Sunday, May 12, 2024

زباں فہمی نمبر205؛ ’ نُوراللغات کی سیر‘ (حصہ اوّل)

 



 کراچی: 3 مارچ 2024ء کو زباں فہمی نمبر 204 ”دستار سے دسترخوان تک“ شایع ہوا تو خاکسارنے نجی مصروفیات کے باعث ایک ماہ کی رخصت چاہی تھی۔ اب تازہ دم ہوکر حاضرِ خدمت ہوں۔ موضوعات کی ایک قطار ہاتھ باندھے کھڑی ہے، مگر کچھ ذائقے کی تبدیلی کے لیے ایک معتبر لغت کی سیر کو جی چاہتا ہے، سو آپ کو بھی شامل مطالعہ کرتا ہوں۔

اردو کی مستند لغات میں اوّلیت کا شرف پانے والی فرہنگ آصفیہ کے فوراً بعد، مولوی نورالحسن نیر کی نُوراللغات کا نمبر آتا ہے جس کے مندرجات اکثر مقامات پر اُس کے ہم پلّہ تو کہیں کہیں اُس سے بھی زیادہ اور بعض جگہ تو فرہنگ ِ آصفیہ کے چھوڑے ہوئے کوئی لفظ یا ترکیب کا یہاں پایا جانا قاری کو حیران کردیتا ہے۔

علامہ سید سلیمان ندوی نے ایک موقع پر گویا راقم کے اس خیال کی تائید میں ارشاد فرمایا تھا:

”ان نوجوانوں کے ساتھ، اس بوڑھے نیرّؔ کے فضل وکمال سے ہماری محرومی بھی اس سال (6ستمبر1936) کا افسوس ناک حادثہ ہے۔ وہ بڑے باپ کے بیٹے تھے اور خود بھی شاعر اور شاعر سے بڑھ کر محققِ فن تھے۔ ہماری زبان میں فرہنگ ِ آصفیہ کے بعد، دوسرا مکمل لغت نُوراللغات، اُن ہی کے آزمودہ کار ہاتھوں نے ترتیب دیا“۔ (ہندوستانی اکادمی کی پانچویں اُردو کانفرنس مؤرخہ 16جنوری 1937ء بمقام لکھنؤ سے بطور صدر محفل خطاب سے اقتباس مشمولہ ’نقوش ِ سلیمانی مطبوعہ 1939ء)

”زبانِ اردو کا وسیع باغ رنگ بِرنگے پھولوں سے بھرا پُرا ایسا مہک رہا ہے کہ شاید ہندوستان کاکوئی دماغ ایسانہ ہو جس میں اُس کی خوشبو کی لپٹیں نہ پہنچی ہوں لیکن پھول اس کثرت سے اور ایسی مختلف شکل وشباہت کے ہیں کہ آج یہ تمیز کرنا دشوار ہے کہ کس پھول کا پودہ کہاں سے لیا گیا، جڑ کہاں سے پھُوٹی اور اختلاف ِ آب وہوا نے رنگت پر کیا اَثر کیا۔ ہرایک پھول میں کئی طرح کی خوشبو ہے جس کا امتیاز آسان نہیں……….. اس تحقیقات کے مجموعے یا مخزن کو لُغت کے نام سے تعبیرکرتے ہیں“۔

مؤلف موصوف کی یہ عبارت نوراللغات کے پیش لفظ سے اُٹھائی گئی ہے۔ ہر چند کہ وہ اپنے والد گرامی کی طرح شاعر مشہور نہ ہوئے، لیکن بہرحال اُستاد شاعرتھے اور شاعری کا عمدہ ذوق اُن کی اس تالیف میں بھی جابجا نمایاں ہے۔ ”مولوی نورالحسن: حیات وخدمات“ کے عنوان سے اُن کے متعلق تحقیقی کتاب جناب عزیز الرحمن علیم نے لکھ کر1986ء میں دہلی سے شایع کی تھی۔ یہ کتاب آنلائن دستیاب ہے او ر یقینا معلومات کا خزینہ ہے۔

نُوراللغات کے مؤلف مولوی نورالحسن صاحب اپنے وقت میں قانون داں (بی اے، ایل ایل بی) اورشاعر کی حیثیت سے مشہور ہوئےمگر یہ بات آج بھی عوام الناس میں مشہور نہیں کہ وہ عظیم نعت گو محسنؔ کاکوروی کے لائق فرزند تھے، جن کا قصیدہ”مدیح ِ خیرالمرسلین(ﷺ)“ اردو کی نعتیہ شاعری میں اپنی مثال آپ ہے۔ ویسے تو محسن صاحب بھی وکیل تھے، مگر اُن کی وجہ شہرت نعت گوئی ہے۔

مولوی نورالحسن خود بھی نعت گو اور مِیلاد خواں تھے۔اُن کے زُہد و اِتّقاء کی مثال اُس دور میں بھی ملنا مشکل تھی۔

مولوی نورالحسن نیرؔ کا نمونہ کلام قارئین کرام کے ذوق ِ مطالعہ کی نذرکرتاہوں:

نفسِ انسانی کا دنیا میں فنا ہوجانا
میری آنکھوں میں ہے بندے کا خُدا ہوجانا
خوش ہیں عُشّاق جو ہوتے ہیں نئے روز سِتَم
درد نے سیکھ لیا بڑھ کے دَوا ہوجانا
عشق کی بھُول بھُلَےّوں میں نہ بھٹکے نیرؔ
اے چمک درد کی تُو راہنما ہوجانا
٭
یکسوئی ہوتو کچھ اَثر،آہِ رَسا کرے
قابو میں دل نہ ہوتو بھلا کوئی کیا کرے
نےّرؔیہ عمر اور یہ رِندانہ صُحبتیں
اللہ آپ کو بھی کہیں پارسا کرے
٭
اور ذرا یہ دیکھیے کہ ایک زاہد وعابد شخص کی آخری غزل میں کیا رنگ نمایاں تھا:

مُرقع میں مِری تصویر پر اُس شوخ نے لکھا
اب اس بیمار کی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
بھری برسات میں توبہ کریں،پِینے سے اے زاہد
یہ فرمائش تو حضرت آپ کی مانی نہیں جاتی
پھِرے جاتے ہیں کس کے گھر سے یہ کہتے ہوئے ناصح
ہمارے مُنھ کی کوئی بات بھی مانی نہیں جاتی
طبیعت ہچکچاتی ہے،سُنا ہے جب سے اے نیرؔ
کہ توبہ کرکے مدت تک پشیمانی نہیں جاتی

اصل میں یہ کلاسیکی شاعری کا دَم توڑتا ہوا لہجہ تھا جسے یکسر تَرک کرنا پرانے اساتذہ سخن کے لیے مشکل تھا۔آج اگر یہ رنگ اختیارکیا جائے تو پہلی مشکل یہ ہوگی کہ شاعر کا مطالعہ اس قدر وسیع ہوکہ اس رنگ ِ سخن میں کوئی نئی بات کہہ سکے;ہمارے تو بڑے بڑے بزرگ شعراء کا مطالعہ بھی ایسا نہیں ہوتا کہ چھوٹے اُن سے کوئی توقع کریں،چہ جائیکہ کوئی نیا شاعر ایسی ہمت کرسکے، دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں ماضی قریب میں ماسوائے فیض احمدفیض ؔکسی مقبول شاعر کے کلام میں کلاسیکی فرہنگ کے استعمال کی عمدہ مثال بمشکل ملتی ہے۔

مولوی نورالحسن  نیرؔ صاحب کی پہلی شادی سترہ برس کی عمر میں 1882ء میں ہوئی۔ اُن کی شادی کے موقع پر تقریب میں شریک نامور سخنور امیرؔ مینائی نے فارسی زبان میں سہرا لکھا تھا۔ موصوف نے دوسری شادی 1903ء میں کی۔

نُوراللغات کا نقش ِ اوّل(حصہ اوّل: الف۔ب) نومبر 1924ء میں منصہ شہود پرآیا یعنی سات ماہ کے بعد ہم اس کی صد سالہ تقریب بھی منعقد کرسکتے ہیں۔ نیرؔ پریس، پاٹانالہ، لکھنؤ سے حامد حسن علوی صاحب کے زیرا نتظام شایع ہونے والی نوراللغات کے سرورق پر لغوی اعتبار سے مذکرہونے کے سبب، اردو کا لغت بالکل صحیح لکھا گیا تھا۔اب ہم کتاب کی شکل میں لغت کو مؤنث بولتے ہیں، مگر صحیح مذکر ہی ہے۔ البتہ یہ بات پیش ِ نظر رہنی چاہیے کہ لفظ لغت بمعنیٰ زبان بھی ہے اور اِس کی جمع بھی لُغات ہی ہے۔

اوّلین اشاعت میں مولوی نیرؔ کی سابقہ مطبوعہ کتب کے نام بھی دیے گئے ; کُلّیاتِ محسنؔ (والد گرامی کا تمام کلام)، خورشیدِ بدر(نیرؔ کی کہی ہوئی نعتیہ مسدس)، تعلیلات ِ منظوم اور ڈائجسٹ آف اَوَدھ کیس لا[Digest of Oudh Case Law]۔اُن کی دیگر کتب میں ’ہندی زبان اور مسلمانوں کا طبعی میلان‘ اور ’رسم ورواج کا اثر، زبان پر‘ شامل ہیں، جبکہ انھوں نے اردو ادب کا ایک باتصویر رسالہ ’ادیب ِ اردو‘ بھی جاری کیا تھا جس کے اکتالیس شمارے آنلائن دستیاب ہیں۔

1927ء میں نوراللغات کا دوسرا حصہ شایع ہوا جس میں حرف ’پ‘ تا ’خ‘ سے شروع ہونے والے الفاظ وتراکیب شامل تھیں۔اس لغات کا تیسرا حصہ(حرف ’د‘ تا ’ق‘) 1929ء میں منظرِعام پرآیا۔چوتھا اور آخری حصہ 1931ء میں شایع ہوا جس میں حرف ’ک‘ تا ’ی‘ کے مندرجات شامل تھے۔

اس لغات کی کئی بار اِشاعت ہوئی اور ماضی قریب میں فرہنگ ِآصفیہ کی طرح اس کی اشاعت ِ نو کرنے والوں نے، اپنی بساط بھر معلومات کے مطابق مولوی سید احمد دہلوی اور مولوی نورالحسن نےّرؔ کی جابجا اِصلاح فرمانے کی سعی نامشکور کی۔ہَے ہےَ! افسوس، صد افسوس! بلکہ یوں کہیے کہ اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے۔جو لوگ تنہااپنی علمیت کے بل بوتے پر، آج کے کسی نام نہاد اِدارے سے زیادہ معتبر، وقیع اور نیک نام تھے، اُن کے کام کو ’سدھارنے‘ کے لیے بونے میدانِ عمل میں اُتر آئے ہیں۔

یہ انگریزی کے الفاظ میں وہی”المناک طربیہ“ [Tragic commedy]ہے جس کا واسطہ مجھ ایسے ادنیٰ خادم ِ ملک و ملّت کو بارہا کرنا پڑا۔لوگ سیکھے بغیر سِکھانے پر تُل گئے ہیں اور ہرکوئی اپنے تئیں عالم، مجتہد، مفتی، بقراط، سقراط اور آئنش ٹائن (جرمن تلفظ کے مطابق) بنا پھرتا ہے۔دین دنیا کے ہرمسئلے میں لوگ یوں ہانک رہے ہیں کہ پہلے کسی نے کیا ہانکاہوگا۔

نوراللغات کے پیش لفظ میں مولوی نیرؔ نے ’متروک اورفصیح الفاظ‘ کے عنوان سے بہت مفید باب باندھا ہے۔آسا بمعنی مثل یا مانند کی نظیر دیتے ہوئے قدیم شاعر معروفؔ کا یہ مصرع پیش کیا:

دل ہی دل میں غنچہ آسا،خونِ دل پیتے رہے

آسان پھِرجانا یعنی آسانی سے پھِر جانا کی مثال بشکل شعر یوں پیش کی:

قاتل نے وقتِ ذبح لیا جب خدا کا نام
خنجر ہماری حلق پہ آسان پھِر گیا (داغؔ)
آگو بجائے آگے کی مثال یو ں لائے:
مقابل جیسے خوش چشموں کے ہے تُو
ہرن آئے تِری آنکھوں کے آگو (شادؔ)
آن کے بجائے آکے: غیر عیادت سے بُرا مانتے ہیں
قتل کیا آن کے ا چھا کیا (مومنؔ)

(ضمنی بات یہ ہے کہ ہمارے گھرانے میں ”آن کے“ ابھی متروک نہیں ہوا۔میرا ایک چھوٹا بھائی ہمیشہ آن کے ہی کہتا ہے: س ا ص)

آؤں ہوں کروں ہوں وغیرہ یعنی آتا ہوں، کرتا ہوں:

مستانہ طے کروں ہوں رَہِ وادی خیال
تابازگشت سے نہ رہے مدعا مجھے
(غالب)

برابر میں، بجائے ’برابر‘ جو فصیح ہے: وحشت ایسی ہے کہ سائے سے بھی میں کہتاہوں

آپ کیوں میری برابر میں چلے آتے ہیں
(داغؔ)

بھاؤں یعنی نزدیک، جیسے سوداؔ کے اس شعر میں ہے:

نگر آباد ہیں، بسے ہیں گاؤں
تجھ بِن اُجڑے پڑے ہیں اپنے بھاؤں
(سودا)

پسارنا یعنی پھیلاناکی مثال آتش ؔ کے اس مصرع میں پیش کی:
گُل چِیں ہمارے آگے دامن پسارتے ہیں

اور پھر یہ وضاحت بھی فرمائی کہ ”بعض فصحائے حال،اس کی ترکیب فارسی لفظ کے ساتھ ناجائز سمجھتے ہیں“۔

’پَر‘ کی جگہ ’پہ‘ کو متروک بتاتے ہوئے مولوی صاحب موصو ف نے جلالؔ (غالباًجلال لکھنوی)کا یہ شعر نقل کرتے ہوئے لکھا کہ ”بعض فصحاء نے اس کا استعمال نثر اور بول چال میں ترک کردیا ہے:

دل کس کو دیا لاکھ یہ پوچھا کیے احباب
دل ہی میں رہا،لب پہ تِرا نام نہ آیا

میری ذاتی رائے میں بول چال کا حوالہ صحیح نہیں،ہمارے یہاں ’پہ‘ بجائے ’پر‘ بکثرت بولاجاتا ہے۔(س اص)

تلک یعنی تک کے متروک ہونے کی بابت مؤلف موصوف نے لکھا کہ ”خاص خاص شعراء نے ترک کردیا ہے“۔ تعجب ہے کہ زمانہ حال میں بھی بعض شاعر ’تلک‘ باندھ جاتے ہیں۔
اس باب کے بعد مولوی نیرؔ نے ”فصاحت ِ الفاظ کے چند اُصول“ جیسا اہم باب قائم کیا جس کی آج کے جدید لغات میں بھی ضرورت ہے۔ اُنھوں نے لکھا کہ ” اَمرِ حاضر کے صیغوں میں (آؤ، جاؤ وغیرہ کی بجائے) آئیو، اُٹھائیو، لیجیو،چلیو،دکھائیو،پیجیو کی جگہ آؤ،اُٹھاؤ، جاؤ،چلو، دکھاؤ، دو، لو وغیرہ مستعمل ہیں“۔

یہ معاملہ بھی ہمارے یہاں کی بول چال میں ہنوز برقرار ہے، البتہ معیاری شعری ونثری زبان میں اسے ہرگز رَوا نہیں رکھا گیا۔

مؤلف موصوف لکھتے ہیں کہ ”ہندی صفت کو جمع لانا متروک ہے“ یعنی یہ کہ اگر صفت کا استعمال قدیم اردو (خصوصاً دکنی) کے تتبع میں کریں تو یہ غلط ہے (جودکنی بولی اور پنجابی میں آج بھی رائج ہے: س اص)۔مثال کے لیے ”کڑی“ کی جمع کڑیاں کا استعمال، اس مصرع میں دکھایا ہے: ع ملائم ہوگئیں دل پر بِرَہ کی ساعتیں کڑیاں۔

یہاں راقم سہیل اپنے ذاتی مطالعے کی بِناء پر عرض کرتا ہے کہ پنجابی حضرات اور اُن کی دیکھا دیکھی دیگر بھی گفتگو اور شعر میں محبت کی جمع محبتیں، عنایت کی جمع عنایتیں اور ذہانت کی جمع ذہانتیں استعمال کرنے لگے ہیں۔ ماضی میں خاکسار نے حیدر قریشی (مقیم جرمنی) کے کلّیات پر ایک مضمون بزبان انگریزی اور ایک اردومیں لکھا تو ایک پوری غزل میں یہ بدعت نظرآئی اور میں نے اس پر گرفت کی کہ ایک ہی شخص کی ’ذہانتیں‘ چہ معنی دارد؟

زیرِ نظر باب میں مولوی نےّرؔ نے یہ دل چسپ گرفت کی کہ میر اَنیس ؔ کے شعر میں، بجائے پھیرنا چاہیے کے پھیرا چاہیے کی غیر فصیح مثال پیش کی: ؎ کہتے تھے فاطمہ (رضی اللہ عنہا) سے علی (رضی اللہ عنہ‘)،گھر میں جو ہو دو
خالی کبھی فقیر کو پھیرا نہ چاہیے

پیش لفظ کے آخری حصے میں مولوی صاحب نے ’اس لغت میں کن باتوں کا خیال رکھا ہے‘ کے عنوان کے تحت پندرہ اصول بیان کیے ہیں جن میں آخری یہ ہے: ”وہ انگریزی الفاظ جو اَکثر زبانوں پر آگئے اور اخبارات میں پائے جاتے ہیں، لغت میں داخل کردیے ہیں اور تذکیروتانیث بھی لکھ دی ہے جیسے بابالوگ، بال، بلٹی، بار، بابن لیٹ“۔

(جاری)

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل