Friday, October 31, 2025
 

بُتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی۔۔۔۔ !

 



قرآن حکیم ہمیں بتاتا ہے کہ بنی اسرائیل کا گزر ہوا ایک ایسی بستی سے جہاں کے رہنے والے بتوں کی عبادت کر رہے تھے۔ اور بنی اسرائیل انھیں مشرکین کو دیکھ کر حضرت موسیٰؑ سے تقاضا کرتے ہیں کہ آپؑ ہمیں بھی ایسا ہی خدا بنا دیجیے اور حضرت موسیٰؑ جواب دیتے ہیں کہ تم تو بڑے ہی نادان ہو۔ یہ وہی قوم ہے جو تمام صعوبتوں سے گزر کر یہاں پہنچتی ہے۔ فرعون نے اسی قوم کی زندگی مشکل میں ڈالی، یہی قوم ظلم و جبر کے نہ ختم ہونے والے دور سے گزرتی رہی۔ فرعون نے اسی قوم کے نوزائدہ بچوں تک کو قتل کیا۔  اور پھر اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو کام یابی عطا کی۔ فرعون اور اس کی فوج سمندر میں غرق ہوئی۔ حضرت موسیٰؑ کو اﷲ عزوجل نے سمندر کے دو حصے ہو جانے کے معجزے سے نوازا۔ ایسا معجزہ جو دوسری آسمانی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ یعنی کتاب کوئی بھی لے لیجیے، زبور، تورات یا انجیل، اﷲ کے پیغام کا تسلسل ہی ہمیں نظر آتا ہے۔ الفاظ مختلف ہوں گے، وقت مختلف لیکن پیغام وہی۔ اﷲ کی ذات کی عظمت یعنی وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ اب سمجھنے والے پر ہے کہ قبول کرے یا نہ کرے۔ موسیٰؑ کا واقعہ کیا بہت مشکل ہے، ہمارے لیے سمجھنا۔ اﷲ تعالیٰ نے تمام جزئیات کے ساتھ بیان فرما دیا حضرت موسیٰؑ کا مقابلہ فرعون سے اور اس کے جھوٹے تابع داروں سے اور پھر بھی یہ قوم موسیٰؑ سے تقاضا کرتی ہے کہ آپ ہمیں بنا دیجیے ایسا ہی ایک خدا۔ سوچیے! کیا ہم بھی تو ایسا ہی نہیں کر رہے؟ دوسری سوچوں، نمود اور مظاہروں سے مرعوب ہو جانا، ایسی سوچوں سے مرعوب ہو جانا جو اﷲ کے پیغام کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ اور ہم جانتے ہیں کہ یہ کھلی خلاف ورزی ہیں۔ غور طلب بات ہے کہاں ہیں ہم؟ کس طرح کی خواہش اور امنگیں پالی ہوئی ہیں۔ کیا رابطہ رہ گیا ہے ہمارا ہمارے اﷲ کے ساتھ! کیا ہم بھول گئے ہیں، ہمارا تعلق کہاں سے ہے، تعلق اس دین سے جو ہماری نجات ہے۔ آج کی تحریر میں اس آیت کو چننے کا مقصد یہی ہے کہ آج کے وقت میں بھی اﷲ کا پیغام بنی اسرائیل کی مثال کے ساتھ کس طرح پورا اتر رہا ہے۔ اور یہ بھی سمجھنے کی بات کہ قرآن میں جو قصے بیان ہوئے ہیں وہ کوئی پرانے وقتوں کی بات نہیں ہیں۔ وہ ماضی سے جڑے تاریخی واقعات ضرور ہیں لیکن ہر دور کے لیے زندہ پیغام ہیں۔ ہر نسل اور ہر آنے والے وقتوں کے لیے کامل۔ اسی آیت کے ترجمے کو آگے دیکھتے ہیں۔ بنی اسرائیل کی خواہش ہر موسیٰؑ سے: ’’اے موسیٰؑ! بنا دیجیے ہمارے لیے بھی ایک ویسا خدا ، جیسے ان کے خدا ہیں۔‘‘ اور موسیٰؑ نے کیا جواب دیا: ’’موسیٰؑ نے کہا: درحقیقت تم لوگ بڑے ہی نادان ہو۔‘‘ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اﷲ کی طاقت اور موسیٰؑ کے معجزات کا بہ راہ راست مشاہدہ کیا۔ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد بھی کیا کہہ رہے ہیں؟ کس خواہش کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہمیں بھی ویسا ہی بنا دیجیے ایک خدا۔ یعنی دوسروں سے متاثر ہوگئے۔ خواہش بڑھی اور جہالت کا ارتکاب ہوا۔ ہم کیا کر رہے ہیں؟ غور کیجیے اپنا محاسبہ کیجیے، کہیں ہم بھی تو اسی جہالت کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ خواہشوں کے پیچھے بھاگ کر اپنا ایمان تو خراب نہیں کر رہے ہم؟ یہ ہے سوچنے کی بات! کیا موسیٰؑ کا واقعہ بہت مشکل ہے ہمارے لیے سمجھنا؟ موسیٰؑ کا جواب کہ تم کتنے نادان ہو کہ اپنی خواہشوں کو پوج رہے ہو۔ غور کریں ہم جس وقت سے گزر رہے ہیں وہاں یہ سوچ ایک عام بات ہے ’’کیوں کہ مجھے اچھا لگ رہا ہے میں تو کروں گا یا کروں گی‘‘ کوئی روک تھام ہے اپنے خیالات اور خواہشوں پہ؟ حالات یہ ہو چکے ہیں کہ جتنا اپنی خواہشات کو بے لگام چھوڑو ، تم اتنے ہی کام یاب! یہ ہم کس دور میں رہ رہے ہیں۔ کیا یہ بے لگام خواہشات کی روش ہمارے اندر قناعت پیدا کر سکتی ہے؟ کبھی نہیں، ہمیں اپنی سوچوں کو درست کرنا ہوگا، ان کو ایمان سے باندھنا ہوگا، ان کو ایمان کے برابر لانا ہوگا۔ ان بے لگام خواہشات کو روکنا ہوگا، تھامنا ہوگا۔ جب ہم گاڑی چلاتے ہیں تو گاڑی کو روکنے یا رفتار کم کرنے کے لیے بریک استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ پرزہ کسی بھی گاڑی کا ایک لازمی جزو ہے۔ اگر یہ لازمی جزو نہ ہو تو گاڑی آپ کو منزل تک پہنچانے کے بہ جائے کہیں دے مارے گی۔ اپنی خواہشات کی اس تیز رفتار زندگی میں ڈھونڈیں اپنے اندر اس جزو کو، کہیں وہ جزو قناعت کی خوبی تو نہیں۔ قناعت جو سکون اور اطمینان لانے کا باعث ہوتی ہے۔ یہی ہمارے بڑے ہمیں نصیحت کرتے ہیں۔ اگر ہم قناعت کو سکون اور اطمینان سے جوڑ رہے ہیں تو سکون، اطمینان کا الٹ کیا ہُوا ؟ بے چین، بے سکون، بے کل، بے قرار۔ ہمارا مذہب ہمارا دین تو ہمیں غور و تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ یعنی جب ہمیں پتا ہے کہ آگ کا کام جلانا ہے اور ہم آگ سے نہیں ڈرتے تو یہ سوچ تو سراسر حماقت ہوئی۔ بے لگام خواہشات کہاں لے جا سکتی ہیں پتا ہے لیکن پھر بھی نہ سمجھنا کیا کہلائے گا، سراسر حماقت۔ ایسی حماقت جس کی قیمت آپ کا ایمان بھی ہو سکتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی ہدایت میں رکھے آمین۔ ہمارا دین ہمیں مکمل اور واضح تصویر دیتا ہے۔ اﷲ ہمیں وہ بصیرت دے کہ ہم یہ دیکھ سکیں۔ کبھی ہم نے غور کیا اسلام کس طرح ہمارے خطے میں آیا۔ دو نسلوں میں ہی بھلا دیا ان قربانیوں کو۔ ہم نے بھلا دیا اس دین کے لیے لا الہ الا اﷲ کہنے والوں کی کیا نسل کشی ہوئی۔ آج کل یہ اصطلاح بہت استعمال ہو رہی ہے۔ دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ لیکن ہم بہت فخر سے نقالی کرتے ہیں، اس کلچر کی جو قرآن کے پیغامات کے سراسر مخالف ہے۔ مثلاً ہماری شادیوں میں کیا ہو رہا ہے، غور کریں سوچیں۔ اپنا محاسبہ کریں۔ کیوں ہو رہا ہے، ایسا کیوں کہ ہم نے بھلا دی ہے وہ تاریخ۔ صرف دو نسل پہلے ہی ہوا تھا ناں مسلمانوں کا قتل عام، قناعت کو بھلا دیا ہے۔ خواہشوں کو خدا بنا لیا ہم نے۔ کہاں ہیں ہم؟ یہ کس قسم کی خواہشات ہیں، کون سے خدا بنا لیے ہم نے، خواہشات کے ریگستان میں در بہ در ٹھوکریں کھا رہے ہیں ہم، بالکل اسی طرح جس طرح بنی اسرائیل موسیٰؑ کے ساتھ اور وہ بھی تمام روشنی ملنے کے بعد۔ یہی حال ہمارا ہے۔ سورۃ الاحزاب میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں مفہوم ’’اور اﷲ کے حکم  سے اس کی طرف دعوت دینے والا، اور روشن چراغ بنا کر۔‘‘ اور یہ سراج  المنیر ہمارے راہ بر و راہ نما جناب رسول کریم ﷺ ہیں۔ سراج منیر ایسا چراغ جو قیامت تک روشن ہے، جس طرح چراغ سے اندھیرے دور ہو جاتے ہیں اسی طرح سیرۃ النبی ﷺ ہمارے لیے راہ نمائی ہے۔ جو چاہے اس کی ضیاء سے سعادت حاصل کر لے، کتنے لوگ ہیں جو اپنے سرہانے سیرت طیبہ ﷺ کی کوئی بھی مستند کتاب رکھتے ہیں اور اس کو پڑھنا معمول ہے؟ خود بھی پڑھتے ہیں اور اپنے پیاروں کو بھی تلقین کرتے ہیں؟ اگر ہم نے ان عادات کو اپنی زندگی کا معمول نہیں بنایا ہوا ہے تو یقین کریں یہ دنیا بہت خوب صورت ہے۔ ہر موڑ پر ایک چمکتا دمکتا خواہشوں کا بت اپنی طرف بلاتا ہوا ملے گا۔ کہیں ہم اس کی خوب صورتی میں کھو کر اپنی زندگی کا اصل مقصد ہی نہ بھول جائیں۔ ہمیں اپنے آنے والی نسلوں کو اسلامی تعلیمات کا وہ خزینہ دینا ہے جو ان کو موجودہ زمانے کے فتنوں سے محفوظ رکھے۔ ہم صرف اپنے بارے میں ہی سوچتے رہیں اس کا وقت اب نہیں رہا، ہمیں اپنے بچوں، اپنے خاندان، اپنی آنے والی نسلوں کا سوچنا ہے۔ آج سے سو سال بعد کا سوچنا ہے، اپنا حصہ اس میں ڈالنا ہے، کیسے ہم محفوظ کریں اپنے ایمان کو یہ سوچنا ہے۔ کیا اپنی خواہشات، اپنی آرزوؤں، اپنے شوق کے پیچھے بھاگ بھاگ کر؟ قناعت کا دامن چھوڑ کر؟ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا رول ماڈل دے رہے ہیں یہ سوچنا ہے۔ کیا ہماری نوجوان نسل اتنی کم زور اور قابل رحم ہے کہ کوئی بھی مغربی خیال ان کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ ان پر جادو کر دیتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کو ان کے حساب سے ڈھالنے کی باتیں کرنے لگیں۔ جو خدا ہم نے بنا لیے ہیں دولت کے، شہرت کے، لامحدود خواہشات کے ان کو توڑنا ہوگا۔ اپنی ذہنیت کو بدلیں، سمجھیں خواہش اور ضرورت کے فرق کو۔ اگر خواہشات میں خیر ہے آپ کے لیے، معاشرے کے لیے، ایمان کے لیے تو بالکل پیروی کریں۔ اپنی خواہشات کے پیچھے حکمت، منطق، وجوہات کو تو معلوم کریں۔ کیا ہم ہیں اس فہم اور دانائی کے مرحلوں پہ۔ کیسے پہنچیں فہم کی اس منزل پر؟ قرآن کے قریب آئیں۔ سیرت رسول کو مشعل راہ بنائیں۔ سراج منیراً  اسوہ حسنہ ﷺ کی صورت میں ایسا چراغ جو قیامت تک روشن ہے۔ ایسی روشن مثال جو ہمارے پاس ہے الحمدﷲ۔ ہمارے ایمان ہماری تہذیب کی بنیاد اﷲ ہے۔ اﷲ کی رضا ہے۔ مغربی، لادینی یا سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہے خود پرستی، میں، میری خواہش، میری مرضی، میری رضا، ذاتی مسرت یا خوشی۔ ایمان کہتا ہے اﷲ کی خوشی پہلے۔ اﷲ کی رضا، اپنے نفس، اپنی سوچ اور خواہشات پر نظر کوئی وقتی عمل نہیں بل کہ مستقل ذمے داری ہے۔ یہ ایک کلی کیفیت کا نام ہے۔ اﷲ سے دعا ہے کہ اﷲ ہمیں وہ عقل و شعور کا فہم اور بصیرت عطا فرمائے جو ہماری دنیا و دین دونوں میں کام یابی کا باعث بن جائے۔ آمین

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل