Loading
بھارت میں ان دنوں سنبھل کے علاقے میں حاضر حکومت کے لیے سوال اٹھ رہے ہیں، جب سے وہاں زیر زمین نادیدہ مندروں کے بابت کھدائیاں، شہادتیں اور صدائیں ابھر رہی ہیں۔ آخر ایسا کیا ہے کہ سنبھل کا علاقہ بھارت سرکار کے لیے اتنی اہمیت کیسے اختیار کر گیا اور اچانک یہ نقطہ کہاں سے چھوڑا گیا کہ وہاں مندروں کو چھپا دیا یا دبا دیا گیا اور ان پر قبضہ کر لیا گیا؟ سنبھل کا علاقہ دراصل زمانہ قدیم سے ہی بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ اُترپردیش کے مراد آباد اور امروہہ کے درمیان واقع ہے۔ یہ روہیل کھنڈ کا ایک شہر ہے جہاں زیادہ تر مسلمانوں کی آبادی ہے۔ کسی زمانے میں اسے صدر مقام کا رتبہ بھی حاصل تھا۔ مغل دور میں اس علاقے کو بڑی عزت و توقیر حاصل تھی۔ دور دراز سے آئے مسلمانوں نے روہیل کھنڈ کو تاریخ میں جو مقام دیا آج کے دور میں اس کا حال یہ ہے کہ اسے ایک کم حیثیت ضلع بھیم نگر کی تحصیل بنا دیا گیا ہے۔ ایودھیا میں مودی سرکار نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد اسے جس انداز میں منظرنامے پر ابھارا تھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، گویا یہ طے تھا کہ بابری مسجد کے بعد ایودھیا میں جشن منانا تھا لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی کہ شدت پسند ہندوؤں کے مطابق انھیں بھارت میں تیس ہزار مندروں کو واپس حاصل کرنا ہے اس تیس ہزار کی گنتی کے پیچھے کیا کہانی ہے۔ تاریخ کو زیادہ کریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے کیسے حالات ہیں؟ یہ سوال مودی سرکار سے پہلے ایک الگ نوعیت کا تھا لیکن آج یہ سوال انتہائی تشویش ناک ہے کہ وہاں بستے مسلمانوں کا مذہبی تشخص ہی نہیں بلکہ ان کا وجود بھی مستقل خطرے میں جھونکنے میں قوتیں صرف کی جا رہی ہیں لیکن یاد رہے کہ مسلمان بھارت میں ایک بڑی قومیت کے حوالے سے آباد ہیں جنھیں کچلنا یا ان کے حقوق سلب کرنا آسان نہیں لیکن مودی اور ان کے ہرکارے اپنی جنونیت میں ہر طرح سے تیر چلا رہے ہیں کہ شاید ان کے ہدف پر جا لگے۔ سنبھل کی جامع مسجد جسے تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ 1976 میں ایک جنونی ہندو نے اس مسجد کے امام کو شہید کر دیا تھا اس کے بعد سے وہاں پولیس کے اہل کاروں کے لیے چوکی بنا دی گئی تھی پر آج اسی مسجد کے حوالے سے ایودھیا کی بابری مسجد کی طرح افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ 19 نومبر 2024 کی بات ہے جب کیلا دیوی مندر کے کچھ شدت پسندوں نے مقامی عدالت میں ایک درخواست دائر کی جس میں لکھا تھا کہ مشہور تاریخی مسجد کی جگہ ایک ہندو مندر قائم تھا جسے 1526 میں توڑ کر مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ انھوں نے محکمہ آثار قدیمہ سے اس جگہ کا سروے کرنے کی درخواست بھی دی تھی جس پر عدالت کی جانب سے جلد ہی عمل بھی کر دیا گیا جس سے وہاں کے مسلمانوں میں اشتعال بھی پھیل گیا اور چار مسلمان نوجوان شہید ہو گئے۔ کیا سنبھل کی جامع مسجد کے وجود سے بھارتی سرکار کو خاص کر یوگی جی کو تکلیف ہے یا یہ اسی عمل کی ایک شاخ ہے جس سے بھارت کے سیکولر ہونے پر سوال اٹھ سکتے ہیں یا شاید وہ سیکولرازم سے خائف ہیں کیونکہ سیکولرازم کے جھنڈے لے کر بھارت کی آزادی کا سبق پڑھانے والے تمام اکابرین اب نریندر مودی اور ان کے حواریوں کی نظر میں عقل کے اندھے ہی تھے جنھوں نے دھرم کو ایک جانب رکھ کر آزادی کا طوق پہن لیا، اس لیے کہ ان کی نظر میں آزادی کے معنی ہی الگ ہیں۔ بھارتی میڈیا پر تیس ہزار مذہبی عبادت گاہوں کی واپسی کا الاپ سناتے شدت پسندوں کو دکھانے کا مقصد کیا سیکولرازم کے اختتام کی جانب قدم بڑھانے کے سفر کی ابتدا نہیں ہے۔ سنبھل کی ایک جانب مسجد ہی کیا، کھدائی کے لیے اور بھی دَر کھل رہے ہیں، مسلمانوں کی آبادی کے بیچ وہ مندر جو دراصل ہندوؤں کے علاقہ چھوڑ کر چلے جانے کے باعث غیر آباد ہوگئے انھیں تالا ڈال کر بند کر دیا گیا تھا۔ عرصہ پچاس چالیس سال بعد کھولا گیا لیکن اس تمام عرصے میں کیا کسی مسلمان نے اس مندر کی عمارت تو کیا ایک دیوار بھی ڈھانے کی کوشش کی تھی؟ لہٰذا مندر یا کسی بھی عبادت گاہ کو توڑ کر مسجد بنانے کا خیال ہی احمقانہ ہے۔ لیکن ایک کے بعد ایک کہانیاں بنائی جا رہی ہیں۔ خبریں چل رہی ہیں، رپورٹنگ ہو رہی ہے، اینکرپرسن چیخ رہے ہیں۔ دراصل تیاریاں ہیں قبضہ مافیا کی جو کسی بھی انداز میں مسلمانوں کی جائیدادوں کو ہڑپنے کے لیے پَر تول رہے ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے ضیا الحق بٹ سنبھل کی جامع مسجد کے سروے کو ناجائز کہتے ہیں ان کے خیال میں اس کا قانونی جواز نہیں تھا، ان کے خیال میں یہ یوگی سرکار کی نااہلی ہے جب کہ عمران مسعود کا کہنا ہے کہ یوگی سرکار عوام کو ان چکروں میں الجھا رہی ہے ، اسے جن اہم ایشوز کو حل کرنا ہے جس میں سب سے اہم مسئلہ روزگار کا ہے اس کے بجائے مندروں اور مسجدوں کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ نریندر مودی کے دور حکومت میں مسلمان پھر سے 1947 سے پہلے کے دور میں جا بسا ہے، جہاں وہ ڈرا، سہما اپنے ہونے پر ہی مطمئن تھا کہ وہ جی رہا ہے اور آج بھی جب مسلمانوں کے مذہبی تشخص اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو آج بھارت کا مسلمان اپنی ترقی، اپنے روزگار اور حکومت سے اس کے مطالبے کو بھول کر اپنی مذہبی عبادت گاہوں، قبرستانوں اور مسجدوں کے وجود کو بچانے میں سرگرداں ہے، اسے خوف ہے کہ اگر وہ اپنی مذہبی شناخت کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے گا تو کل کو اپنے رب کو کیا منہ دکھائے گا اور بس یہی سوال اور احساس اسے اپنی سرکار سے اپنے حقوق اپنے مطالبات سے پیچھے کرتا جا رہا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہی ہے یا اس کے ساتھ ایک بار پھر مسلمانوں کو انگریز دور حکومت کی مانند غلامی کی صورت بسر کرنا ہے، کیا ایک بار پھر سے نئی آزادی کی تگ و دو میں لگنا ہوگا کہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا، کاررواں ابھی جاری ہے۔ کیا ابھی ایک اور پاکستان آزاد ہونے کی صدا بھارت سے ابھر رہی ہے؟
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل