Tuesday, May 21, 2024

کرشن چندر کا سیاسی شعور (آخری حصہ)

 



بھوک دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے ،کرشن چندر نے اس بھوک کو بہت قریب سے دیکھا تھا، ان کی متعدد کہانیاں اس موضوع پر ہیں۔ ان کی کہانی کچرا بابا، موہنجو دڑوکا خزانہ اور ایسی ہی کئی کہانیاں غربت اور بھوک کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب دوسری عالمی جنگ کے جہنم میں ماں باپ اپنے نوجوان بیٹوں کو جھونک رہے تھے۔ وہ بلا کے ذہین اور سفاک لکھنے والے تھے، ان کے قلم سے بچ کرکوئی نہیں نکلا۔

بالی ووڈ کے ڈائریکٹر پروڈیوسر ہیرو ہوں یا ایکسٹرا اور میک اپ آرٹسٹ کوئی ان کی آنکھ سے چھپا نہیں تھا، اپنی اسی باریک بینی سے انھوں نے ’’ چڑیوں کی الف لیلہ‘‘ میں بھی کام لیا ہے، جنگل میں چھوٹی چھوٹی چڑیاں ہیں اور شیر،چیتے اور لنگور ہیں، ان ہی کے درمیان ایک اژدھا آجاتا ہے اور وہ بے دریغ سب چھوٹے اور بڑے جانوروں کو ہضم کرنے لگتا ہے۔

کہیں ہاتھیوں اور چیونٹیوں کی لڑائی ہے جس میں ہاتھی ہار جاتے ہیں اورکہیں شیر اور انسان کی۔ یہ ایک دلچسپ اور چشم کشا کہانی ہے جس میں کمزور طاقتورکو شکست دے دیتا ہے، اس حوالے سے برما کے سفید ہاتھی کا قصہ بہت دلچسپ اور ہمارے حسب حال ہے۔

بہت عرصہ گزرا، برما کے جنگلوں میں ایک ہاتھی رہتا تھا جس کا رنگ بالکل سفید تھا۔ دوسرے ہاتھیوں کا رنگ بالکل کالا تھا۔ سفید ہاتھی نے کالے ہاتھیوں سے کہا ’’ دیکھو میرا رنگ سفید ہے، تمہارا کالا ہے اس لیے میں تمہارا بادشاہ ہوں۔‘‘ کالے ہاتھیوں نے یہ بات مان لی، اسے اپنا بادشاہ سمجھ کر اس کے لیے اونچے لمبے بانسوں کا ایک عالی شان محل تیارکردیا۔

شاہ بننے کے بعد سفید ہاتھی نے جنگل میں کام کرنا چھوڑ دیا کیونکہ اب تو درجنوں ہاتھی، ہتھنیاں اس کے نوکر چاکر اور غلام تھے جو ہر وقت اس کے آگے پیچھے گھومتے رہتے تھے۔ ہتھنی دن بھر اس کی دم میں کنگھی کرتی رہتی تھی۔ دو ہاتھی اس کی سونڈ صاف کرنے پر مقرر تھے چار ہاتھی اس کے دانت صاف کرنے پر مقرر تھے کیونکہ ہاتھی کے دانت کھانے کے ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں، اس لیے انھیں صاف کرنے، مانجھنے اور ان کو صاف کرنے میں بہت وقت صرف ہوتا ہے۔

کالے ہاتھی ہر روزگلے بنا کر جنگل میں چرنے جاتے اور سفید ہاتھی کے لیے ایراوتی کنارے اگنے والی بہترین خوشبودار گھاس کھود کر لاتے۔ وہ اس کی سونڈ کو خوشبودار پھولوں سے سجاتے، اس کے گلے میں ہار ڈالتے اس کے ماتھے پر سیندور لگاتے اور اس کے چھوٹے سے سر پر ہاتھی دانت کا تاج اور تاج کے اوپر شتر مرغ کی کلغی سجا کر ہر روز اس کے سامنے گھٹنے ٹیکتے، مفت کی گھاس کھا کھا کر سفید ہاتھی اتنا موٹا ہوگیا کہ اس نے اپنے محل سے باہر نکلنا بھی چھوڑ دیا اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں اور بھی اندرکو دھنس گئیں اور اب تو گھاس کے ساتھ بھنگ بھی کھانے لگا اور بھنگ کے نشے میں چور ہوکر اپنے بستر پر پڑا دن بھر خراٹے لیا کرتا۔

جنگل کے شیر نے جب یہ دیکھا کہ ہاتھیوں کا بادشاہ اس قدر لاپرواہ ہوگیا ہے کہ اپنی رعایا کی دیکھ بھال نہیں کرسکتا تو اس نے ایک دن موقع پاکر ایک ہاتھی پر حملہ کردیا جو اپنے گلے سے ذرا الگ چر رہا تھا اور اسے جان سے مار ڈالا ۔ کالے ہاتھی شیر کی شکایت لے کر سفید ہاتھی کے پاس پہنچے مگر سفید ہاتھی بھنگ کھا کر سو رہا تھا۔

دوسرے دن شیر نے ایک اور ہاتھی کو مار ڈالا۔ ہاتھی پھر شیر کے حملے کا حال بیان کرنے کے لیے بادشاہ کے محل میں پہنچے مگر سفید بادشاہ بھنگ کھا کر سو رہا تھا۔ ایک نوکر ہاتھی نے بتایا کہ بادشاہ آج بھنگ کا ڈبل بھتہ کھا کر سوئے ہیں، امید نہیں ہے کہ اگلے تین روز تک ان کی آنکھ کھلے، اس پرکالے ہاتھی بہت گھبرائے کیونکہ ہاتھی ہمیشہ گلے بنا کر اپنے لیڈر کی رہنمائی میں چلتے ہیں جب کہ ان کا رہنما، ان کا بادشاہ ان سے غافل ہو کر بھنگ کھاکر سویا پڑا تھا۔

اب وہ کس کے پاس اپنی فریاد لے کر جائیں؟ ادھر شیر تھا کہ ہر روز ایک نہ ایک ہاتھی کو مار ڈالتا تھا، اب وہ کریں توکیا کریں؟ ان ہی دنوں جنگل میں ایک گیدڑ بھی رہتا تھا، اس کا نام بشنو تھا۔ یہ گیدڑ بڑا مکار تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ شیر ہر روز ہاتھی کا شکار کرتا ہے اور اس کے گوشت میں سے گیدڑکو برابر کا حصہ نہیں دیتا توگیدڑ دل ہی دل میں شیر سے خفا ہوگیا اور اس نے شیر سے بدلہ لینے کی ٹھان لی۔

بشنوگیدڑ نے کالے ہاتھیوں کی مصیبت کا حال سن رکھا تھا۔ چنانچہ اب وہ ان ہاتھیوں کے پاس گیا اور ان سے کہنے لگا’’ اگر تم لوگ مجھے اپنا راجہ بنالو تو میں تمہیںشیرکے حملوں سے بچا سکتا ہوں۔‘‘ کالے ہاتھیوں نے کہا ’’ مگر ہمارا راجہ تو سفید ہاتھی ہے۔‘‘ بشنو بولا ’’ کیسا تمہارا راجہ ہے جو تمہارے لیے ایک شیر کا مقابلہ نہیں کرتا۔ دیکھو اگر تم مجھے اپنا راجہ بنالو گے تو میں تمہیں ایسی ترکیب بتاؤں گا کہ شیر تو کیا شیر کا باپ بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔‘‘

کالے ہاتھیوں نے کہا ’’ وہ تو ٹھیک ہے مگر ہم تمہیں اپنا راجہ کیسے بنالیں ایک تو تم گیدڑ ہو، ہم ہاتھی ہیں، دوسرے تمہارے سر پر کلغی بھی نہیں ہے اور سب راجاؤں کے سر پرکلغی ہوتی ہے۔‘‘ ’’کلغی میں لاتا ہوں‘‘ گیدڑ بولا ’’ مگر تم وعدہ کرو اگر میں کلغی لے آؤں تو مجھے راجہ بنالو گے۔‘‘ ’’ہاں !‘‘ بہت سے ہاتھیوں نے اپنے لمبے لمبے کان ہلا کر وعدہ کرلیا کیونکہ وہ ہاتھی تھے اور انسانوں کی طرح اپنی گردن نہیں ہلاسکتے تھے۔

گیدڑ کچھ سوچ کر مور کے پاس گیا، مور اس وقت بڑے مزے مزے میں اپنے پنکھ پھیلا کر ناچ رہا تھا اور خود کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا تھا، گیدڑ اس کے قریب جا کر منہ لٹکا کر بیٹھ گیا۔

مور بولا ’’ کیوں کیا میرا ناچ تمہیں پسند نہیں آیا؟‘‘گیدڑ اداس ہو کر بولا ’’ نہیں یہ بات نہیں ہے !‘‘ مور نے کہا ’’ پھر کیا بات ہوئی؟‘‘ گیدڑ نے کہا ’’ مور بھائی کیا کہوں؟ ابھی ابھی راستے میں مجھے تمہاری مورنی ملی تھی، کہتی تھی میں جنگل چھوڑ کے جارہی ہوں۔‘‘ مور نے گھبرا کے پوچھا ’’کیوں؟ کیوں آخر کیا ہوا؟‘‘ گیدڑ نے اپنی جیب سے کھدر کا ایک رومال نکالا اور اپنے آنسو پونچھ کر کہنے لگا ’’ کہتی تھی مور سے کہہ دینا مجھے اس کی سبز رنگ کی کلغی ذرا بھی اچھی نہیں لگتی، میں جارہی ہوں۔‘‘

مور بے حد پریشان ہو کے بولا ’’ بشنو بھائی! اب کیا ہوگا، اب کیا کروں میں؟ میرے پاس تو یہی ایک کلغی ہے اور بہت سے پرندوں کے پاس تو ایک کلغی بھی نہیں ہوتی، میں اب دوسرے رنگ کی کلغی کہاں سے لاؤں؟‘‘ گیدڑ نے اپنے سر پر سے کھدرکی ٹوپی اتاری۔ اسے خوب اچھی طرح سے جھاڑا اور پھر اسے اپنے گھٹنوں پر رکھ کر بولا ’’ ایک ترکیب ہے مگر وعدہ کرو کہ اگر میں تمہاری کلغی بدل دوں تو تم جنگل کا راجہ بننے کے لیے مجھے ووٹ دو گے۔‘‘ مور اپنی مورنی کو بہت چاہتا تھا، اس لیے اس نے جھٹ سے وعدہ کرلیا۔ گیدڑ نے کہا ’’ تو اپنی کلغی اتار کر میرے حوالے کردو، میں رت گلے کی لال لال پیاری سی کلغی تمہیں لا کے دوں گا۔‘‘

’’ مگرکیا رت گلہ اپنی کلغی مجھے دے دے گا؟ وہ تو بڑا مغرور پرندہ ہے۔ اپنی لال کلغی پر اسے اتنا ناز ہے کہ کسی سے آسانی سے بات بھی نہیں کرتا یہ رت گلہ۔‘‘

گیدڑ نے کھدر کی ٹوپی اپنے سر پر پہن کر کہا ’’ وہ تم مجھ پر چھوڑ دو ۔ یہ تبادلہ میں کرادوں گا۔ اس کی کلغی تمہارے سر اور تمہاری کلغی اس کے سر … اپنا توکام ہی یہی ہے۔‘‘

کرشن چندر کی اس کہانی کا یہ ٹکڑا پڑھ کر کیا یہ محسوس نہیں ہوتا کہ جنگل کا ایک واقعہ سنا کر کرشن چندر نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے سماج میں بھی ہوتا ہے، جہاں طاقتور اقتدار پر قبضے کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں اور اس جنگ میں ایک دوسرے کو دھوکا دیتے ہیں اور بے وقوف بناتے ہیں۔

’’ اس کی کلغی تمہارے سر اور تمہاری کلغی اس کے سر، اپنا تو کام ہی یہی ہے۔‘‘

یہ جملہ ہمارے ملک اور سیاسی ماحول پرکیا صادق نہیں آتا ؟

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل