Monday, January 06, 2025
 

ظلم اور بے حسی کا عروج

 



ہر سال کی طرح اس سال کا سورج بھی بہت سی امیدوں کے ساتھ طلوع ہوا، شب کو اس کی آمد کی خوشی میں گیت بھی گائے، بڑے ہوٹلوں اور کلبوں میں رقص و موسیقی کی فضا بھی پروان چڑھی، کیک کاٹے گئے، ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے سب غموں، شکست و ریخت کو بھلا کر اپنے زخموں کو تھوڑی دیر کے لیے سلانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن کچھ زخم اور دردِ جگر ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے لہو رستا رہتا ہے، تکلیف ہوتی ہے، جدائی کا نوحہ کانوں میں گونجتا ہے، پورے گھر میں تاریک سائے اور تاریکی دَر و دیوار پر براجمان ہو جاتی ہے، یہ ایسا تکلیف دہ احساس ہے جس کا کوئی مداوا نہیں۔  گزرا سال 2024 خونی سال ثابت ہوا۔ غزہ میں معصوم بچوں کا بے قصور انسانوں کا خون بہایا گیا۔ اس خون کے دریا کو سمندر بنانے میں کفار کا تو ہاتھ تھا ہی ساتھ میں مسلم حکمران بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے، انھیں بھی اپنے بھائیوں اور بہنوں کی آہ و بکا سنائی نہیں دی، اس قدر غم ناک حالات جب لہو کی برسات ہو رہی تھی وہ تجارت کرتے اور مال بناتے رہے۔  آج بھی ہزاروں فلسطینی شہید ہو رہے ہیں، انھیں ان کے حالات پر بے سہارا و بے کس چھوڑ دیا گیا ہے، خود غرضی اور بے حسی کی چادروں میں سب دبک کر بیٹھ گئے ہیں اور دل پر قفل لگا لیا ہے، وہ عراق اور ہلاکو خان کی کہانی کو ازسر بھول چکے ہیں کہ بزدلوں کا کیا انجام ہوتا ہے، سورہ توبہ کی آیات بھی انھیں یاد نہیں آتی ہیں کہ منافقوں کا کیا حال ہوا، منافقین کے بارے میں ہی تو اللہ نے فرمایا ہے: ’’پھر جب عزت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور پکڑو اور انھیں گھیر لو اور ان کی تاک میں ہر جگہ بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو، بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘(آیت نمبر پانچ) آج نفاق سے دل بھرے ہوئے ہیں، کفار و نصاریٰ کے خلاف اسی وجہ سے جہاد نہیں کرتے ہیں۔ جہاد کرنے سے ان کے خیال میں انھیں نقصان ہوگا، چونکہ وہ دنیا کی مختصر زندگی سے خوش اور نازاں ہیں، وہ اسے ہی کامیابی سمجھتے ہیں۔ ڈالرز اور عیش و عشرت کی طلب نے انھیں قرآنی تعلیم سے بہت دور کر دیا ہے۔ ’’انھوں نے اللہ کی آیات کو تھوڑی قیمت میں بیچ ڈالا، پھر اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، بے شک وہ برا ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں۔‘‘ (آیت نمبر9، سورہ توبہ) علامہ اقبال نے ایسے منافقوں کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ: خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے ہیں کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق پوری امت کا حال ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے، بہت کم ہی صاحبان ایمان ہیں جو راہِ حق کے راہی اور مخلوقِ خدا کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والے ہیں، طمع پرستی اور اخلاقی اقدار کے زوال کے اس دور میں بہت سی مظلومانہ صداؤں میں ایک صدا یہ بھی بلند ہو رہی ہے کہ ’’گولی کیوں چلائی؟‘‘ یہ ایک سوال ہے جو پاکستان سے لے کر امریکا، برطانیہ اور دوسرے خطوں سے کیا جا رہا ہے۔ بی بی سی نے مکمل رپورٹ پیش کی ہے کہ گولی کس نے چلائی؟ اس حوالے سے مکمل تفصیل بیان کی ہے۔ ڈاکٹر کا بیان بھی سب کو سنوا دیا ہے کہ کتنی لاشیں اور زخمی آئے اور کس طرح زخمیوں کے لواحقین اپنے پیاروں کو اپنے گھروں کو لے کر رخصت ہوئے کہ وہ اپنے جگر پاروں کا خود ہی علاج کرا لیں گے۔ اس جگہ سے نکل جانے میں ہی عافیت ہے۔ یہ اپنا ملک ہوتے ہوئے بھی اپنا نہیں لگتا ہے۔  مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں، دھرنے بھی تقریباً ختم ہیں لیکن پولیس کا رویہ افسوس ناک ہے وہ نہتے شہریوں کو زد و کوب کرتے ہیں، حکومتوں اور اداروں کو چاہیے کہ وہ عوام کے مسائل حل کریں اور ان کے دکھ کو سمجھنے کی کوشش کریں، مظلوم انسان کہاں جائے، کس سے فریاد کرے؟ سوائے اس کے کہ اللہ سے دعا اور بددعا کرتا ہے، لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے جب برستی ہے تب اندازہ ہوتا ہے کہ مکافات عمل کا وقت آگیا ہے اور یہ ہوتا ہے جو بوتا ہے اسے ایک دن کاٹنا ہی پڑتا ہے، قانونِ قدرت یہی ہے۔ ہر سال کے آخری دن آیندہ سال کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں لیکن دعائیں تو اس وقت مستجاب ہوں گی جب عمل اچھا ہو، کسی کے ساتھ زیادتی ناانصافی جبر اور ناحق پابند سلاسل کرنے کے بعد تنزلی اور ملک کی بدنامی کے سوا کچھ نہیں ہونے والا ہے، بلکہ برا اور مزید برا ہو رہا ہے۔ کوئی امید بَر نہیں آتی۔ ملکی خزانے ختم اور حکومت مقروض علیحدہ، قومی ایئر لائن پی آئی اے اور اسٹیل مل کا جو حال ہوا ہے، وہ سب کے سامنے ہے اور یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ غریب فاقوں سے مر رہا ہے اور حکومت ضیافتیں کرنے میں پیش پیش ہے، مہمان بھی ہندوستان سمیت دوسرے ملکوں سے بلائے گئے ہیں۔ بھارتی بزنس ٹائیکون مبارکباد دینے پاکستان بہ نفسِ نفیس پہنچے، وی آئی پی پروٹوکول مہیا کیا گیا۔ ظاہر ہے پوتے کی شادی جو ہو رہی ہے، ایک طرف گھر جل رہے ہیں، لاشیں اٹھائی جا رہی ہیں تو دوسری طرف شادیانے بجانے میں بے باک ہیں جیسے پاکستان کے شہری حکومت کی ذمے داری نہیں ہیں۔ بجلی اور پانی کے ساتھ ساتھ گیس بھی دھڑلے سے بیچی جا رہی ہے کچھ علاقوں کی صورت حال یہ ہے کہ ایک ایک گھرانے سے چالیس ہزار نقد اور 1500 روپے ماہانہ تب گیس کے چولہے روشن ہوں گے اور انھی علاقوں میں دور پرے گیس سرے سے غائب ہے۔ ویسے تو یہ دردناک واقعات ہر علاقے اور ہر گھر میں سردی اور بھوک میں اضافہ کر رہے ہیں۔ صبح کی گرم گرم چائے اور پراٹھوں کو لوگ بھول چکے ہیں اور گیزر بھی چولہوں کے ساتھ ایک پانی کی ٹنکی کی شکل میں نظر آتے ہیں، لوگ مارے خوف کے بند ہی رکھتے ہیں نہ جانے کب گیس آئے اور اچانک چلی جائے، اس انداز میں آگ لگنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اندرون پاکستان کے حالات آئے دن راستوں کی بندش نے جینا دوبھر کردیا ہے، مہنگائی میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے، سردیوں میں سبزیوں کی قیمتوں میں کمی کے بجائے نرخ مزید بڑھ گئے ہیں، کوئی جیئے توکیسے جیئے؟

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل