Friday, October 31, 2025
 

اُف نہ کہنا، غُصّے کا اظہار نہ کرنا

 



اﷲ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پُرویا ہے، ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے اور کسی کو بیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی نسبت عطا کی ہے، غرض رشتے بنا نے کے بعد اﷲ تعالیٰ نے ان کے حقوق مقرر فرمائے ہیں، ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کر نا ضروری ہے، لیکن والدین کے حق کو اﷲ رب العزت نے قرآن کریم میں اپنی بندگی اور اطاعت کے فوراً بعد ذکر فرمایا، یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے ارشادِ گرامی کا مفہوم: ’’اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، اگر وہ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، چاہے اُن میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ان کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو) ان سے کبھی ’’ اُف‘‘ بھی مت کرنا اور نہ ان سے جھڑک کر بولنا اور ان سے خوب ادب سے بات کر نا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا: ’’اے ہمارے پروردگار! تو اُن پر رحمت فرما، جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے۔ (صرف ظاہر داری نہیں، دل سے اُن کا احترام کرنا) تمہارا رب تمہارے دل کی بات خوب جانتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں بہ کثرت معاف کرنے والا ہے۔‘‘ اس آیتِ کریمہ میں اﷲ جل جلالہ نے سب سے پہلے اپنی بندگی و اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کی بندگی ہرگز مت کرنا، اس کے بعد فرمایا کہ اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔ اولاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ والدین نہ صرف میرے وجود کا سبب ہیں، بل کہ آج میں جو کچھ ہوں، انھی کی برکت سے ہوں، والدین ہی ہیں جو اولاد کی خاطر نہ صرف ہر طرح کی تکلیف، دکھ اور مشقت کو برداشت کر تے ہیں، بلکہ بسا اوقات اپنا آرام و راحت، اپنی خوشی و خواہش کو بھی اولاد کی خاطر قربان کردیتے ہیں۔ سب سے زیادہ محنت و مشقت اور تکلیف ماں برداشت کرتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے، مفہوم: ’’اس ماں نے تکلیف جھیل کر اُسے پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اُسے جنا۔‘‘ حمل کی تکلیف اور اس سے بڑھ کر وضع حمل کی تکلیف، یہ سب ماں برداشت کرتی ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اب اس کی پرورش کے لیے باپ محنت و مشقت برداشت کرتا ہے، سردی ہو یا گرمی، صحت ہو یا بیماری، وہ اپنی اولاد کی خاطر کسبِ معاش کی صعوبتوں کو برداشت کرتا ہے اور ان کے لیے کما کر لاتا ہے، ان کے اوپر خرچ کرتا ہے، ماں گھر کے اندر بچے کی پرورش کرتی ہے، اس کو دودھ پلاتی ہے، اس کو گرمی و سردی سے بچانے کی خاطر خود گرمی و سردی برداشت کرتی ہے، بچہ بیمار ہوتا ہے تو ماں باپ بے چین ہوجاتے ہیں، ان کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں، اس کے علاج و معالجہ کی خاطر ڈاکٹروں و علاج گاہوں کے چکر لگاتے ہیں۔ غرض والدین اپنی راحت و آرام کو بچوں کی خاطر قربان کرتے ہیں، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے جہاں اپنا شکر ادا کر نے کا حکم دیا ہے، وہاں ساتھ والدین کا بھی شکر گزار رہنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، سورہ لقمان، مفہوم: ’’میرا شکر ادا کرو۔ اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو۔ تمھیں میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘ اﷲ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔ ان کے ساتھ انتہائی تواضع و انکساری اور ا کرام و احترام کے ساتھ پیش آئے۔ بے ادبی نہ کرے۔ تکبّر نہ کرے۔ ہر حال میں اُن کی اطاعت کرے ، الا یہ کہ وہ اﷲ کی نافرمانی کا حکم دیں تو پھر اُن کی اطاعت جائز نہیں۔ سورہ عنکبوت میں اﷲ تعالیٰ کے ارشادِ گرامی کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کر نے کا حکم دیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتا دیا ہے کہ اگر وہ تجھ پر اس با ت کا زور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے، جس کے معبود ہونے کی کوئی دلیل تیرے پاس نہ ہو تو اُن کا کہنا مت ماننا۔ حضرت حسن رضی اﷲ عنہ سے کسی نے دریافت کیا کہ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کس طرح کیا جائے؟ تو انھوں نے فرمایا: ’’تو اُن پر اپنا مال خرچ کر، اور وہ تجھے جو حکم دیں اس کی تعمیل کر، ہاں! اگر گناہ کا حکم دیں تو مت مان۔‘‘ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان کے سامنے اپنے کپڑے بھی مت جھاڑو، کہیں کپڑوں کا غبار اور دھول اُن کو نہ لگ جا ئے۔ اﷲ تعالیٰ نے خاص طور سے والدین کے بڑھاپے کو ذکر فرما کر ارشاد فرمایا کہ اگر ان میں کوئی ایک یا وہ دونوں تیری زندگی میں پڑھا پے کو پہنچ جائیں تو اُن کو ’’اُف‘‘ بھی مت کہنا اور نہ اُن سے جھڑک کر بات کرنا۔ حضرت اشرف علی تھانویؒ نے بیان القرآن میں ’’اُف‘‘ کا ترجمہ ’’ہوں‘‘ کیا ہے، کہ اگر ان کی کوئی بات ناگوار گزرے تو ان کو جواب میں ’’ہوں‘‘ بھی مت کہنا۔ اﷲ رب العزت نے بڑھاپے کی حالت کو خاص طور سے اس لیے ذکر فرمایا کہ والدین کی جوانی میں تو اولاد کو ’’ہوں‘‘ کہنے کی ہمت نہیں ہوتی اور نہ ہی جھڑکنے کی، جوانی میں بدتمیزی اور گستاخی کا اندیشہ کم ہوتا ہے، البتہ بڑھاپے میں والدین جب ضعیف ہوجاتے ہیں اور اولاد کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیادہ اندیشہ رہتا ہے۔ پھر بڑھاپے میں عا م طور سے ضعف کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑاپن اور الجھن پیدا ہوتی ہے، بعض دفعہ معمولی باتوں پر اور بسا اوقات درست اور حق بات پر بھی والدین اولاد پر غصہ کر تے ہیں، تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کو برداشت کر کے حسنِ سلوک کا مظاہرہ کر تے ہیں، یا ناک بُھوں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں، اس موقع کے لیے اﷲ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر بات کرنا تو دور کی با ت ہے، ان کو ’’اُف‘‘ بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی ناخوش گواری کا اظہار بھی مت کرنا۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہُوا، اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا، نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ یہ بوڑھا کون ہے؟ اس شخص نے جواب میں کہا کہ یہ میرا باپ ہے، آپؐ نے فرمایا: ’’اُن کے آگے مت چلنا۔ مجلس میں اُن سے پہلے مت بیٹھنا۔ اُن کا نام لے کر مت پکارنا۔ اُن کو گالی مت دینا۔‘‘ بڑھاپے میں جب والدین کی کوئی با ت ناگوار گزرے تو ان سے کیسے گفت گُو کی جائے۔۔۔ ؟ اس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان سے خوب ادب سے با ت کرنا۔ اچھی بات کر نا۔ لب و لہجہ میں نرمی اور الفاظ میں توقیر و تکریم کا خیال رکھنا۔ ان کے سامنے شفقت کے ساتھ انکساری سے جھکتے رہنا۔ ان کے سامنے ایسی روش اختیار کر کہ تیری وجہ سے ان کی دلی رغبت پوری کرنے میں فرق نہ آئے اور جس چیز کو والدین پسند کریں تو وہ ان کی خدمت میں پیش کر نے میں کنجوسی مت کرنا۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے والدین کے حقوق کی ادائی کے بارے میں اﷲ کا فرماں بردار رہا تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہو تے ہیں۔ اور اگر والدین میں سے ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو جنت کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔ اور جس نے اپنے والدین کے حقوق کی ادائی میں اﷲ کی نافرمانی کی، اس کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق حسنِ سلوک نہ کیا تو اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھلے رہتے ہیں اور اگر والدین میں ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ بدسلوکی کرے تو جہنم کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔‘‘ کسی نے پوچھا: اے اﷲ کے نبی ﷺ! اگرچہ ماں باپ نے اس پر ظلم کیا ہو ؟ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تین دفعہ فرمایا: ’’اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو۔‘‘ اﷲ تعالیٰ نے جہاں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، وہیں پر ان کے لیے دعا کرنے کی تعلیم بھی ارشاد فرمائی ہے، ارشادِ خداوندی ہے، مفہوم: ’’اے میرے پروردگار! تُو میرے والدین پر ایسے ہی رحم فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں رحمت و شفقت کے ساتھ میری پرورش کی ہے۔‘‘ ہر نماز کے بعد والدین کے لیے دعا کرنے کا معمول بنالیں، دو بہت آسان دعائیں جن کی تعلیم خود اﷲ جل شانہ نے قرآن کریم میں دی ہے، ایک ماقبل والی اور دوسری یہ: ’’اے میرے پروردگار! روزِ حساب تُو میری، میرے والدین کی اور تمام ایمان والوں کی بخشش فرما۔‘‘ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک رزق و عمر میں اضافہ کا سبب ہے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اﷲ اس کی عمر دراز کردے اور رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے۔‘‘ ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے فر مایا: ’’تم اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو، تمہاری اولاد تمہارے ساتھ حسنِ سلوک کرے گی۔‘‘ والدین دونوں یا ان میں کوئی ایک فوت ہوگیا ہو اور زندگی میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک نہیں کیا اور کوتاہی ہوئی تو اب تدارک کیسے کیا جائے؟ حضور اقدس ﷺ نے اس کی بھی تعلیم دی ہے۔ حضرت ابواُسید رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ہم حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آیا اور عرض کیا کہ ماں باپ کی وفات کے بعد بھی کوئی چیز ایسی ہے جس کے ذریعے ان سے حسنِ سلوک کروں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں! ان کے لیے رحمت کی دعا کرنا، ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنا، ان کے بعد اُن کی وصیت کو نافذ کرنا اور اس صلہ رحمی کو نبھانا جو صرف ماں باپ کے تعلق کی وجہ سے ہو، ان کے دوستوں کا اکرام کرنا۔‘‘

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل