Tuesday, October 22, 2024
 

فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت اور عالمی طاقتیں

 



اسرائیلی فوج کی حالیہ کارروائیوں کے باعث فلسطین کے علاقے غزہ میں مزید 64 افراد شہید ہونے کی خبریں میڈیا میں آئی ہیں جب کہ لبنان میں اسرائیلی حملے میں چار افراد جاں بحق ہوگئے، جب کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے مشرق وسطیٰ کا دورہ شروع کردیا ہے۔  اسرائیل متواتر فضائی حملوں میں غزہ، لبنان اور یمن پر جس تعداد میں بم برسا رہا ہے، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صہیونی حکومت اس خطے کو پوری طرح تاراج کردینا چاہتی ہے۔ اسرائیل، غزہ کو ملیا میٹ کرنے کے بعد اب لبنان پہنچا ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 56 لاکھ فلسطینی پناہ گزین شام، لبنان، اردن، اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں اور غزہ میں رہتے ہیں، یہ نہایت مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، یہ فلسطینی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ امریکا، اسرائیل گٹھ جوڑ مشرق وسطیٰ میں مسلسل تباہی پھیلا رہا ہے ۔ عراق کو تباہ کیا گیا، لیبیا ایک خوشحال ملک تھا لیکن اسے بھی کھنڈر بنا دیا گیا،شام کو برباد کیا گیا، لبنان جو مشرق وسطیٰ خوشحال، مہذب اور پرامن ملک تھا، وہ آج اجڑا ہوا ہے۔ ایران پابندیوں کی زد میں ہے۔ افغانستان کو پہلے مقامی کمیونسٹوں نے سوویت فوجوں کو دعوت دے کر غیرملکی مداخلت کا دروازہ کھولا تو افغانستان کی دائیں بازو کی شاہ پرست اور مذہبی اشرافیہ نے امریکا سے ہاتھ ملایا۔اب یہ ملک مسلسل بربادی کا شکار ہے۔پاکستان کی دائیں بازو کی اشرافیہ نے افغان مجاہدین اور مہاجرین کے لیے پاکستان کے دروازے کھولے۔ دنیا میں کئی مسلم اکثریت رکھنے والے ممالک کی حکومتیں اسرائیل کو تسلیم کرچکی ہیں۔ ایران، شام اور یمن کی حوثی حکومت کھل فلسطینی مزاحمت کاروں کی حمایت کررہے ہیں ۔ اسرائیل نے ایران کے خلاف بھی ایک طرح جنگ کا آغاز کر رکھا ہے۔ حماس سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں شہید کیا گیا، لبنان میں حزب اﷲ کے سربراہ حسن نصراﷲ کو شہید کردیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے حماس کی سربراہی یحیٰ سنواز کے سپرد ہوئی لیکن اسرائیل نے انھیں بھی شہید کردیا گیا۔ ایران کی کئی اہم شخصیات کو بھی شہید کیا گیا، ان واقعات نے مشرق وسطیٰ ہی نہیں دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔  غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔ ایران بھی مسلسل جارحیت کا شکار ہورہا ہے۔ یمن پر امریکا اور اسرائیل دونوں بمباری کرتے ہیں، اسرائیل شام اور لبنان میں مسلسل کارروائیاں کررہا ہے۔ دنیا کی طاقتور اقوام بھی اسرائیل مخالف بیان بازی کرکے چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرتے نظر آتے ہیں۔ اسرائیل کی جارحیت رکنا ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ عالمی تناظر میں طاقتور اقوام اپنی اپنی پراکسی جنگ لڑ رہی ہیں۔ ادھر پاکستان کی مغربی سرحد پر افغانستان کی طالبان حکومت کی سرپرستی میں خوارج کی کارروائیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ طاقتور اقوام کی عالمی گریٹ گیم کی پرتیں بتدریج کھل رہی ہیں، روس کو یوکرین جنگ میں انگیج کردیا گیا ہے، چین کے خلاف معاشی جنگ شروع ہے۔ادھر مرحلہ وار ایرانی و حماس قیادت کو نشانے پر لینا ایک ہی کھیل کا حصہ نظر آتا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں روس اور چین کا بڑھتااثر و رسوخ امریکا اور نیٹو ممالک کو پسند نہیں آرہا۔ نہ اسرائیل اس کے حق میں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تاریخ کے آئینے میں اس گریٹ گیم کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے، پاکستان میں تھینک ٹیکس ان عالمی حرکیات پر تحقیق کرکے رپورٹ حکومت کو پیش کرے تاکہ حکومت اپنی پالیسی پر نظرثانی کرسکے۔ تاریخ کیا کہتی ہے اس سے سبق سیکھنا ہی دانش مندی ہے۔ اسرائیل کی حکومت اور صیہونیت مینٹیلٹی ایسی باتیں سننا بھی پسند نہیں کرتے ۔ اگر کسی بات پر اس کا ردعمل ظاہر بھی ہوتا ہے تو اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اس کی جنگی کارروائی کو ہدف بنانے والوں کو بھی ’’دہشت گرد‘‘ ثابت کردیا جائے۔ اب سے ربع صدی قبل مغربی میڈیا کے ذریعے تواتر سے استعمال ہونے والی ’’دہشت گرد‘‘ کی اصطلاح نے عالم انسانیت کو عدم تحفظ اور تعصب و نفرت کے اتنے خانوں میں منقسم کر دیا ہے کہ کسی انسانی مسئلے پر اس کا متحد ہونا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ اس وقت اسرائیلی جارحیت نے ظلم و ستم کا جو سلسلہ جاری کر رکھا ہے اسے درست ثابت کرنے کے لیے بھی متواتر اس اصطلاح کا استعمال کیا جا رہا ہے، حالانکہ فلسطینیوں کے اقدام کو صرف اس اصطلاح کے تناظر میں دیکھنا، ان تاریخی حقائق کو صریح طور پر نظر انداز کرنے کے مترادف ہوگا جن حقائق کا تعلق اسرائیل کے غاصبانہ اور ظالمانہ رویے سے ہے جس کے نتیجے میں اہل فلسطین اپنے ہی ملک میں ان کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔  امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک برسوں سے اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں۔ یہ سب اسرائیل کے ناجائز قبضے کے حامی ہے۔ امریکا نے تو 2018 میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کردیا تھا۔ اقوام متحدہ کی منظورکردہ قراردادوں کے مطابق فلسطینیوں کو حق آزادی ملنا چاہیے، لیکن آج تک ان قراردادوں پر عمل نہیں ہو سکا۔ بین الاقوامی امور کے ماہر اور تجزیہ کار اس ساری صورتحال کو کسی گریٹر گیم کا حصہ بھی خیال کر رہے ہیں، تاکہ اس حملے کو جواز بناتے ہوئے اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کرسکے۔ فلسطین پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں اگر عالمی صورتحال پر غور کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ عالمی استعماری طاقتیں اپنا رسوخ کھوتی جا رہی ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کے عوام کو جن سنگین مسائل میں مبتلا کر رکھا ہے اسے حماس کے خلاف اس کی انتقامی کارروائی کہنا قطعی مناسب نہیں ہوگا۔ اسرائیل، حماس کے حملے کو بہانہ بنا کر فلسطینی عوام کے خلاف انتہائی انسانیت سوز جارحیت کا جو شرمناک اور افسوس ناک کھیل،کھیل رہا ہے۔ اس سے یہ واضح ہے کہ اس کا مقصد صرف حماس کو زیرکرنا نہیں ہے بلکہ وہ اس خطے کو مکمل طور پر اُن لوگوں سے خالی کرانا چاہتا ہے جن کے اجداد نے اسرائیلی مہاجرین کو پناہ دی تھی، ان احسان فراموشوں نے دنیا کے سامنے اپنی بے چارگی اور پریشان حالی کا ایسا سوانگ رچایا کہ دنیا کی بڑی طاقتوں نے ان کے ہر اقدام کی تائیدکی یا دانستہ طور پر صہیونی سازشوں کو نظر انداز کرتے رہے۔ عالمی سطح پر اپنی مکاری اور دیدہ دلیری کے سبب اسرائیل نے وہ مرتبہ حاصل کر لیا کہ اہل فلسطین کا اس کے رحم و کرم پر منحصر ہو جانا نام نہاد انسانیت نواز طاقتوں کے لیے ایک عام بات ہو کر رہ گئی ہے۔ امریکی حکومت اتنی طاقتور ہے کہ اسے اپنے اصلی عزائم چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے مگر اسرائیل اور ایران کیونکہ عالمی طاقتیں نہیں ہیں، اس لیے وہ پورا سچ نہیں بول سکتے۔ ایران نے ابھی تک دھمکیاں دینے کے باوجود اگر اسرائیل پر جوابی حملہ نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل پر براہ راست حملہ کر کے اسے اشتعال نہیں دلانا چاہتا۔ ایرانی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ اسرائیل کو ایران کے جوہری توانائی کے مراکزکو تباہ کرنے کے لیے ایک بہانہ چاہیے۔ اسرائیل ایران کی سرزمین پر اس کے کئی نیوکلیئر سائنسدانوں کو ہلاک کرچکا ہے۔ اسرائیل کی اشتعال انگیزیوں کے باوجود ایران اگر کوئی جوابی کارروائی یا اقدامات نہیں کرپاتا تو عالمی تجزیہ نگاروں کی یہ رائے درست ہے کہ اسرائیل کو ایران کی طاقت کا علم ہے،اس کے علاوہ اسرائیل یہ بھی جانتا ہے کہ خوشحال عرب ممالک کی حکومتیںحماس کے طریقے کو درست نہیں سمجھتیںاور وہ پی ایل او کی حکمت عملی کے ساتھ ہیں جب کہ وہ حزب اﷲ کی طرز سیاست اورعسکریت پسندی کے حق میں نہیں ہیں ۔ عالمی ہمدردی اور تائید کے رجحان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی حکومتوں اور خطے کو فکر و عمل کی سطح پر اپنے رنگ میں ڈھالنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں صہیونی عناصر کا حوصلہ روز بروز بڑھتا رہا اور فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ دراز ہوتا رہا۔ اب یہ سلسلہ وہ شکل اختیار کرچکا ہے جس نے صہیونی سازش کو پوری طرح عیاں کر دیا ہے۔ اب وہ نام نہاد عالمی طاقتیں بھی خود کو اس سازش کے آگے بے بس محسوس کر رہی ہیں جن طاقتوں نے ماضی میں ان کی فلاح و بہبود کے لیے ہر وہ اقدام کیا جو اس خطے پر ان کے اثر و رسوخ کو دوام عطا کر سکے۔ فلسطینیوں کی جانب سے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کی آوازیں اسرائیلی بمباری کی گھن گرج میں دب رہی ہیں، اگرچہ آج کی ترقی یافتہ دنیا کے مہذب ممالک انسانی حقوق کے بارے میں نہایت حساس ہیں۔ یہ ممالک اور ان کی نامور عالمی تنظیمیں کتے، بلیوں اور دیگر جانوروں کے حقوق کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں، لیکن فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم انھیں دکھائی نہیں دیتے۔ اصولی طور پر ایسے مسئلے جو خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا باعث ہوں، انھیں حل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے، لیکن فلسطین کے معاملے میں ایسی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی حالانکہ مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر موجود ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل