Loading
بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری نہ صر ف والدین اور اساتذہ بلکہ معاشرے پر بھی عائد ہوتی ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تصور بچے کی ابتدائی زندگی سے ہی ان کی سرشت میں سرائیت کر جائے تو معاشرہ جنت کا نظارہ پیش کرے اور ہمارا پیارا وطن امن و سکون کے ساتھ دنیاوی ترقی کی منازل طے کر کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکے۔ اس کے لیے ہر عمر کے گروپ کے بچوں کے متعلق درج ذیل گزارشات پیش خدمت ہیں: شیرخوارگی شیرخوارگی کے دوران جب بچہ ایک سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس دوران وہ ماں سے کافی رویے سیکھ چکا ہوتا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سال کا بچہ قدم قدم جھومتے ہوئے چلتا ہے۔ دو سال کی عمر میں توتلی باتیں کرتا ہے۔ اعضاء کسی حد تک کنٹرول میں آجاتے ہیں۔ چمچے سے خود کھا لیتا ہے۔ جب بچہ شیرخوارگی کی عمر سے نکل کر تین سال یا اس سے زیادہ عمر کا ہوجاتا ہے تو اسے قبل از اسکول یا Pre-School کا بچہ (Toddler) کہا جاتا ہے۔ تین یا ساڑھے تین سال کی عمر میں بچے میں نرگسیت اور خودپسندی پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ جہاں شرمانا سیکھتا ہے وہاں اپنی تعریف سننا بھی پسند کرتا ہے۔ اس عمر میں بچہ اپنے ہم جھولیوں کی تلاش میں ہوتا ہے تاکہ گروپ کی شکل میں ان سے کھیل سکے۔ اگر ایک ہی گھر میں یا قریبی ہمسائے میں اس عمر کے دیگر بچے ہوں اور انہیں باہم میل جول کے مواقع مل جائیں تو یہ کسی غنیمت سے کم نہیں۔ ابتدائی اسکول اسلامی نقطۂ نگاہ اور ماہرین تعلیم کے مطابق پانچ سال تک والدین خصوصا ماں کی زیرنگرانی تربیت پانے والے بچے زیادہ بااعتماد اور اچھے اخلاق کے حامل ہوتے ہیں۔ چوںکہ اب معاشرتی اقدار بدل چکی ہیں۔ ہمسایوں کے بچوں کا ربط بھی ایک دوسرے سے مفقود ہوچکا ہے اس لیے پچھلی چند دہائیوں سے نرسری اسکولوں کا رواج عام ہوچکا ہے اور pre schooling کا رجحان بڑھ گیا ہے جن میں ساڑھے تین سال سے پانچ سال کی عمر تک کے بچوں کو داخل کروایا جاتا ہے جو مختلف درجوں یعنی Nursery, Play group and Preparatory Group تک سیکھنے کا عمل جاری رکھتے ہیں تاکہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے اچھی طرح تیار ہو کر پہلی جماعت میں داخل ہو پائیں۔ عموماً انہیں نرسری سکول بھی کہا جاتا ہے۔ گھروں میں بچوں کا حادثات سے بچاؤ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ بچے بڑوں کی نقل کرتے ہوئے اُن جیسے کام انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اکیلے گھر کے پچھلے صحن یا کہیں کونے کھدرے میں مختلف سرگرمیاں انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً وہ ماچس جلانے کی کوشش کریں گیگیزر سے منسلک کم اونچائی والا گرم پانی کا نلکا کھول سکتے ہیں، جس میں زیادہ گرم پانی بھی آ سکتا ہے۔ خود کو الماری، فریج یا کسی کمرے میں بھی بند کرسکتے ہیں۔ بجلی کے ساکٹ میں کوئی تار دے سکتے ہیں جس سے کرنٹ لگنے کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔ گھروں میں استعمال ہونے والے مختلف کیمیائی مائع مثلاً بلیچ، تیزاب، مٹی کا تیل، کاسمیٹکس، مچھر مار تیل، بڑوں کی دوائیں، گولیاں یا سیرپ اور اسی طرح کی بے شمار چیزیں بچے کھول کر استعمال کر سکتے ہیں جو کہ انتہائی خطر ناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح چھُری، قینچی، پیچ کس اور ہتھوڑی وغیرہ سے خود کو زخمی کر سکتے ہیں۔ اس لیے ایسی تمام چیزیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔ اس عمر میں بچے کرسی اور سٹول پر کھڑے ہو کر کھڑکی سے باہر جھانکتے ہیں اور توازن قائم نہ رکھنے کی وجہ سے گر سکتے ہیں اور چوٹ آسکتی ہے۔ اسکول میں ٹیچر کھیل کے سامان کھلونوں بلاکس وغیرہ یا چارٹس اور ویڈیو کے ذریعے بہت سی چیزوں کا شعور اجاگر کر سکتی ہیں مثلاً سڑک پار کرنا اور خطر ناک چیزوں سے دور رہنا وغیرہ وغیرہ۔ نرسری اسکول میں داخل کرانے کی رغبت چھوٹی عمر کے بچے کی ماں کو چاہیے کہ بچے کو اسکول داخل کروانے سے چند دن پہلے بچے کو ساتھ لے کر اسکول جائے تاکہ بچہ اسکول بلڈنگ/کلاس روم اور ٹیچرز سے مانوس ہوجائے۔ بچے کا پسندیدہ کھلونا ساتھ لے جائیں تاکہ بچے کے ذہن میں یہ ہو کہ تقریباً اسکول میں اسی طرح ہوتا ہے جس طرح گھر میں وہ کرنے کا عادی ہے۔ جب بچے کو داخل کرائیں تو والدہ کو چند دن اسکول میں جا کر بیٹھنا چاہیے۔ بعض اسکولوں میں ایسا ہو تا ہے کہ کھڑکی کے شیشوں سے بچے کو ماں نظر آتی رہے اس طرح بچہ تحفظ محسوس کرے گا۔ آہستہ آہستہ کم وقت کے لیے بیٹھے اور بعد میں لینے آئے۔ کچھ دن بعد بچہ سکول کے ماحول سے مانوس ہو جائے گا۔ نرسری اسکول میں سیکھنے کا عمل نرسری اسکول میں خودمختاری کے عمل سے ٹیچرز کے زیرِنگرانی مختلف چیزیں کرنا سیکھتا ہے۔ مثلاً بلاک جوڑنا، بلاک جوڑ کر مختلف چیزیں بنانا، خوداعتمادی سے دیگر کئی چیزیں جو گھر سے سیکھ کر آیا ہے انہیں مزید بہتر کرنا مثلاً واش روم کا استعمال، گروپ کی شکل میں Out Door اور Indoor Games، کھانا کھانے کے آداب، صفائی ستھرائی اور دیگر صحت مند سرگرمیاں۔ ان کے لیے اسٹاف تربیت یافتہ، باصبر اور نرم مزاج ہو۔ کھیلوں کا سامان بلحاظ عمر پوری طرح موجود ہونا ضروری ہے۔ ایک کلاس میں 15 سے زائد بچے نہ ہوں۔ چھوٹے بچے رنگین کپڑے پہننا پسند کرتے ہیں اور ٹیچر کو بھی نت نئے ڈریس میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ بچوں کو تصویروں میں رنگ بھرنے کی مشق کرائیں۔ لائنوں سے باہر رنگ بھرنے پر سختی نہ کریں۔ اس عمر میں دباؤ سے نتیجہ اخذ کرانا بچے کی ذہنی نشوونما پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور دوسرے بچوں کی نسبت صلاحیتوں میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ کھیل کی اہمیت کھیل سے بچے کی جسمانی اور ذہنی نشوونما ہوتی ہے۔ بچے کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے اسے حقیقت سے واسطہ پڑتا ہے۔ وہ اپنے احساسات، غصے یا شائستگی کا زبانی اظہار کرتا ہے مثلاً اگر کوئی بچہ کھیلتے ہوئے گرجائے تو دوسرے اس سے اظہار ہم دردی کرتے ہیں اور کسی غلط عمل پر ناراضی کا اظہار۔ یوں ان کے رویوں کی نشوونما ہوتی ہے، لیڈرشپ کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، سماجی ربط کو فروغ ملتا ہے۔ اسکول کی ذمے داری ہے کہ تمام کھیل اسکول اپنے زیرِانتظام کرائے۔ جن میں گیندیں، ٹرائی سائیکل، ٹریفک کے کھلونے، بڑے پلاسٹک کے بلاک، سلائیڈ وغیرہ شامل ہیں ان کے استعمال سے بچوں کے پٹھوں میں بہتری آتی ہے بچے کو صاف مٹی میں بھی کچھ دیر کھیلنے دیں یا رنگین چائنا مٹی کی مدد سے رنگین اشیاء بنانا بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ غذا بچے نرم غذا کھانا پسند کرتے ہیں جسے پُرکشش طریقے سے پیش کیا جائے۔ بعض بچے خوش دلی سے نہیں کھاتے وہ اپنے خیالوں میں ایک دنیا بسائے ہوئے ہوتے ہیں جسے انہوں نے دریافت کرنا ہوتا ہے۔ بعض بچے تھکاوٹ اور بعض کم کھانے والے بڑوں کی نقل کرنے کی وجہ سے تھوڑا کھاتے ہیں۔ بچوں کو ایک ہی ٹیبل /دستر خوان پر سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا دیا جائے۔ کھانے سے قبل بچے کی دل چسپی کی باتیں کی جائیں اور سنی جائیں تو کھانے میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ بچوں کو مختلف رنگین برتنوں میں کھانا دیں۔ مخلتف کھانوں کے ذائقوں سے بتدریج آشنائی دیں تاکہ وہ تمام غذائیں بڑے ہوکر خوشی سے استعمال کرسکیں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم اللّہ اور دیگر آداب خود عملی مظاہرہ کر کے سکھائیں۔ خوش گوار ماحول کا اہتمام کریں۔ نیند چھوٹی عمر کے بچوں کے لیے 24 گھنٹوں میں 12 سے 14 گھنٹے نیند پوری کرنی ضروری ہے جس میں ان کی دن کی نیند بھی شامل ہے۔ بعض بچے دن کو سونے پر ضد کرتے ہیں۔ انہیں نیند کے لیے راغب کرنے کے لیے کمرے میں اندھیرا کردیں۔ اگر وہ اپنا کھلونا ساتھ رکھنا چاہیں تو رکھنے دیں۔ تھپتھپائیں، لوری دیں اور باتیں کریں، اس طرح وہ سو جائیں گے۔ کچھ دن بعد کھلونا رکھنا بند کردیں۔ خیال رہے کہ کھلونے میں کوئی نوک دار یا تیزدھار چیز وغیرہ نہ ہو جو زخمی کرنے کا باعث بنے۔ اکثر بچے سوتے میں ڈرتے ہیں، کیوںکہ دن کو کسی ناخوش گوار تجربے سے گزرے ہوتے ہیں یا کسی چیز سے انھیں ڈرایا گیا ہوتا ہے۔ ڈرنے کی صورت میں انہیں حوصلہ دیں اور مسنون دعائیں اور کلمہ طیبہ کا ورد کریں۔ صحت کے لیے احتیاط بچوں کو مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے لیے حکومت کی طرف سے حفاظتی ٹیکے/قطرے وغیرہ کے پروگرام کا باقاعدہ حصہ بنیں اور اس سلسلے میں کوتاہی نہ برتیں۔ مزید برآں کم از کم چھے ماہ بعد بچوں کو اسپتال میں چیک کرائیں، تا کہ اُن کے وزن کے مطابق ڈاکٹر اپنی رائے دے سکیں۔ خاص کر شیرخوار بچے کے دانت نکالنے کے دوران بھی چیک کرائیں۔ اسی طرح اگر بچے کی آنکھوں میں باربار خارش ہو تو آنکھوں کے ڈاکٹر کو دکھائیں۔ اپنی کتاب وغیرہ کو آنکھوں کے بہت قریب کر کے دیکھے تو نظر چیک کرائیں۔ اگر بچے کو کوئی متعدی بیماری مثلاً خسرہ، لاکڑا کاکڑا یا کنتڑے (Mumps) وغیرہ ہو تو ٹھیک ہونے تک بچے کو اسکول نہ بھیجیں۔ باقاعدہ اسکول پانچ تا چھے سال کی عمر کا دورانیہ بچے کی تعلیم و تربیت کا انتہائی مناسب دور ہوتا ہے، کیوںکہ بچے کے ذہن آنکھ اور ہاتھ کا ربط کافی حد تک مضبوط ہوچکا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے جہاں بچے کی توجہ مرکوز ہونے میں کافی حد تک بہتری آچکی ہوتی ہے اور وہ سیکھے ہوئے اسباق کو لکھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ اس عمر میں جماعت اول میں داخلہ بڑھتے ہوئے بچے کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے جہاں بچہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ مثبت معاشرتی اقدار کا شعور حاصل کرتا ہے اور مختلف بنیادی مضامین کی شُدبُد حاصل کرتا ہے۔ اس عمر میں بچہ بہت سے کام ازخود کرنا چاہتا ہے لیکن اس کی حرکات و سکنات پر کسی حد تک نظر بھی رکھنی چاہیے۔ 9 تا 12 سال کے بچے اس عمر کے بچے تقریباً بتدریج زیادہ ذمے داری محسوس کرتے ہیں۔ مثلاً 9 سال کا بچہ اپنی دل چسپی کے کھیل کے ساتھ ٹی وی وغیرہ دیکھنے میں دل چسپی لیتا ہے۔ اگر کتاب بینی /بچوں کی کہانیوں کی طرف راغب کیا جائے تو ان میں دل چسپی لیتا ہے۔ اسی طرح دس سال کا بچہ سماجی روابط بڑھاتا ہے اور سماجی بہبود کے کاموں میں دل چسپی لینا شروع کرتا ہے۔ بچے فٹ بال کرکٹ وغیرہ کھیلتے ہیں جب کہ بچیاں گڑیاں (Dolls) وغیرہ سے کافی دیر تک کھیلتی ہیں۔ اسی طرح گیارہ اور بارہ سال کی عمر میں لڑکے زیادہ جذبے کا اظہار کرتے ہیں اور نتیجے کی پرواہ کیے بغیر خطرناک کام کر جاتے ہیں۔ مثلاً درختوں پر چڑھنا، باڑ وغیرہ پھلانگنا، پُرہجوم سڑک پر سائیکل ریس لگانا۔ والدین اور اساتذہ کو اس سلسلے میں مناسب ہدایات دینی چاہییں۔ اس عمر کے بچوں کو نماز کی پابندی کروانی چاہیے۔ صحت کے مسائل اور نفسیاتی عوامل چھے تا بارہ سال کی عمر کے بچوں کی صحت کے متعلق خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ روزانہ کی خوراک کے ساتھ اناج میں مکئی، جو وغیرہ بھی شامل کریں تاکہ قد میں اضافہ ہو اور ہڈیاں مضبوط ہوں۔ پاپڑ وغیرہ سے پرہیز کروائیں۔ اس عمر کے گروپ کے بچے بعض نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہوسکتے ہیں۔ بعض اوقات مختلف خوف ذہن میں ہونے کی وجہ سے نیند کی کمی، بھوک کم لگنا یا بھوک ہونے کے باوجود کم کھانا یا بعض بچوں کا ضرورت سے زیادہ کھانا۔ زیادہ ہوم ورک ملنے کی وجہ سے کام کا رہ رہ جانا حالاںکہ ترقی یافتہ ممالک میں کتابیں اسکول ہی میں رکھی جاتی ہیں اور سارا کام اور قابلیت میں اضافے کی ذمے داری اسکول پر عائد ہوتی ہے تاکہ بچے بغیر کسی ذہنی دباؤ (Tension) کے گھر جائیں اور بھاری بستے اٹھاکر جسمانی ڈھانچہ بھی خراب نہ کریں۔ اگر ضروری ہو تو بچوں کو اتنا ہوم ورک دیا جائے جسے وہ آسانی سے کم وقت میں کرسکیں۔ اسی طرح صبح اسکول جاتے وقت بچے پیٹ یا سر میں درد کی شکایت کریں تو والدین اسے جھوٹ یا بہانہ نہ سمجھیں۔ چوںکہ اکثر یہ تکالیف نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اسی طرح امتحان وغیرہ سے پہلے بخار، خوف بھی نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے۔ بچوں کو اس سلسلے میں حوصلہ دیں، اساتذہ سے رابطہ کریں اور بچوں کے مسائل حل کریں۔ اس سلسلے میں بے پرواہی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ بچوں کو اسکول بھیجتے وقت اچھے طریقے سے خوشی خوشی روانہ کریں اور واپسی پر پُرجوش طریقے سے استقبال کریں۔ مراد یہ ہے کہ بچوں کو خوش رکھیں کیوںکہ پریشانی کی وجہ سے کھانا بھی ہضم نہیں ہوتا اور بچے ذہنی و جسمانی کم زوری کا شکار ہوسکتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں، البتہ غلطی کرنے پر ہلکی پھلکی سرزنش ضرور کریں۔ یہ بھی ایک طرح کی شفقت ہی کا درجہ رکھتی ہے۔ جہاں اچھا عمل سر انجام دینے پر بچے کی تعریف کی جاتی ہے وہاں غلط کام پر مناسب ڈانٹ ڈپٹ بھی ضروری ہوجاتی ہے، تاکہ بچہ شُتر بے مہار کی طرح حرکات نہ کرے۔ بعض ماہرین کے مطابق بچے میں ضدی پن کے رویے کی ابتدا شیرخوارگی یعنی تقریباً ایک ڈیڑھ سال کی عمر ہی سے شروع ہوجاتی ہے۔ بعض بچے بے وقت یا رات گئے دودھ پینے کا مطالبہ کرتے ہیں حالاںکہ پہلے سیر ہوکر پی چکے ہوتے ہیں۔ نہ ملنے پر چیخ و پکار کرنا شروع کردیتے ہیں، والدین کو مجبوراً اُٹھ کر مطالبہ پورا کرنا پڑتا ہے اور یوں یہی رویہ بڑی عمر میں بھی ان میں موجود رہتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ انہیں مقررہ وقت پر دودھ دیں اور بے وقت مطالبے کی حوصلہ شکنی کریں تا کہ ضدی پن عادت ثانیہ نہ بن سکے۔ ٹیچرز سے بھی گزارش ہے کہ جب بچے کلاس روم میں اکتاہٹ (Boredom) محسوس کریں اور عدم دل چسپی کا مظاہرہ کریں تو ان سے انگلیوں سے کچھ دیر کے لیے ڈیسک بجوائیں یا تھوڑی دیر کے لیے زمین پر آہستہ آہستہ پیروں سے فرش بجوائیں۔ اخلاقی تربیت چھوٹی عمر کے بچوں کو شروع ہی سے مذہب سے روشناس کرانا والدین کی اہم ذمے داریوں میں شامل ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ٭ جب بچہ بولنے لگے تو سب سے پہلے اسے کلمہ طیبہ سکھاؤ۔ ٭ رسول اللّہ ﷺ نے فرمایا! آگاہ رہو تم میں ہر شخص نگہبان ہے اور ہر شخص سے اُس کی رعیت یعنی جن کا وہ نگہبان اور ذمے دار ہے اُن کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی نگہبان ہے اور اس سے اُن کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ معاشرتی طور پر عورت کو نگہبانی کا فریضہ تو انجام دینا ہی پڑتا ہے لیکن اگر یہ ذمے داری اس نیت سے سرانجام دے کہ یہ اللّہ اور رسول ﷺ کا حکم ہے تو یہی نگہبانی اور پرورش عبادت کا درجہ حاصل کرلے گی۔ پانچ سال کی عمر سے بچوں کو قرآنی قاعدہ پڑھائیں اور ساتھ ساتھ روزمرہ کی مختصر دعائیں بھی سکھائی جائیں۔ مثلاً کھانا شروع کرنے سے پہلے اور بعد کی دعائیں، تسمیہ و تعوذ۔ واش روم جانے، سونے اور جاگنے کی دعا وغیرہ اور عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ناظرہ قرآن مجید کا اہتمام کیا جائے، تاکہ سات سال کی عمر تک بچہ ناظرہ قرآن مجید کی تکمیل صحیح تلفظ اور تجوید کے ساتھ کرلے۔ علاوہ ازیں بچے کو انگریزی آداب ہی نہ سکھائیں بلکہ پہلے Thank you کی بجائے جزاک اللّہ، حال بتانے پر الحمدُللّہ، کسی غلطی یا دُکھ پر shit کی بجائے اناللّہ و انا الیہ راجعون اور مواقع کی مناسبت سے دیگر دعائیں سکھائیں، کیوںکہ اصل تربیت نفس کی ہے جو با برکت ناموں سے زیادہ پاک اور شفاف ہوسکتا ہے۔ بعد میں بے شک فی زمانہ انگریزی کے آداب سکھائیں۔ اسی طرح پانچ سال کے لڑکوں کو کم از کم نماز جمعہ میں مسجد ساتھ لے کر جائیں تاکہ اس کے ذہن پر اچھے روحانی اثرات مرتب ہوں اور مسجد کے ماحول سے مانوس ہو۔ بہرحال جہاں والدین کا کردار ان تمام معاملات میں بہت اہمیت کا حامل ہے وہیں اساتذہ بہترین رول ماڈل ثابت ہوسکتے ہیں، کیوںکہ بچپن میں اچھی تعلیم و تربیت بہترین کردارسازی اور شخصیت سازی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے، تاکہ بچے بڑے ہوکر اپنی ذمے داریاں ایمان داری، محنت اور قومی جذبے سے سرانجام دے کر ملک و ملت کے لیے باعث خیروبرکت ثابت ہوں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل