Loading
غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء دیکھنے کے لیے روزانہ ساڑھے آٹھ ہزار لوگ آتے ہیں‘ گورنمنٹ سیاحوں کو گروپوں میں تقسیم کر دیتی ہے‘ لوگ وقت پر آتے ہیں اور وقت پر لائنز کورٹ (الحمراء کا اصل پارٹ) سے نکل جاتے ہیں‘ ٹکٹ کے لیے مہینہ مہینہ ویٹنگ ٹائم ہوتا ہے۔ آپ اس سے غرناطہ کے سیاحتی پوٹینشل کا اندازہ کر لیجیے‘ الحمراء کے علاوہ بھی پورا شہر ’’اوپن میوزیم‘‘ ہے‘ ہر گلی اور ہر عمارت پر باقاعدہ کتابیں لکھی گئی ہیں‘ ہم سارا دن پرانی گلیوں کی پرانی عمارتیں دیکھتے رہتے تھے‘ غرناطہ سے آڈیو ڈیوائس ملتی ہے‘ آپ یہ ڈیوائس لیں اور گلیوں میں نکل جائیں‘ کسی بھی عمارت کے سامنے کھڑے ہوں‘ ڈیوائس میں عمارت کا نمبر لوڈ کریں اور اس عمارت کی پوری ہسٹری جان لیں۔ گلیوں میں چھوٹے چھوٹے پتھر جڑے ہیں اور یہ پہاڑی گزر گاہوں کی طرح اونچی نیچی ہیں‘ دیواریں موٹی اور چونے کی ہیں‘ پورے شہر کا رنگ سفید لیکن چھتیں سرخی مائل مٹیالی ہیں‘ شہر کے درمیان سے دریا گزرتا ہے‘ یہ کبھی بڑا اور شوریدہ ہوتا تھا لیکن اب یہ چھوٹی سی نہر بن کر رہ گیا ہے‘ دریا کی دائیں جانب پہاڑی پر الحمراء ہے اور بائیں جانب دریا کی دوسری طرف شہر آباد ہے۔ میں چھٹی مرتبہ الحمراء گیا‘ میں نے ہر بار یہاں رش دیکھا تھا‘ محل کے اندر بھی رش ہوتا تھا اور گلیوں میں بھی‘ ریستوران‘ بارز اور کافی شاپس بھی ہر وقت بھری رہتی تھیں لیکن24 دسمبر کی شام پورے شہر میں ہو کا عالم تھا‘ کوئی بندہ تھا اور نہ بندہ نواز‘ پٹرول پمپ تک بند تھے۔ سہیل بھائی نے بتایا غرناطہ کے تمام لوگ 24 دسمبر کی رات اپنے گھر میں ڈنر کرتے ہیں‘ کوئی شخص باہر نہیں نکلتا لہٰذا 24 دسمبر کی رات اور 25 دسمبر کے دن پورے شہر میں سناٹا ہوتا ہے‘ پولیس اسٹیشن تک بند ہوتے ہیں‘ ان کی بات درست نکلی‘ ہمیں 24 دسمبر کی رات اور 25 دسمبر کے دن غرناطہ میں مکمل ویرانی ملی‘ لوگ گھروں سے باہر نہیں آئے‘ ہم 25 دسمبر کی دوپہر الحمراء کی طرف نکل گئے۔ محل بند تھا لیکن کمپائونڈ کھلا تھا‘ پارکنگ بھی خالی پڑی تھی‘ ہم نے دیر تک اس ویرانی اور سناٹے کو انجوائے کیا‘ 26 دسمبر کی دوپہر ہم نے فلیمنکو ڈانس دیکھا‘ فلیمنکو خانہ بدوشوں کا رقص ہے‘ یہ لوگ سیکڑوں سال قبل ہندوستان سے نقل مکانی کر کے غرناطہ آئے تھے‘ ان کے خدوخال اور زبان بڑی حد تک ہندوستانی ہیں‘ چوری‘ لڑائی اور نشہ ان کی خاص نشانی ہے۔ یہ کھل کر چرس اور شراب پیتے ہیں اور شام کے وقت فلیمنکو ڈانس کرتے ہیں‘ یہ رقص لکڑی کے جوتے پہن کر کیا جاتا ہے‘ رقاص لکڑی کے فرش پر لکڑی کے جوتے کی ایڑی سے ایک خاص آہنگ پیدا کرتا ہے اور پھر گاگا کر اس آہنگ میں گیت بھرتا ہے‘ فلیمنکو اوپیرا کی طرح داستانی ہوتا ہے‘ غرناطہ کے خانہ بدوش ماضی میں غاروں میں رہتے تھے‘ یہ غار آج بھی ہیں لیکن انھوں نے ان کے سامنے دروازے لگا کر اور ان میں بارز بنا کر انھیں ماڈرن بنا لیا ہے‘ مجھے ماضی میںبھی یہ رقص دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا لیکن اس مرتبہ زیادہ مزا آیا شاید میں زیادہ میچور ہو گیا ہوں۔ رقص کے بعد رائل چیپل آف غرناطہ ہماری منزل تھا‘ چرچ واقعی خوب صورت ہے‘ ملکہ ازابیلا اور فرڈی نینڈ نے اس میں سونے کا دریا بہا دیا تھا‘ چھت بھی سونے کی ہے اور قربان گاہ پر بھی سونا ہی سونا ہے‘ میں تھوڑی دیر کے لیے ملکہ اور بادشاہ کی قبر کے ساتھ قربان گاہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا‘ قربان گاہ اونچی چوکی پر بنی ہوئی ہے‘ اس تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں۔ سامنے موزیکس‘ پینٹنگز اور حضرت عیسیٰ ؑاور حضرت مریمؑ کے چھت تک بلند مجسمے ہیں‘ قربان گاہ واقعی آرٹ پیس تھی‘ میں فاتح اور مفتوعہ دونوں بادشاہوں کی قبروں پر جا چکا ہوں‘ ابوعبداللہ محمد اس شہر کا اصل وارث تھا‘ وہ مردوں کی طرح غرناطہ کی حفاظت نہ کر سکا اور عورتوں کی طرح آنسو بہاتا ہوا مراکش کے شہر فیض میں پناہ گزین ہو گیا تھا۔ سقوط غرناطہ کے بعد مراکش‘ تیونس‘ الجزائز اور ترکی نے مسلمانوں اور یہودیوں کو پناہ دے دی تھی لہٰذا آج بھی طنجہ سے استنبول تک لاکھوں اندلسی خاندان موجود ہیں۔ ابوعبداللہ محمد کو فیض کے بادشاہ ابوالعباس نے پناہ دے دی‘ اسے شاہی سہولتیں حاصل تھیں لیکن جس نے الحمراء اور غرناطہ کھو دیا ہو اس کی ذہنی حالت کیا ہو گی لہٰذا وہ 1533 میں شدید ڈپریشن اور اینگزائٹی میں فوت ہو گیا اور اسے فیض شہر کے قدیم قبرستان میں دفن کر دیا گیا‘ اس کی قبر آج بھی بے چارگی کی عبرت ناک نشانی ہے‘ اس بے چارے کو کوئے یار میں چھ فٹ زمین نصیب نہیں ہوئی تھی اور دوسری طرف فاتح ملکہ اور فاتح بادشاہ بھی اپنے آبائی قبرستان میں دفن نہیں ہوپائے۔ ابوعبداللہ محمد فیض کی مٹی میں جذب ہو گیا جب کہ ازابیلا اور فرڈی نینڈ غرناطہ میں گویا ہارنے والے کو بھی کچھ نہ ملا اور جیتنے والا بھی خالی ہاتھ دنیا سے گیا‘ صرف اﷲ کا نام‘ الحمراء اور غرناطہ بچ گئے‘ آپ کو اگر کبھی الحمراء جانے کا اتفاق ہو تو آپ بھی اس کی ہر دیوار پر ولا غالب الاللہ دیکھیں گے‘ بنو نصر حیران کن حد تک عاجز اور ایمان سے لبریز لوگ تھے چناں چہ آج الحمراء کی صرف وہ دیواریں سلامت ہیں جہاں یہ آیت درج ہے باقی زمانہ برد ہو چکی ہیں یا پھر فاتحین اور مفتوحین کے ساتھ رخصت ہو گئی ہیں۔ غرناطہ چاروں طرف سے برف پوش پہاڑیوں میں گھرا ہوا ہے‘ یہ سرا نوادہ کہلاتی ہیں‘ یہ شہر کے لیے پانی کا بڑا سورس ہیں‘ عربوں نے سرانوادہ اور اس کے آبی جھرنوں کی وجہ سے غرناطہ کے لیے اس جگہ کا تعین کیا تھا‘ مسلم دور میں ان پہاڑوں پر البخارہ کے نام سے گائوں آباد تھا‘ ابوعبداللہ محمد نے شکست کے بعد اس گائوں میں سال بھر قیام کیا تھا۔ سرینڈر کے وقت عیسائیوں نے مسلمانوں سے سمجھوتہ کیا تھا مسلم آبادی کی عبادت گاہوں اور لائف اسٹائل کو ڈسٹرب نہیں کیا جائے گا لیکن یہ معاہدہ چند ہفتوں میں ٹوٹ گیا اور مسلمانوں کو ہجرت‘ مذہب کی تبدیلی یا پھر شہادت تین آپشن دے دیے گئے‘ ابوعبداللہ محمد کو بھی البخارہ کے قریب جاگیر دی گئی تھی لیکن پھر سال بھر میں اسے تنگ کرنا شروع کر دیا گیا یہاں تک کہ وہ ہجرت پر مجبور ہوگیا۔ آج کل ان پہاڑیوں پر سردیوں کی اسپورٹس ہوتی ہیں‘ پورے ملک سے لوگ آتے ہیں اور برف میں سیکئنگ کرتے ہیں‘ ہمیں بھی پہاڑ پر جانے اور سکیئنگ کرنے کا موقع ملا‘ مسافر نوادہ شہر تک اپنی گاڑی پر جاتے ہیںاور پھر چیئر لفٹ کے ذریعے انتہائی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں اور وہاں سکیئنگ کرتے ہیں‘ ہم وہاں پہنچے توسیکڑوں لوگ برف پر سلپ ہو رہے تھے۔ ہماری مری میں اس سے زیادہ برف پڑتی ہے لیکن ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے‘ کاش مریم نواز کی توجہ اس سائیڈ پر بھی ہو اور یہ مری اور گلیات میں ایسے سکیئنگ ریزارٹ بنا دیں‘ اس سے سرمایہ بھی حاصل ہو گا اور عوام کو تفریح بھی ملے گی‘ دوسرا سرا نوادہ کی پہاڑیوں پر پیرا گلائیڈنگ ہوتی ہے‘ غرناطہ کے مضافات میں پیرا گلائیڈنگ اسٹیشن ہیں‘ مختلف کمپنیوں نے لائسنس لے رکھے ہیں۔ یہ لوگ اسٹیشن سے اپنی گاڑی پر سیاحوں کو بٹھا کر پہاڑ پر لے جاتے ہیں اور پھر ان کو پیرا گلائیڈنگ کائیٹ میں بٹھا کر فضا کا چکر لگاتے ہیں‘ یہ گھنٹہ بھر کی کارروائی ہوتی ہے اور لائف ٹائم تجربہ ہوتا ہے تاہم ہوا میں سردی اور خوف دونوں ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں قے کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے‘ اسپین میں قرطبہ اور غرناطہ دو جگہوں پر پیرا گلائیڈنگ ہوتی ہے‘ یہ شاید اس زریاب قرطبی کے کنٹری بیوشن کا اعتراف ہے جس نے دنیا میں پیرا شوٹ کا تصور دیا تھا۔ مجھے اس بار غرناطہ کی گلیوں میں پھرنے کا زیادہ موقع ملا‘ غرناطہ کی گلیاں اونچی نیچی ہیں اور سیڑھیوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں‘ مکان باہر سے سادہ لیکن اندر سے انتہائی خوب صورت ہیں‘ ہر گھر میں انگور کی بیل اور مالٹے کے درخت ہیں اور اس کی زیادہ تر کھڑکیاں الحمراء کی طرف کھلتی ہیں‘ گھروں میں فوارے لازم تھے‘ یہ آج بھی بہہ رہے ہیں‘ مسلم دور میں ان گلیوں میں سرکاری تیل سے لیمپ جلائے جاتے تھے‘ ہر گلی کے سرے پر چوک تھا‘ لوگ رات کے وقت ان میں بیٹھ کر کہانیاں سناتے اور سنتے تھے جب کہ موسیقی اور رقص کا اہتمام بھی ہوتا تھا۔ شہر کے زیادہ تر چوک الحمراء کی کھڑکیوں اور برجیوں سے نظر آتے ہیں لہٰذا شاہی خاندان کے لوگ بھی دور سے اپنی عوام کی خوشیاں دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے‘ آبادی میں مدارس بھی تھے اور چائے خانے بھی‘ ان میں اس زمانے کے مشاہیر بیٹھتے اور پڑھاتے تھے‘ ان گلیوں نے یقینا کبھی ابن رشد‘ ابن عربی‘ ابن خلدون اور ابن بطوطہ کے قدموں کا ذائقہ چکھا ہو گا‘ مجھے فضا میں ماضی کے ان کرداروں کی خوشبو محسوس ہورہی تھی۔ 28 دسمبر کی شام میں آخری بار ان گلیوں میں گیا تو وہاں رونق تھی‘ غرناطہ کرسمس کے بعد دوبارہ آباد ہو چکا تھا اور گلیاں سیاحوں سے بھری تھیں‘ گائیڈ انھیں مختلف مکانوں اور حویلیوں کا ماضی سمجھا رہے تھے‘ ہرچرچ کے اندر سے مسجد نکل رہی تھی اور ہر عمارت کے اندر سے چھوٹا سا مدرسہ اور لائبریری‘ میں اور سہیل بھائی چلتے چلتے ایک چھوٹے سے مکان کے سامنے پہنچ گئے‘ اس کے سامنے لمبی لائین لگی تھی‘ میں نے لائین میں کھڑے دو لڑکوں سے لائین کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا یہ غرناطہ کا پرانا عربی کیفے ہے‘ ہم بھی لائین میں کھڑے ہو گئے‘ ہم جب اپنی باری پر اندر داخل ہوئے تو کیفے تہہ در تہہ تین منزلوں پر مشتمل نکلا۔ اس کے تمام ٹیرس الحمراء کی طرف کھلتے تھے‘ اندر انگور کی بیلوں کے نیچے میزیں لگی تھیں‘ ہم ایک میز پر بیٹھ گئے‘ ویٹر نے قہوے کی چینک سامنے رکھ دی‘ ہم نے عربی پیالوں میں قہوہ ڈالا اور ماضی میں چلے گئے‘ آج سے پانچ سو سال پہلے اس جگہ کون لوگ بیٹھتے تھے اور اس زمانے میں سامنے الحمراء کا کیا منظر ہوتا تھا۔ ہم نے کیفے کی طرف دیکھا اور پھر سامنے الحمراء کی طرف نظر دوڑائی‘ سورج محل کی برجیوں کے پیچھے چھپ رہا تھا‘ الحمراء کا رنگ مزید سرخ ہو گیا تھا اور سرخ رنگ چیخ کر کہہ رہا تھا جن ریاستوں کو ان کے والی بچا نہیں سکتے ان کی نسلوں کو ان سے ملاقات کے لیے اسی طرح ویزے لے کرآنا پڑتا ہے‘ انھیں دیکھنے کے لیے اسی طرح کیفے میں بیٹھنا پڑتا ہے۔ ٹھیک اس لمحے کلیساء کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں‘ ان گھنٹیوں سے پہلے یقینا یہاں مغرب کی اذان ہوتی تھی‘ وہ کہاں چلی گئی اور اس کی جگہ گھنٹیوں نے کیسے لے لی؟ ہمیں یہ راز جاننے کے لیے تاریخ کے کنوئیں میں چھلانگ لگانا ہوگی یا پھر اپنے مردہ ضمیر کے دروازے پر دستک دینا ہو گی‘ آہ غرناطہ۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل