Loading
پی ٹی آئی کا سیاسی قافلہ اب کہاں جا کر ٹھہرے گا؟ کوٹ لکھپت جیل سے آنے والے خط کے بعد اس سوال پر غور ضروری ہے۔ اس سوال پر غور کرتے ہوئے بہتر ہے ایک نگاہ پی ٹی آئی کے سرکاری مؤقف پربھی ڈال لی جائے۔پی ٹی آئی کا تصدیق شدہ سرکاری مؤقف کیا ہے؟ یہ سوال پریشان کر دینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ پی ٹی آئی کے مخالفین نہیں بلکہ اس کے اپنے متعلقین بھی یقین رکھتے ہیں کہ یہ جماعت بری طرح اختلافات کا شکار ہے جس کے مظاہر سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ اختلافات اپنی جگہ لیکن ایک تاثر ایسا ہے جس پر اس جماعت کے حامی اور مخالفین مکمل طور پر یک سو ہیں۔ یہ ہے عمران خان کا انداز فکر۔ وہ آج بھی اپنے اسی مؤقف پر چٹان کی طرح جمے ہوئے ہیں جسے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد انھوں نے اختیار کیا تھا۔ ان کا انداز فکر کیا ہے؟ اس تک براہ راست رسائی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے وہ قیادت جسے انھوں نے اپنی جگہ بٹھایا ہے، اس کی کہی ہوئی بات کو ان کا مؤقف سمجھا جا سکتا ہے یا پھر ان لوگوں کی گفتگو یہ سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے جو جیل میں ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں جیسے ان کی قابل احترام بہنیں، محترمہ علیمہ خان وغیرہ۔ دشواری یہ ہے کہ ان خواتین کی بات چیت اکثر مشکل میں ڈال دیتی ہے۔ اس کے بعد پارٹی مؤقف کو سمجھنے کا ایک ہی ذریعہ باقی رہ جاتا ہے، وہ ہے پارٹی کا طرز عمل۔ پی ٹی آئی کا طرز عمل سمجھنے کا طریقہ پارٹی کی سیاسی پوزیشن ہے۔ پوزیشن سے مراد اس کی سیاسی حکمت عملی ہے جو پارٹی راہ نماؤں کے باہمی اختلافات اور مخالفانہ بیان بازی کے باوجود برقرار ہے۔ اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے جو مؤقف آتا ہے، وہی پارٹی کا تصدیق شدہ مؤقف ہے۔ یہ مؤقف ہے، موجودہ حکومت کے بارے میں غیر لچک دار پالیسی یعنی اس کے لیے بانی پی ٹی آئی کوئی گنجائش نہیں رکھتے اور وہ صرف اور صرف اسی فریق کے ساتھ رابطوں اور مذاکرات کے متمنی ہیں جسے وہ طاقت کا مرکز قرار دیتے ہیں یعنی اسٹیبلشمنٹ۔ بانی پی ٹی آئی نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد یہ مؤقف اختیار کیا تھا اور اب پلوں تلے سے کروڑوں کیوسک پانی گزر جانے کے باوجود بھی وہ اسی مؤقف پر کھڑے ہیں۔ مستقل مزاجی اسی کو کہتے ہیں۔ وہ اس تمام عرصے میں اپنے مؤقف پر قائم رہے ہیں، اس ثابت قدمی کے لیے وہ یقینا داد کے مستحق ہیں۔ وہ اگر ثابت قدم ہیں تو پھر اس جماعت کو پریشان نہیں ہونا چاہیے اور اسیران کوٹ لکھ پت م کو خط نہیں لکھنا چاہیے تھا۔ سوال یہ ہے کہ ان راہ نماؤں نے خط کیوں لکھا؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے۔ جواب یہ ہے کہ سیاست میں مستقل مزاجی تو یقینا خوبی ہے لیکن حکمت عملی میں لچک بھی ناگزیر ہے۔ لچک دریا میں کشتی چلانے جیسی ہوتی ہے جسے ماہر القادری نے بڑی خوبی سے بیان کیا ہے ؎ جہاں جس کی ضرورت تھی وہی تدبیر کی تو نے کبھی کشتی کو جنبش دی کبھی موجوں کو ٹھہرایا خط لکھنے والے راہ نما محسوس کرتے ہیں کہ یہی واحد معاملہ ہے جو پارٹی کی کمزوری بھی ہے اور اس کے بانی کی کمزوری بھی یعنی پارٹی کو حکمت سے نہیں چلایا گیا۔ بانی پی ٹی آئی کے غیر لچک دار مزاج کی وجہ سے پارٹی کارکن بھی یک رخے ہو گئے ہیں۔ اپنے مخالفین کے خلاف مزاحمت میں وہ ریاست اور سیاست کا فرق سمجھ نہیں پائے لہٰذا وہ ایسا بہت کچھ کر بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کو مسلسل نقصان ہو رہا ہے۔ خط کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اسیر راہ نما محسوس کرتے ہیں کہ پارٹی کے بانی اس نقصان کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں اور انھوں نے پی ٹی آئی کو تصادم کی طرف دھکیل کر اس کا مستقبل مخدوش کر دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے اپنی رائے کے اظہار کے لیے پارٹی کے اندرونی فورم کے سامنے اپنا مؤقف پہنچانے کے بہ جائے کھلا خط لکھنا پسند کیا۔ ایسا کھلا خط لکھنے کی ضرورت تب ہی پیش آتی ہے جب کوئی دوسرا راستہ نہ بچا ہو۔ اس لیے انتہائی محتاط الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ خط پارٹی کے سرکاری مؤقف اور اس مؤقف کے موجد پر عدم اعتماد ہے۔ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اسے بھی اس خط کے مندرجات کے ساتھ اتفاق ہے۔ فریق مخالف کا اس ضمن میں طرز عمل کیا ہو گا؟ ابھی اس کا انتطار ہے لیکن اندازہ یہی ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنے راستے پر چلتے رہیں گے، اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خط پی ٹی آئی میں پہلی بڑی تقسیم کو بنیاد فراہم کر رہا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ عبدالستار عاصم کی ـ’ماں‘ ماں ایک ایسا موضوع ہے، کسی بھی انسانی سماج میں جس پر اختلاف نہیں ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماں سے تعلق اور محبت ایک مسلمہ انسانی قدر ہے، ذوق سلیم رکھنے والے لوگ ہی نہیں بلکہ گناہ گار اور عرف عام میں برے لوگ بھی ماں کے تعلق سے جذباتی ہو جاتے ہیں۔ سبب کیا ہے، سبب وہی ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں کیا گیاکہ ماں نے تمھیں نو ماہ پیٹ میں رکھا پھر جب تم پیدا ہوئے اور کچھ کرنے کے قابل نہیں تھے، اس نے تمھیں پال پوس کر بڑا کر دیا۔ ماں کے ساتھ انسان کا یہ تعلق ہی ہے کہ سخت سے سخت جا ن انسان بھی اس کے ذکر پر پسیج جاتا ہے۔ علامہ عبد الستار عاصم نے اسی موضوع کے درجنوں پہلو ؤں پر قلم اٹھا کر ایک کتاب میں یک جا کر دیاہے۔ علامہ صاحب کا تعارف تو پبلشر کا ہے لیکن ان کی یہ کتاب دیکھیں تو وہ ایک محقق کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ انھوں نے اِ س موضوع پر قرآن و سنت اور دیگر مذہبی متون سے ہی ماں کے کردار اور حیثیت کا جائزہ پیش نہیں کیا بلکہ سائنس، ٹیکنالوجی، عمرانیات، سماجیات حالاں کہ فنون لطیفہ کے تعلق سے بھی ماں کے بارے میں انسانی احساسات اور جذبات کا جامعہ مطالعہ پیش کر دیا ہے۔ وہ لوگ جو زندگی کے مختلف شعبوں میں ماں کے بارے میں جذبات اور احساسات کوسمجھنے کے خواہش مند ہیںِ ان کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ مثال کے طور پر فلم کو لے لیں، اس تفریحی شعبے میں ماں کا کردار ہمیشہ زیر بحث آتا ہے جسے دیکھ کر گاہے محسوس ہوتا ہے کہ کہانی نویس اور پروڈیوسر کا مطالعہ اور مشاہدہ اس شعبے میں ناقص تھا۔ ایسے مظاہر کا ایک سبب ان شعبوں میں بھیڑ چال ہے لیکن اگر متعلقہ شعبوں کے لوگ کم از کم اس کتاب کا مطالعہ ہی کر لیں تو وہ موضوع کے ساتھ انصاف کر سکیں گے۔ خیر یہ تو ایک مثال ہے ، یہ کتاب ہر صاحب دل اور صاحب ایمان کے لیے ہے جو ماں کے بارے میں اس کے علم میں اضافہ کرے گی۔ قلم فاؤنڈیشن نے یہ کتاب روایتی اہتمام کے ساتھ شایع کی ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل