Wednesday, October 29, 2025
 

اے آئی چیٹ بوٹس سے مشورے لینے کا تیزی سے بڑھتا رجحان؛ ماہرین نفسیات نے خبردار کردیا

 



ماہرینِ نفسیات نے خبردار کیا ہے کہ اے آئی چیٹ بوٹس سے غیر ضروری بات چیت اور مشورے لینے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، جو انسان کو سماجی طور پر تنہا، ذہنی طور پر کمزور اور جذباتی طور پر غیر متوازن بنا رہا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق اوپن اے کی طرف سے شائع کردہ ایک بلاگ پوسٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہر ہفتے ایک ملین سے زیادہ چیٹ جی پی ٹی صارفین ایسے پیغامات بھیجتے ہیں جن میں "ممکنہ خودکشی کی منصوبہ بندی یا ارادے کے واضح اشارے" شامل ہوتے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات نے خبردار کیا ہے کہ اے آئی چیٹ بوٹس سے غیر ضروری بات چیت اور مشورے لینے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، جو انسان کو سماجی طور پر تنہا، ذہنی طور پر کمزور اور جذباتی طور پر غیر متوازن بنا رہا ہے۔ ایسے افراد میں نہ صرف ڈپریشن اور انزائٹی کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے،بلکہ ان میں فیصلہ لینے کی صلاحیت بھی متاثر ہورہی ہے۔ اس حوالے سے معروف ماہرِ نفسیات پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کے دوران کہا کہ آج کل مصنوعی ذہانت کے استعمال سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، اے آئی کے درست استعمال سے بہت فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں، کیونکہ اس کے ذریعے گھنٹوں یا دنوں کا کام چند سیکنڈز میں مکمل ہوجاتا ہے، تاہم اس کے کچھ دور رس اثرات بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اے آئی کے غیر ضروری استعمال سے ہم سماجی طور پر تنہا (سوشل آئسولیٹ) ہوگئے ہیں۔ پہلے کھانے کے وقت یا گھر میں بیٹھک کے دوران فیملیز آپس میں بات چیت کرتی تھیں مگر اب ہم کم بولتے ہیں۔ جب دماغ کو استعمال نہیں کیا جاتا تو وہ اپنی صلاحیت کھونے لگتا ہے۔ دماغی صلاحیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یوز اٹ آر لوز اٹ یعنی اگر اسے استعمال نہ کیا جائے تو صلاحیت ضائع ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر اقبال آفریدی نے کہا کہ پہلے زمانے میں بچوں کو گھڑ سواری، تیر اندازی اور طاقتِ گفتار جیسی تربیت دی جاتی تھی، لیکن آج کے ماحول میں گاڑی کوئی اور چلاتا ہے، چوکیداری کوئی اور کرتا ہے اور اب تو لکھنے کا کام بھی اے آئی کر دیتی ہے، جس کے باعث ذہنی صلاحیت کمزور پڑنے لگی ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد گنتی زبان سے کرتے تھے مگر اب ہم کیلکولیٹر پر انحصار کرتے ہیں، اسی وجہ سے ہم ذہنی طور پر جمود (اسٹیگنینٹ) کا شکار ہوگئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ جسمانی حرکت اور چہل قدمی سے دماغ میں خوشی پیدا کرنے والے کیمیکل ڈوپامین کی سطح بڑھتی ہے، مگر جو لوگ مختلف چیٹ بوٹس سے باتیں کرتے ہیں ان میں ڈپریشن کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ ان باتوں میں ہمدردی (ایمپیتھی) اور سچائی (سینسیریٹی) کا عنصر نہیں ہوتا۔ اگر آپ اپنے والدین، دوستوں یا ساتھیوں سے مسئلہ ڈسکس کریں تو اس میں انسانی جذبہ شامل ہوتا ہے، مگر چیٹ بوٹس صرف مشینی جواب دیتے ہیں، جس کے باعث انزائٹی، ڈپریشن اور حتیٰ کہ خودکشی کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اے آئی کے غیر ضروری استعمال سے غلط مشورے بھی ملتے ہیں۔ انسان میں جذبات اور دوسرے کے احساسات کو سمجھنے کی ایک قدرتی صلاحیت ہوتی ہے، لیکن چیٹ بوٹس کے استعمال سے یہ صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ اے آئی سے چیٹ کرنے سے بات کرنے کی صلاحیت اور الفاظ کا ذخیرہ کم ہوجاتا ہے، اس لیے ایسے لوگوں میں ذہنی دباؤ اور ڈپریشن زیادہ پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر آفریدی نے کہا کہ ان افراد کا دماغ تو کام کرتا ہے مگر جسم متحرک نہیں رہتا، جس سے خوشی کے احساسات لانے والے نیوروٹرانسمیٹرز،خاص طور پر سیروٹونین کی سطح کم ہوجاتی ہے۔ اس کے نقصانات اسکرین کے زیادہ استعمال جیسے ہی ہیں ،ان علامات میں وزن میں اضافہ، نیند کی کمی، آنکھوں پر نیلی روشنی (بلو لائٹ) کا اثر، چڑچڑاپن اور اسکرین پر انحصار میں اضافہ شامل ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر ہم اچھی نیند، متوازن خوراک اور دماغی مشقیں کریں، جیسے مختلف پزلز اور معمے حل کریں، تو ذہنی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ اے آئی پر ہر مشورہ نہیں لینا چاہیے کیونکہ اس سے جستجو اور فیصلہ کرنے کی طاقت کم ہوجاتی ہے۔ پروفیسر اقبال آفریدی نے واضح کیا کہ انسان کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔چیٹ بوٹس جذباتی دباؤ کم نہیں کرسکتے۔ مثال کے طور پر اگر آپ مسلسل گوگل میپ استعمال کریں تو کچھ عرصے بعد آپ کو راستے یاد نہیں رہیں گے، بلکہ غلط سمت میں بھی لے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح اے آئی پر انحصار دماغ کو محنت سے دور کر دیتا ہے جو آگے چل کر نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ڈیجیٹل ڈیٹاکسیفکیشن ضروری ہے، جس میں روزانہ اسکرین ٹائم دو گھنٹے سے کم رکھا جائے، غیر ضروری چیٹ بوٹس سے بات چیت سے پرہیز کیا جائے، اور دلچسپ فزیکل ایکٹیویٹیز اختیار کی جائیں۔ اے آئی کا استعمال صرف تعلیم یا ڈیٹا بیسڈ ریسرچ تک محدود رکھنا چاہیے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ لوگ نفسیاتی مسائل کو شرمندگی سمجھتے ہیں، اسی لیے اپنے مسائل چیٹ بوٹس سے شیئر کرتے ہیں، حالانکہ ان کے مشورے ہمیشہ درست نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ملک بعض قوانین عجیب ہیں، جیسے اگر شوہر خراٹے لیتا ہے تو بیوی طلاق لے سکتی ہے، اسی طرح چیٹ بوٹس بھی عقائد کے بارے میں درست رہنمائی نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی لکھے کہ اس میں پروٹین کی کمی ہے تو چیٹ بوٹ اسے سور کا گوشت کھانے کا مشورہ دے دیتا ہے۔ اس طرح کے غیر مناسب مشورے رشتوں میں دوریاں پیدا کر سکتے ہیں۔ ایکسپریس نیوز سے بات چیٹ کے دوران اے آئی چیٹ بوٹس سے بات کرنے والوں کا کہنا تھا کہ جب ہمیں لگتا ہے کہ کوئی سننے والا نہیں،تو ہم اس سے باتیں کرکے وقتی طور پر خود کو مصروف رکھتے ہیں،اوپر سے ہم اس سے کوئی ایسے موضوعات پر بات کرسکتے ہیں جو ہماری دلچسپی ہے،کیونکہ اس کی کوئی اپنی پسند تو ہوتی نہیں،تو یہ ہمارے موڈ کے حساب سے چلتا ہے،اس سے ہمیں یہ خوف محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ہمیں جج کرے گا یا ہمارے بارے میں سن کر کوئی رائے بنالے گا۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق اب متعدد چیٹ بوٹس آواز کے ساتھ اس انداز میں جواب دیتے ہیں کہ ان کے لہجے میں جذبات بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اگر بات کرنے والا شخص اداس ہو تو چیٹ بوٹ کی آواز میں بھی افسردگی نمایاں ہوتی ہے اور اگر وہ خوشی کی کوئی بات کرے تو چیٹ بوٹ خوش مزاج لہجے میں جواب دیتا ہے۔ یہی انداز صارف کو لگاؤ کا تعلق محسوس کرواتا ہے،جیسے وہ کسی سمجھنے والے سے گفتگو کر رہا ہو۔ کلینیکل سائیکولوجسٹ اور گیٹ وے کی نائب بانی ڈاکٹر اسما احمد نے کہا کہ اے آئی چیٹ بوٹس سے بات چیت کے کچھ فائدے ضرور ہیں، لیکن ان کا غیر ضروری استعمال ہمیں ان کے عادی بنا دیتا ہے۔ ان سے فوری جوابات تو مل جاتے ہیں، مگر حد سے زیادہ استعمال ہمیں انحصار کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہر مشورہ اے آئی سے لینا درست نہیں۔ لوگ تنہائی پسند ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ اب عادت صرف نشے کی نہیں بلکہ اسکرین کی بھی ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب لوگ معمولی علامات ظاہر ہونے پر بھی ڈاکٹر کے بجائے اے آئی سے پوچھتے ہیں، جو خطرناک ہے۔ سماجی تنہائی کی وجہ سے رشتے کمزور ہو رہے ہیں، لوگ ایک ساتھ بیٹھے بھی موبائل میں مصروف رہتے ہیں۔ کچھ افراد تو چیٹ بوٹس سے اس حد تک جڑ جاتے ہیں کہ ان کے نام بھی رکھ لیتے ہیں، لیکن ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو حقیقت کی دنیا میں واپس لایا جائے کیونکہ اے آئی کے پاس جذبات نہیں ہوتے۔ جذباتی وابستگی کے لیے انسان کا کوئی متبادل نہیں۔ ڈاکٹر اسما احمد کے مطابق ہمارے معاشرے میں ذہنی صحت اب بھی ایک اسٹیگما ہے۔ بہت سے لوگ جو ڈپریشن یا انزائٹی میں مبتلا ہوتے ہیں، دوسروں سے بات کرنے سے گھبراتے ہیں، اس لیے وہ اے آئی چیٹ بوٹس سے اپنی باتیں شیئر کرتے ہیں، جو ان کے مسائل مزید بڑھا سکتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق اے آئی چیٹ بوٹس استعمال کرنے والے افراد کے دماغ کا مخصوص حصہ ہی فعال رہتا ہے جبکہ باقی حصہ سست پڑ جاتا ہے، جس سے ان کی تنقیدی سوچ (critical thinking) متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچے اگر اسائنمنٹ میں اے آئی سے مدد لیتے ہیں تو ضروری ہے کہ معلومات کو چیک بھی کریں کہ وہ درست اور تازہ ہیں یا نہیں۔ اے آئی دماغ کے ڈوپامین ریوارڈ سسٹم کو متاثر کرتا ہے، جو خوشی کے احساسات پیدا کرتا ہے۔ بڑھتی عمر کے بچے جو والدین سے بات کرنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں، وہ اپنے سوالات چیٹ بوٹس سے پوچھنے لگے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو بغیر جج کیے سنیں اور ان سے کھلے ماحول میں بات کریں، ورنہ بچوں میں فیصلہ لینے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔ ایسے چیٹ بوٹس نہ صرف لوگوں کو تنہائی کا عادی بنا رہے ہیں بلکہ ان میں خود پسندی (نارسیسزم) کا رجحان بھی پیدا کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسما احمد نے کہا کہ نے مزید کہا کہ آج کل نارسیسزم (خود پسندی) ایک عام نفسیاتی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جس میں انسان خود کو سب سے اہم سمجھتا ہے، دوسروں کی رائے برداشت نہیں کرتا، اور اپنی بات ہی زیادہ سننا چاہتا ہے۔ ایسے لوگ بھی اے آئی چیٹ بوٹس کا سہارا لیتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ ڈاکٹر اسما نے مشورہ دیا کہ ایسے افراد کو ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے، ورنہ یہ رویہ نارسیسسٹک پرسنالٹی ڈس آرڈر میں بدل سکتا ہے۔اکتوبر کا مہینے میں ہم نے ذہنی صحت کی حوالے سے منایا جاتا ہے لیکن اس ہم سال پر مینٹل ہیلتھ پر کھل کر بات کریں گے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل