Sunday, December 29, 2024
 

نواز شریف، عمران اور زرداری مل بیٹھیں تو 70 سالہ بحران 70 سال میں ختم ہو جائے گا، رانا ثناء

 



وزیراعظم کے مشیر سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف، صدر آصف زرداری اور بانی پی ٹی آئی عمران خان ساتھ مل کر بیٹھیں تو ملک کے 70 سالہ بحران کا خاتمہ 70 دن میں ہوجائے گا۔ خواجہ رفیق شہید کی برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا تینوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی کے سربراہان کے نام مذاکراتی کمیٹی میں شامل کیے جائیں اور ان کے ویسے خیالات ہوں جو نواز شریف کی پچھلے سال وطن واپسی کے دوران تھے تو ملک میں جاری 70 سالہ بحران کا خاتمہ ہوجائے گا۔ نوازشریف، عمران خان اور آصف زرداری کا نام مذاکراتی کمیٹی میں شامل ہونا چاہیے، ہم سیاست دانوں کو ساتھ بیٹھنا چاہیے لیکن اس سے پہلے یہ بہت ضروری ہے کہ غلطیوں کو تسلیم کیا جائے۔ 1973 کا آئین اور میثاق جمہوریت اہم سیاسی دستاویز ہیں، میثاق جمہوریت میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور نوازشریف نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا اور پھر بات چیت میں پیش رفت ہوئی۔ اگر آج پی ٹی آئی اپنے مینڈیٹ کی بات کرتی ہے تو پھر سابقہ دور کی بھی بات ہونی چاہئے۔ ن لیگ نے ہمیشہ سیاسی مسائل کو حل کرنے کیلئے بات چیت پر زور دیا ہے۔ آگے بڑھنے اور مسائل کا واحد حل صرف مذاکرات ہیں۔ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے پہلے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مقدمات تو ہمارے خلاف بھی جھوٹے تھے، اگر اپنا آج کا سچ منوانا ہے تو ہمارا کل کا سچ بھی تسلیم کرو۔ سیاسی عمل پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے لیکن کسی کے گھر کو آگ بھی نہیں لگانی چاہئے۔ پی ٹی آئی کے کچھ لوگ مذاکرات کیلئے اْتنے ہی سنجیدہ ہیں جتنے ہم ہیں مگر وہ یہ بات کھل کر نہیں کرسکتے کیونکہ اْنہیں اپنے سوشل میڈیا سے اتنی گالیاں پڑتی ہیں کہ وہ خود مشکل میں آجاتے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ میں مذاکرات کا مخالف نہیں ہوں، مذاکرات اور قومی ڈائیلاگ ہونے چاہئیں اور نئے سوشل کنٹریکٹ میں تمام پاور سیکٹرز کو شامل ہونا چاہئے۔ پی ٹی آ ئی دور حکومت میں جب بھی مذاکرات کی بات کی گئی تو انہوں نے ہمارے ساتھ بد تمیزی کی۔ بانی پی ٹی آئی کی تاریخ ہے کہ وہ کسی کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن نے مذاکرات کیلئے سب سے پہلے ہاتھ بڑھایا،گزشتہ15روز میں ایسا کیا ہوا کہ پی ٹی آئی مذاکرات پر آمادہ ہو گئی،کوئی ایک شخص بتا دیں جس کے ساتھ بانی پی ٹی آئی نے وفا کی۔ یہ پہلا سیاستدان ہے جو امریکہ کے ترلے کر رہا ہے، پہلے کہتے تھے کہ غلامی نامنظور، اب کہتے ہیں غلامی سو بار منظور۔ عمران لوگوں کو استعمال کرتا ہے، حکومت کو خبردار کرتا ہوں کہ آپ بھی کہیں استعمال نہ ہو جائیں۔ افغانستان کی جنگ میں ہمارا کوئی کام نہیں تھا، بانی پی ٹی آئی کے دور میں 40 ہزار بندے پاکستان آئے، ہم افغانستان میں جہاد کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ خواجہ آصف نے ایکس پر ایک بیان میں کہا 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ کو سزا ملنے تک حقیقی انصاف نہیں مل سکتا۔ عمران خان کی بین الاقوامی حمایت تمام ان ملکوں سے آرہی ہے جو اسرائیل کے کٹر حامی ہیں، جنکی حمایت کی بدولت اسرائیل کا وجود ہے اور ان ملکوں نے فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا بلکہ فلسطینیوں کے قتل عام کے سہولت کار ہیں۔ انہی ملکوں سے جو بھی افراد عمران خان کی حمایت میں آواز اٹھا رہے ہیں وہ بھی یا خود صہیونی ہیں یا کھلے عام ان کی مسلم دشمن پالیسیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے یا یہ ممالک اور افراد کسی ایسے ایجنڈے پر کام کر رہے جس سے پاکستان میں ان کی پراکسی عمران خان حکمران بن کر پاکستان کی ایٹمی قوت کو لپیٹے اور اپنے مالکوں کی کلائنٹ سٹیٹ بنانے کے ان کے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کرے۔ کیا یہ سب اتفاق ہے یا پاکستان ایک سازش کا نشانہ ہے جس کی تکمیل عمران خان کے ذمہ لگائی گئی ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ کیا ہمیں اس پر سوال نہیں اٹھانا چاہئے کہ ملک میں دہشتگردی کیسے واپس آئی۔ ہم 9 مئی کا ذکر کرنے سے کترا جاتے ہیں،اس دن فوجی تنصیبات کے علاوہ کہیں احتجاج نہیں ہوا، صرف پاکستان کو کمزور کرنیکی کوشش کی گئی۔ کیا ماضی میں فوجی عدالتیں نہیں بنیں۔ تلخیاں اپنی جگہ لیکن بات ضرور کرنی چاہئے۔ میں رانا ثنا اللہ کو کہوں گا کہ چونکہ آپ مذاکراتی کمیٹی کے رکن ہیں تو معیشت، دہشتگردی اور عوامی مسائل کی بھی ان مذاکرات میں بات کی جائے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ملک دھینگا مشتی میں گھرا ہوا ہے، اگر یہی حالات رہے تو بہت سے لوگ غیر متعلقہ ہوجائیں گے، پاکستان ریموٹ کنٹرول جمہوریت سے آگے نہیں بڑھ سکتا، یہ نہیں ہوسکتا صرف سیاستدان ہی رگڑا کھائیں۔ لوگ جتھے بنا کر نکلیں گے تو کس کس کی بات آپ مانیں گے۔ میں بالکل اپنی پارٹی کے اندر ہوں لیکن جہاں خرابی ہوگی، اب چپ نہیں رہا جاسکتا اس پر بات کرنی پڑے گی۔ نئی امریکی انتظامیہ کو عمران خان سے کوئی دلچسپی نہیں، ان کی دلچسپی وہی ہے جو امریکی استعمار کی ہے اور وہ پاکستان کا جوہری اور میزائل پروگرام ہے۔ تحریک انصاف سے مذاکرات کا عمل کامیاب ہونا چاہئے۔ انہوں نے ملک کو موجودہ سیاسی بحرانوں سے نکالنے کیلئے قومی کمیٹی بنانے کی تجویز دے دیتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان، حافظ نعیم الرحمان، شاہد خاقان عباسی، ڈاکٹر مالک بلوچ، آفتاب شیرپاؤ، پیر پگارا، چودھری نثار اور دیگر سٹیک ہولڈز کو کمیٹی کا حصہ بنانا چاہئے جو نہ حکومت اور نہ ہی پی ٹی آئی اتحاد کا حصہ ہیں۔ سینئر سیاستدان ملک کو ٹریک پر واپس لانے کیلئے سوچ بچار کریں، یہ نہ ہو کہ مزید نقصان اٹھانا پڑے، ریاستی اداروں کی توہین کی جارہی ہے اور اس پر دوسری جانب سے ردعمل آرہا ہے، سمجھ نہیں آرہی ہے کہ سچا کون اور جھوٹا کون ہے۔ سیاست میں کوئی دفن نہیں ہوسکتا، یہ غلط فہمی سب کو دور کرلینی چاہئے، نہ بھٹو کی سیاست کوئی ختم کرسکا اور نہ نواز شریف کی کرسکا اور نہ ہی سیاست کو غیر فطری طریقے سے روکا جاسکتا۔ نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کہا آئین توڑنا، معطل کرنا، انتخابات سے مرضی کے نتائج حاصل کرنا اور مرضی کے لوگ مسلط کرنا اب نہیں چل سکتا۔ قومی ڈائیلاگ ہونا چاہئے اور کم از کم ایجنڈے پر اکٹھے ہونا چاہیے۔  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل