل ریزیلینس صرف ایک نفسیاتی تصور نہیں بلکہ انسانیت کی بقا کا ذریعہ ہے۔ اگر انسان سیکھ جائے کہ وہ اپنے زخموں کو طاقت میں کیسے بدلے، اپنے دکھوں کو بصیرت میں کیسے بدلے اور اپنے خوف کو محبت میں کیسے ڈھالے، تو وہ نہ صرف زندہ رہتا ہے، بلکہ حقیقی معنوں میں جیتا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل