Loading
پاکستان میں 2025 مسائل کی جنگ میں الجھا ہوا طلوع ہوا۔ کیا ہم ایسا ہی پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیا ایسے ہی ملک کے خواب 1925میں کسی نے سوچے تھے، ایک ایسی ریاست جہاں انگریزوں کی عمل داری نہ ہو، جہاں ہندو بنیے، مہاجن سود در سود لیے سر پر نہ کھڑے ہوں۔ کیا یہی وہ سب ہے جس کے لیے ہمارے بڑوں نے اپنی جانوں، مالوں اور عزتوں کی قربانیاں دی تھیں۔پہلی جنوری 2025کے سورج نے اپنے پر پھیلائے تو قائد اعظم کے مزار کے سامنے دھرنے کو دیکھا۔ ’’یہ کیوں بیٹھے ہیں؟‘‘ ’’دراصل ہمارے ملک کو نظر لگ گئی ہے۔‘‘ ’’نظر کس کی لگی؟ اور کیوں؟‘‘ ’’پہلے ہمارا ملک بہت ترقی کر رہا تھا، ایٹم بم تک بنا لیا، ادھر کی ترقی کی خبریں دشمنوں کو ہضم نہ ہوئیں، انھوں نے ایسی نظر لگائی کہ دیکھ لو۔ کیسے لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں۔ پہلے بانی تحریک انصاف کی وجہ سے کوئی کم جھگڑے تھے کہ اب یہ شروع ہو گئے۔‘‘ انتہائی معصومیت سے مختصر الفاظوں میں ایک داستان سنا دی گئی تھی۔ ’’آپ کے خیال میں ہم اپنے ملک کو نظر بد سے کیسے بچا سکتے تھے؟‘‘ ’’نظر بد کو تو مانتی ہو ناں۔ یہ تو ہے کہ بری نظر تو کھڑے اونٹ کو گرا سکتی ہے۔‘‘ انھیں گویا خود اپنے بیان پر شک تھا۔ ان کی عمر کو دیکھتے تعظیم بھی ضروری تھی۔ ’’جی جی، بالکل۔۔۔۔ یہ تو ہے۔‘‘ ’’جب یہ پاکستان بنا تھا تو میں پانچ سال کی تھی یا تھوڑی بڑی تھی، اس سے۔ پر مجھے اتنا یاد ہے کہ ہم ادھر انڈیا میں بڑے غریب لوگ تھے۔ ہمارا ابا مالی تھا، کوئی انگریز تھا یا ہندو۔ پر مسلمان نہیں تھا، ابا میری اماں سے ہر روز آ کر کہتا کہ ’’ ہم اپنے ملک جا کرکاروبار کریں گے۔ ان انگریزوں کی غلامی سے نکلیں گے، ہمارے پاس کھانے کے لیے بھی مشکل سے پیسے ہوتے تھے۔‘‘ میں ابا سے کہتی تھی کہ ’’ مجھے گڑیا چاہیے، وہ کہتا تھا بیٹا! پاکستان بننے والا ہے، ادھر جا کر تجھے سب دوں گا۔‘‘ پھر پاکستان بن گیا، ہم یہاں کیسے آئے، میں تو چھوٹی سی تھی، بہت سی باتیں بھول بھی گئیں، بس اماں مجھے اپنے سے لگائے رہتی تھی۔ میری دو بڑی بہنیں بھی تھیں، ابا نے غنڈوں کے ڈر سے ان کی چھوٹی عمروں میں شادی کر دی تھی۔ ’’آپ پاکستان کیسے آئیں؟‘‘ ’’میرا بہنوئی۔۔۔۔ وہ میرے تایا کا بیٹا تھا، وہ لاری اڈے پر کام کرتا تھا، شاید اس نے ہی سب بندوبست کرایا تھا۔ مجھے بس اتنا یاد ہے کہ ایسا ہی سورج تھا اور ایسی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، مجھے بڑی بھوک لگی تھی، میں رو رہی تھی، اماں نے میرے منہ میں نوالہ ٹھونسا تھا، آج تک اس کا مزہ یاد ہے۔ ایسے جیسے کسی نے بہت سی ہری گھاس پانی میں پکائی ہو۔ کچھ نمکین کچھ کڑوا، بڑا عجیب سا تھا۔ پر شکر ہے کہ اوپر والے نے چند نوالے کھلا دیے تھے۔‘‘ ’’وہ کون سی جگہ تھی کچھ یاد ہے؟‘‘ ’’پتا نہیں، پر سنا تھا کہ بس پاکستان ہی ہے۔ چاروں طرف کھیت تھے، پھر میں سو گئی تھی، جب اٹھی تو شاید وہ کوئی کیمپ تھا۔ بہت سارے اجنبی لوگ تھے، میں اپنی اماں اور باجی کی بیٹی۔ وہ بڑی روتی تھی، ابھی دو تین مہینے کی تو تھی، اماں بتاتی تھیں کہ ایک بار تو اس کے باپ یعنی میرے بہنوئی نے اس کا گلا گھوٹنا چاہا، کیونکہ اس کے رونے سے دشمنوں کو خبر ہو جاتی اور سارے مارے جاتے۔ پر میری باجی بہت روئی، منتیں ترلے کیے پھر جا کر اس نمانڑے کا دل پگھلا۔‘‘ ’’کوئی اپنی اولاد کا گلا کیسے گھونٹ سکتا ہے بھلا؟‘‘ خوف کی جھرجھری سی اٹھی۔ ’’تو کیا آج ایسا نہیں ہو رہا؟‘‘ وہ طنزیہ مسکرائی تھیں۔ ’’اس وقت تو بس ہم سب ایک تھے، سارے پاکستانی۔ جو اپنے بہن بھائیوں کی جان بچانے کے لیے اپنی اولاد کو بھی وار سکتے تھے۔ نہ ہم شیعہ تھے نہ سنی۔ نہ پنجابی نہ پٹھان۔ ہم تو بس پاکستانی تھے۔‘‘ ’’اب کیسا لگتا ہے آپ کو اپنے پاکستان کو اس حالت میں دیکھ کر؟‘‘ ’’نظر کھا رہی ہے اور کیا؟ میرا ملک تو ایسا نہ تھا، مجھے یاد ہے۔ ایک چھوٹی سی بچی ہمارے کیمپ کے باہر پتا نہیں کدھر سے آگئی تھی۔ بڑی پیاری تھی گوری چٹی۔ بھورے بال مٹی سے اٹے تھے رو رہی تھی، میں نے اماں سے کہا کہ اسے اپنے پاس رکھ لو۔ اماں نے کہا’’ نہیں پتری! یہ دلی والوں کی بچی ہے۔‘‘ اس کی ماں پریشان ہو رہی ہوگی۔ پھر اماں اسے لے کر گئی اور ڈھونڈ ڈھانڈ کر اس کی ماں کے ساتھ کیا۔ اس وقت نہ زبان تھی، نہ رنگ، نہ نسل۔ بس سب ایک دوسرے کے ساتھی تھے، سب پاکستانی، ایک ہی درد تھا اور خوشی تھی کہ ہم اپنے ملک میں ہیں۔‘‘ ’’کون ہمارے ملک کو نظر لگا رہا ہے، یہ تو بتائیے؟‘‘ تجسس ابھرا تھا۔ ’’وہ ہی جن کو ہماری ترقی بری لگتی ہے، جو پاکستان کو پسند نہیں کرتے۔‘‘ ’’آپ کی مراد کس سے ہے؟‘‘ ’’جو چاہتے ہیں کہ پاکستان تباہ ہو جائے۔‘‘ ’’پر پاکستان کا تو نام ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔‘‘ ’’بیٹا جی! یہ جو جھگڑے ہو رہے ہیں، یہ مذہب کے لیے نہیں، زمین کے لیے ہیں، فلسطین میں کیا ہوا؟ شام میں کیا ہوا؟‘‘ ’’آپ تو کہتی ہیں کہ آپ نے اسکول کی شکل نہیں دیکھی، پھر آپ کو یہ ساری باتیں کیسے پتا چلتی ہیں؟‘‘ ان کے تجزیے، تبصرے بڑھتے ہی جا رہے تھے۔ ’’عقل بھی کوئی چیز ہوتی ہے، رب نے ہر ایک کو عقل دی ہے، پر بہت سارے انھیں بیچ دیتے ہیں، کوئی تھوڑے پیسوں کے لیے تو کوئی اپنے مقصد کے لیے۔ کسی کو عہدہ چاہیے، تو کسی کو نام۔ سب کچھ بیچ دیتے ہیں اور بس لگ جاتے ہیں اور نظر ہمارے اتحاد، انصاف اور عقلوں کو کھا رہی ہے۔ حاسد لوگ ہمارے پیچھے لگے ہیں، سب جانتے ہیں کہ نظر بد اور حسد کیا ہے پر پھر بھی ہم لگے پڑے ہیں اپنے لیے گڑھے کھودنے پر۔‘‘ ’’اس کا علاج کیا ہونا چاہیے؟‘‘ بوڑھے چہرے پر شکنیں مزید گہری ہوئیں۔ انھوں نے اپنے کھردرے ہاتھوں کی جانب دیکھا جو لوگوں کے برتن مانجھ مانجھ کر روکھے ہو رہے تھے۔ ’’بیٹا! میں نے اپنے ابا کے چہرے پر اندھیرا دیکھا تھا، ایسا اندھیرا کہ نہ پوچھو۔ وہ ڈر، وہ خوف ساری زندگی اس نے ان غیر مسلموں کے لیے کام کیا تھا، پر اسے ڈر تھا کہ اب وہ سب کو مار ڈالیں گے۔ پاکستان کے نام سے اس کے اندھیرے سے چہرے پر چمک آجاتی تھی۔ وہ سچا تھا، پاکستان آ کر ہی مرا۔ ہمیں سچا ہونا پڑے گا۔ جھوٹ اور لالچ، ناانصافی سب کچھ تو ہو رہا ہے یہاں۔ اس پر ان ظالموں کی زہریلی شیطانی نظریں۔۔۔۔ یوں سمجھو ڈبل نقصان ہو رہا ہے۔ اندر سے دل سچا ہو ناں تو باہر سے کتنا ہی کیچڑ ڈالو، اندر سکون ہی رہتا ہے۔ ہمیں اندر سے سکون چاہیے پُتر۔‘‘ دلو مائی چلی گئی تھی۔ سادے لفظوں میں بڑی بات کہہ گئی تھی، ہمارے اندر سچ کہاں ہے، اسے سینچنا ہوگا کہ اس کی آبیاری سے ہی ہم بچ سکتے ہیں کہ اس کی شاخیں دور دور تک ٹھنڈی چھاؤں پھیلا دیتی ہیں۔ پھر کسی کی نظر بد اس پاک دھرتی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل