Tuesday, May 21, 2024

یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر

 



آج پوری دُنیا میں محنت کش طبقہ اور فلسفۂ انسانیت پر یقین رکھنے والے کروڑوں اِنسان شکاگو کے اُن محنت کشوں کی یاد منا رہے ہیں کہ جنہیں سن 1886میں سرمایہ پرستوں، ظالم صنعت کاروں، طبقۂ اشرافیہ اور اُن کی پروردہ ریاستی مشینری نے حقوق مانگنے کی پاداش میں بے گناہوں کو قتل کیا۔

یہ مئی 1886ہے، امریکا کا شہر شکاگو ہے، 4لاکھ سے بھی زائد صنعتی مزدور اِنتہائی پراَمن انداز میں اپنے مطالبات پر زور دینے کے لیے ایک جلوس کی شکل میں رواں دواں ہیں کہ اچانک ایک مقام پر خفیہ پولیس کے اہل کاروں نے ایک سازش کے تحت جلوس کے اَندر سے پولیس کے ایک دستے پر بم پھینکا تاکہ نہتے اور پر اَمن مزدوروں پر طاقت کے استعمال کا جواز پیدا کیا جا سکے اور ایسا ہی ہوا، مسلح پولیس نے وحشیانہ فائرنگ کی، دس مزدور جاں بحق اور سیکڑوں شدید زخمی ہوئے۔

ریاست نے 8مزدور راہ نماؤں اسپائس، فیلڈین، پارسنز، ایڈولف فش، جارج اینجل، مائیکل شواب، لوئس کنگ اور آسکر نیبیکو کو گرفتار کر کے اُن پر قتل کے مقدمات قائم کیے ۔ مزدور راہ نماؤں اِسپائس، اینجل، پارسنز اور فشر کو 11نومبر 1887میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

مختصر پسِ منظر اِس تاریخی واقعہ کا یہ ہے کہ اُس وقت پورے یورپ اور امریکا میں صنعتی مزدور بدترین استحصال کا شکار تھے، اُن سے سولہ سولہ گھنٹے بغیر اوور ٹائم ادائی کام لیا جاتا تھا۔ اُن کی حالت غلاموں جیسی تھی، بونس یا کسی بھی دیگر سہولت کا کوئی وجود نہیں تھا۔ تنخواہ اُنہیں اِتنی دی جاتی تھی کہ وہ صرف زندہ رہ سکیں، مزید بچے پیدا کر سکیں تاکہ وہ بھی کارخانے داروں کی دولت میں اضافے کا ذریعہ بن سکیں ۔

اِس صورتِ حال کے خلاف مختلف مزدور تنظیمیں جدوجہد میں مصروف تھیں۔ اِس زمانے میں مزدوروں میں ایک نعرہ بے حد مقبول ہوا اور وہ یہ تھا کہ ’’آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے آرام اور آٹھ گھنٹے سوشلائیزیشن۔ ‘‘ اُس وقت کی ایک معروف مزدور تنظیم امریکن لیبر فیڈریشن نے ایک قرارداد کے ذریعے حکومت اور صنعت کاروں سے مطالبہ کیا کہ کام کے زیادہ سے زیادہ اوقات آٹھ گھنٹہ یومیہ مقرر کیے جائیں۔ اِس مطالبے کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔

امریکا اور کینیڈا میں مزدور تحریکیں اِس مطالبے پر زور دینے کے لیے مصروفِ عمل ہوگئیں۔ شکاگو کے عظیم مزدور اِس جدوجہد میں سب سے آگے نکل گئے اور قربانیوں کی وہ عظیم تاریخ رقم کردی جس کے نتیجے میں دُنیا میں سیاست کا رُخ ہی تبدیل ہوگیا اور آج پورے عالمِ اِنسانیت میں اُن کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔

اَب شکاگو سے نکل کر ہم اِنہی معاملات کے حوالے  سے وطنِ عزیز پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں۔ پاکستان میں بھی محنت کش طبقے نے ریاستی اور صنعت کاروں کے مظالم کے خلاف اور اُس کے خاتمے اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ اِس جدوجہد کی پاداش میں اُنہیں جیلوں میں ڈالا گیا، وہ قتل بھی ہوئے، اُن کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے مگر بحیثیت طبقہ وہ ڈٹے رہے اور بالآخر ریاست نے اُنہیں ٹریڈ یونین سازی اور اُن کے دیگر مسائل کے حوالے سے قوانین وضح کر کے اُنہیں کسی حد تک حقوق دیے۔

پاکستان کے سیاسی ادوار میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کا دورِحکومت محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ، اُن کے مفادات کے حصول کے لیے اور پروگریسیو قانون سازی اور مزدوروں کے ویلفیئر کے اداروں کے قیام کے حوالے سے یہ ایک سنہری دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ہی دورِحکومت میں پہلی سہہ فریقی مزدور کانفرنس اِسلام آباد میں منعقد ہوئی جس کی صدارت خود شہید نے کی، ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کے ادوارِحکومت کو چھوڑ کر آمر ضیاء الحق، آمر ایوب خان، آمر یحیٰی خان، آمرپرویز مشرف کے ادوارِحکومت مزدور طبقے کی لیے بد ترین ثابت ہوئے جب کہ نوازشریف کا دورِحکومت بھی اِن سے کچھ مختلف نہ تھا۔

ڈکٹیٹرز کے دور میں جیل کی سلاخیں اور مزدوروں کی پیٹھ پر کوڑے اُن کا مقدر بنے جب کہ نوازشریف کے تمام ادوارِ حکومت میں ڈاؤن سائزنگ کے ذریعے لاکھوں مزدور بے رو زگار ہوئے، مختلف مزدور دُشمن قوانین نافذ کیے گئے۔ بالخصوص بینکنگ اِنڈسٹری میں خصوصی قانون سازی کے ذریعے ٹریڈ یونین تحریک کا گلا گھونٹ دیا گیا اور اب وہ ایک زندہ لاش ہیں۔

موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ اٹھارھویں ترمیم کے نفاذ کے بعد شعبۂ محنت مکمل طور پر صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے، صوبۂ سندھ میں اِس منتقلی کے بعد متعدد نئے مزدور قوانین وضح کیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں محنت کش عوام کے حقوق کو بڑی حد تک قانونی تحفظ حاصل ہوا ہے۔ اٹھارھویں ترمیم کے نفاذ کے بعد اور پی پی پی کی صوبائی حکومت اور مزدور تنظیموں کی مشترکہ کاوشوں کے با وجود حقیقت یہ ہے کہ اِن قانون سازیوں کے حقیقی ثمرات مزدور طبقے کی اکثریت کو پہنچ نہیں پا رہے۔

اِس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک بڑی وجہ دِن بدن کم زور ہوتی ٹریڈ یونینز اور مزدور تحریک ہے کیوںکہ یہی وہ اصل طاقت ہے جو ایک جمہوری معاشرے میں ظالم طبقات سے کم زوروں کے حقوق چھین کر اُنہیں کم زوروں کو دلاسکتی ہے۔ دوسری وجہ وہ فرسودہ سرکاری مشینری بھی ہو سکتی ہے جس میں قوانین کے اطلاق کی لیے کوئی جوش و جذبہ پایا ہی نہیں جاتا اور وہ ایک روایتی مخصوص ڈگر پر رواں دواں ہیں۔ بحیثیت مجموعی گورننس کا وہ زنگ آلود نظام بھی ہو سکتا ہے جس میں ریفارمز کی ضرورت آج وطنِ عزیز کے ہر شعبے میں پائی جاتی ہے۔

وجہ کوئی بھی ہو اِس صورت حال سے نمٹنے اور اِس سے نکلنے کے لیے پہلی تجویز یہ ہے کہ تمام صوبوں میں تھِنک ٹینک قائم کیے جائیں جن میں محنت کشوں کے نمائندوں، صنعت کاروں اعلیٰ سرکاری افسران، دانش وروں اور ماہرینِ اقتصادیات کی نمائندگی موجود ہو اور اُن کی ہی سفارشات کی بنیادوں پر صوبائی حکومتیں شعبۂ محنت اور اُس سے ملحقہ ویلفیئر اداروں کی از سرِنور تنظیم کریں تاکہ مزدور قوانین کا حقیقی طور پر اطلاق ممکن اور لاکھوں محنت کشوں میں پھیلی بے چینی اور اضطراب کا بڑی حد تک خاتمہ ممکن ہو۔

ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ہر سال فروری کے پہلے ہفتے میں تمام صوبوں میں سہہ فریقی مزدور کانفرنسز منعقد کی جائیں جن کی صدارت چیف منسٹر کریں جب کہ وفاق میں اِس کی صدارت پرائم منسٹر کریں تاکہ آجر، اجیر اور حکومتی نمائندگان باہمی مشاورت کے ذریعے آگے بڑھنے کا مشترکہ لائحہ عمل تیار کر سکیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل