Monday, January 06, 2025
 

کیا واقعی ہم سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں؟

 



ایک بنیادی نوعیت کا سوال اکثر اہل دانش یا فکری مباحث میں موجود رہتا ہے کہ کیا واقعی قومی سطح پر جو بیانیہ سیاسی عدم استحکام کا ہے، اس میں کس حد تک حقیقت ہے یا یہ محض ایک مفروضہ یا حقایق سے دور کا نقطہ نظر ہے۔ لوگ پہلے ہی اپنی اپنی سوچ اور فکر پر تقسیم ہیں یا کسی نقطہ نظر کی کھل کر حمایت یا مخالفت کرتے ہیں ۔ بعض اوقات اس نقطہ نظر میں حقایق سے زیادہ جذباتیت کے عمل کو بھی غلبہ حاصل ہوتا ہے لیکن اس پہلو پر غوروفکر ہونا چاہیے کہ ہم کس حدتک سیاسی استحکام رکھتے ہیں ۔سیاسی استحکام سے مراد محض حکومت کا سیاسی ، انتظامی، قانونی اور معاشی ڈھانچہ کی موجودگی ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کی ساکھ سے جڑے بنیادی نوعیت کے سوالات اور ریاست یا حکومت کے نظام کا سیاسی تسلسل اور شفافیت پر مبنی نظام ہوتا ہے ۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب ریاست یا حکومت کا نظام کو ریاستی آئین، قوانین ، سیاسی اور جمہوری خطوط اور منصفانہ معاشی نظام پر چلایا جائے ۔ اس لیے جب اس سوال پر غور کیا جاتا ہے کہ ہم بطور ریاست سیاسی استحکام رکھتے ہیں تو اس کا جواب ہمیں لاتعداد سوالات اور تحفظا ت کے طور پر ملتا ہے کیونکہ ہم نے سیاست اور جمہوریت کے نظام کو کبھی اپنی سیاسی اور ریاستی ترجیحات کا حصہ نہیں بنایا۔ہم ایک ایسی ریاست کی حمایت کرتے ہیں جہا ں آئین وقانون کی حکمرانی یا اداروں کی بالادستی کے مقابلے میں افراد یا جماعتوں کی طاقت ہو ۔ اسی طرح جب ہم اپنے سیاسی مخالفین یا متبادل نقطہ نظر یا آوازوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو بھی معاشرے میں انتشار کی سیاست کا غلبہ ہوتا ہے ۔یہ عمل سیاسی استحکام سے ریاستی نظام کو دور کرتا ہے اور ہمیں ایک ایسی ریاست کے نظام کی طرف بڑھاتا ہے جہاں سیاست اور جمہوریت کی کمزوری کاپہلو نمایاں ہوتا ہے ۔آج پاکستان جہاں کھڑا ہے یا جو ہماری بطور ریاست کی عالمی درجہ بندی ہے، اس پر داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر سوالات موجود ہیں۔ حکومت کا بیانیہ سیاسی استحکام اور حزب اختلاف کا بیانیہ یقینی طور پر سیاسی عدم استحکام کی نشاندہی کرتا ہے ۔ لیکن حکومت اور حزب اختلاف کے بیانیہ سے ہٹ کر اہل دانش یا علمی یا فکری بنیادوں پر تجزیہ کیا جائے تو یقینی طور پر ہمارے بہت سے معاملات یا طرز عمل قومی سطح پر سیاسی عدم استحکام کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ ایک ایسی ریاست جو تیزی سے جمہوری اقدار سے دور ہورہی ہو جہاں سیاست وجمہوریت پر سوالات ہوں، وہاں سیاسی استحکا م کا بیانیہ کمزور نظر آتا ہے۔ سیاست اور جمہوریت کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتو ں کا غلبہ یا سیاسی جماعتوں کے اپنے داخلی محاذ پر غیر جمہوری طرز عمل یا مفادات کی بنیاد پر سیاسی نظام کو چلانے کی کوشش ظاہر کرتی ہے کہ ہم جمہوریت اور سیاسی استحکام میں کہاں کھڑے ہیں ۔ سیاسی استحکام کی بحث کو محض سیاست تک محدود کرکے اور سیاسی تنہائی میں دیکھنے کے بجائے اسے معیشت، سیکیورٹی ، گورننس اور آئین و قانون یا عوام کے مفادات کی بنیاد پر بھی پرکھنا چاہیے۔آج جو ہمارے ریاستی نظام میں سیاسی عدم استحکام کی جڑیں گہری ہیں یا جو بلوچستان سمیت خیبرپختونخواہ کے حالات ہیں وہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاست کی رٹ کا پہلو بہت سی جگہوں پر کمزور ہے۔ لوگ ریاست اور حکومت کے معاملات پر تنقید بھی کررہے ہیں اور ایک متبادل نظا م کی بات بھی کررہے ہیں اور ان سہولت کاروں کی نشاندہی بھی کررہے ہیں جو ملک میں گروہی اور انتشار کی سیاست کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں بلکہ ریاست کے نظام کو مزید کمزور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں مگر ہم ان متبادل آوازوں کو سننے کے لیے تیار نہیں۔ یوں خیبر پختونخوا کے انتشار زدہ ایریاز میں حکومت اور عوام کے درمیان مضبوط رشتہ کمزور اور بداعتمادی کا ماحول زیادہ غالب ہے۔ہمارے سیاسی عدم استحکام کی وجہ قانون شکنی گروہوں اور ان کے سہولت کاروں پر گرفت نہ کر پانا ہے۔  اسی وجہ سے عمومی طور پر ہمارا سیاسی نظام مختلف نوعیت کی سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز یا سیاسی نظام میں تعطل کو پیدا کرتا ہے۔ ہم جمہوریت کے مقابلے میں ایک کنٹرولڈ یا ہابئرڈ جمہوری نظام کے حامی ہیںجہاں عدم مرکزیت کے بجائے مرکزیت کا نظام یا مخصوص طبقات کا کنٹرول ہو ۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل