Sunday, May 19, 2024

کتب بینی کی معدومیت

 



ہمارے معاشرے کی ایک شاندار مگر دم توڑتی روایات میں سے ایک ہے کتب بنی یا کتابوں کا مطالعہ۔ کتاب اور خصوصاً اچھی اور معیاری کتاب انسان اور انسانیت کی بہترین دوست ہوتی ہے۔

تاریخ عالم گواہ ہے کہ ماضی میں بھی عظیم ترین اقوام نے مطالعه، تحقیق اور جستجو کو اپنا شعار بنایا اور آج بھی تمام ترقی یافتہ اقوام مطالعہ اور کتب دوستی سے کام لے کر ترقی اور قیادت کی شاہراہ پر گامزن ہیں۔

اسکول، کالجز اور یونیورسٹی کی سطح پر طالب علم بسا اوقات تعلیمی نصاب کی کتب پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں اور پھر فرصت کے اوقات میں سیر و تفریح، سوشل میڈیا ان کو جکڑ لیتے ہیں۔ جس کی بنا پر لائبریریاں ویران ہورہی ہیں اور کتابیں خستہ حال ہورہی ہیں۔ ہم اپنے ادب، حکمت، شعور، آگہی، قرون اولیٰ اور قرون وسطیٰ کے کارناموں سے کبھی روشناس نہیں ہوسکتے جب تک ہم تاریخی اور نادر کتب کا مطالعہ نہیں کریں گے۔

کتب کا مطالعہ ایک مثبت عمل یا سرگرمی ہے۔ والدین، اساتذہ کرام اور علما، سماجی اور سیاسی رہنما نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ کتب کے مطالعے کا شوق پیدا کریں اور اپنے حکمت و علم اور شعور کے کینوس کو وسیع کریں۔ میرے ذاتی خیال میں ایک ہفتے میں کم از کم ایک کتاب کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے اور پھر اس کتاب کے مطالعے سے حاصل ہونے والے اسباق پر ساتھیوں سے سیر حاصل گفتگو میں تبادلہ خیال کیا جائے۔

الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، صحافی اور دانشور حضرات اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں اور نوجوان نسل اور فارغ حضرات کو کتب کے مطالعے کی طرف راغب کیا جائے۔

حضرت علی ہجویریؒ کی کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ تصوف اور حکمت کا خزینہ ہے۔ واصف علی واصف کی کتب خیر بانٹتی ہیں۔ ’’آداب زندگی‘‘ جیسی کتاب زندگی کے تمام مکارم اخلاق پر نگاہ ڈالتی ہے۔ آج پب جی جیسے گیمز کھیلنے کے بجائے حضرت مجدد الف ثانی کی کتاب احیاء علوم کا مطالعہ انقلاب برپا کرے گا۔ آج منفی سیاسی تبصروں کے بجائے طارق اسماعیل ساگر کی کتابوں کا مطالعہ عالمی منظرنامے کے بارے میں اور دشمن ممالک کی جاسوسانہ سرگرمیوں کے بارے میں آگاہی کے حصوں کا ذریعہ ہے۔

ہمارے معاشرے کو دشمن ممالک کی ایجنسیاں ٹارگٹ کر رہی ہیں اور منفی رجحانات، اختلافات، مذہبی اور سیاسی گروہ بندی اور پرتشدد رویوں کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ان رجحانات اور دشمن کے اس ایجنڈے کو تعمیری سرگرمیوں اور مثبت رجحانات سے ہی شکست دی جاسکتی ہے۔

یہاں واہ کینٹ کے ایک بڑے کتب خانہ کے مالک نے بتایا کہ واہ کینٹ میں چند ماہ پہلے میں سو روحانی ڈائجسٹ فروخت کرتا تھا، اب صرف ایک روحانی ڈائجسٹ فروخت کر رہا ہوں۔ یہی حال باقی کتب اور رسائل کا ہے۔ یہ ہمارے علمی زوال کی نشانی ہے۔ واہ کینٹ کی عظیم لائبریری دارالمطالعہ، جہاں لاکھوں نادر کتب کا ذخیرہ موجود ہے، وہاں قاری اور ممبر حضرات کا انتہائی فقدان ہے اور یہی حال تمام بڑے شہروں کی لائبریریوں کا ہے۔

کتاب دوست معاشرے کا احیا کریں۔ کتاب بینی کو فروغ دیں، معیاری اور عظیم کتب کو اپنے گھر میں جگہ دیں۔ موبائل کے غیر ضروری استعمال پر پابندی لگائیں اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں غیر نصابی معیاری کتب دیں۔ آپس میں کتب کے تحائف کا تبادلہ کریں۔ پوزیشن ہولڈر بچوں کو کتاب کا تحفہ ضرور دیں۔ کتاب بینی کے فوائد پر پروگرام نشر کیے جائیں اور فضول سیاسی بے مقصد تبصروں کے بجائے اعلیٰ اور معیاری کتابوں کے تعارفی پروگرام ٹیلی کاسٹ کیے جائیں۔ تمام اسکولوں کو پابند کیا جائے کہ وہ کم از کم 100 سے 200 کتب پر مبنی لائبریری قائم کریں۔ ادیب اور دانشور حضرات کی حوصلہ افزائی ریاستی سطح پر کی جائے کہ وہ آنے والی نسل کی اصلاح کےلیے لکھتے رہیں۔

مرکزی، صوبائی اور ضلعی سطح پر کتاب میلوں اور نمائشوں کا اہتمام کیا جائے اور کتب بینی کو فروغ دیا جائے۔ کتاب کے مطالعے کا رجحان ہزاروں منفی سرگرمیوں کے خاتمے کا سبب بنے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل