Sunday, March 30, 2025
 

"رمضان، کھوئی ہوئی برکت اور ہم"

 



یہ کوئی پرانی بات نہیں، بس چند دہائیاں پہلے کی بات ہے۔ رمضان آتا تو محلے کی مسجدوں میں اجتماعی افطاری کا خوبصورت منظر دیکھنے کو ملتا۔ ہر گھر سے کوئی نہ کوئی چیز افطار کے لیے آتی—کسی کے ہاں سے چھولے ،پکوڑے، کسی کے ہاں سے پھل، اور کسی کے ہاں سالن یا دال۔ جب سب کچھ ایک جگہ جمع ہوتا تو ایک سادہ مگر برکت بھرا دسترخوان سجتا، جہاں ہر  شخص  چاہے وہ مقامی ہو یا غیر مقامی ،اجنبی ہو یا مسافر پیٹ بھر کر کھاتے اور پھر بھی کھانے کی برکت باقی رہتی۔ یہ محض کھانے کا اجتماع نہیں تھا، بلکہ محبت، اخلاص اور بھائی چارے کا عملی مظاہرہ تھا۔ مغرب سے پہلے بچے شوق سے مسجد پہنچتے،افطار، کھانے کو ترتیب دیتے، اور پھر سب مل کر روزہ افطار کرتے۔ جو سالن مختلف گھروں سے آتا، وہ ایک تھال میں مل کر ایک منفرد اور لاجواب ذائقہ پیدا کرتا۔ اس وقت شاید کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہ چھوٹے چھوٹے اعمال دراصل زندگی میں کتنی بڑی خوشیوں اور برکتوں کا سبب تھے۔ پہلے غریب اور متوسط طبقہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ  کرتا تھا۔ کسی کے پاس پیسے کم بھی ہوتے، تب بھی وہ یہ نہیں سوچتے تھے کہ اگر ہم نے کسی کو کھلا دیا، یا کسی کی مدد کر دی تو ہمارے اپنے پیسے ختم ہو جائیں گے۔ وہ اس یقین کے ساتھ دوسروں کے لیے خرچ کرتے کہ اللہ برکت دے گا، اور واقعی ان کے گھروں میں برکت ہوتی تھی۔ محلے میں کوئی ضرورت مند ہوتا تو سب مل کر اس کا خیال رکھتے، رمضان میں افطاری بانٹی جاتی، اجتماعی سحری اور افطاری کا اہتمام ہوتا، اور لوگ حقیقی خوشی محسوس کرتے تھے۔ مگر اب حالات بدل گئے ہیں۔ مہنگائی نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب غریب اور متوسط طبقہ بھی پہلے کی طرح خرچ نہیں کر پاتا۔ ہر چیز اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ لوگ پہلے اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ پہلے جو تھوڑا بہت بھی بچتا تھا، وہ دوسروں کے لیے نکال دیتے تھے، مگر اب بچت کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ہر چیز کے دام آسمان کو چھو رہے ہیں، پہلے لوگ کماتے تو کم تھے، لیکن انہیں مستقبل کے بارے میں اتنی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ اب روزگار کا عدم تحفظ، بڑھتے ہوئے اخراجات، اور معاشی عدم استحکام نے لوگوں کو ہر وقت فکر مند کر دیا ہے۔ ہر شخص اپنی بقا کے چکر میں الجھ گیا ہے، اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سماجی تعلقات پسِ پشت چلے گئے۔آمدنی وہی پرانی ہے، اور ضروریات بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایسے میں پہلے جیسا کھلے دل سے خرچ کرنے کا جذبہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جو پیسے پہلے نیکی میں لگتے تھے، وہ اب بیماریوں، ذہنی دباؤ، اور غیر متوقع اخراجات میں نکل جاتے ہیں، اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ پہلے کم وسائل میں بھی ہر گھر میں سکون اور آسودگی تھی، اب زیادہ کمانے کے باوجود سکون ناپید ہو گیا ہے۔ پہلے خرچ کرتے تو اور آتا تھا، اب بچاتے ہیں تو بھی کم پڑ جاتا ہے۔ "وجہ یہی ہے کہ ہم نے نیکی کو انفرادی کر لیا، اجتماعی نہیں رکھا۔ ہم نے سوچ لیا کہ 'میرا رزق، میری کمائی، میری بچت'— اور یوں ہم نے نہ صرف اپنی زندگی سے برکت کا دروازہ خود بند کر لیا بلکہ سکون اور خوشی بھی کھو دی۔ ہم نے برکت کو ہمیشہ مال و دولت سے جوڑا، مگر کیا کبھی سوچا کہ برکت صرف پیسے کی ریل پیل کا نام نہیں، بلکہ وہ محبت، خلوص، اور اپنائیت بھی ہے جو ہمیں کسی کے ساتھ وقت گزارنے، کسی کا حال پوچھنے، یا کسی کے دکھ سننے سے ملتی تھی؟ ماضی میں محلے کے لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے تھے، بیمار کی تیمارداری کے لیے سب موجود ہوتے، خوشی میں شریک ہوتے، غم میں کندھا دینے کے لیے تیار ہوتے۔ یہ تعلقات دلوں میں حقیقی خوشی اور زندگی میں برکت لے کر آتے تھے۔ مگر آج، معاشی دباؤ اور ڈیجیٹل مصروفیت نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔ ہر شخص اپنی پریشانیوں میں اتنا گِھر چکا ہے کہ دوسروں کا حال پوچھنے کی بھی فرصت نہیں۔ پہلے دوستی صرف وقت گزارنے کا نام نہیں تھی، بلکہ ایک سہارے اور خلوص کا تعلق تھا۔ دوست ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے، مشکل وقت میں کندھا دیتے، اور بغیر کسی غرض کے ملتے جلتے تھے۔ رمضان ،عید جیسے تہواروں پر دوستوں کے گھروں پر جانا، گپ شپ لگانا، افطار پر دوستوں کو گھر بلانا، راتوں کو جاگنا ،محلے میں بیٹھکیں سجانا عام بات تھی۔ یہ تعلقات ہمارے دلوں میں حقیقی خوشی اور زندگی میں برکت لے کر آتے تھے۔ اب دوستی محض موبائل اسکرین تک محدود ہو گئی ہے۔ نہ وہ محفلیں رہیں، نہ بے تکلف ملاقاتیں، اور نہ ہی وہ گرمجوشی جو ایک دوسرے کا حال دل سننے سنانے کا ذریعہ بنتی تھی۔ عید پر بھی بس ایک میسج یا اسٹیٹس لگا کر رسم پوری کر دی جاتی ہے۔ مہنگائی، مصروفیت اور ڈیجیٹل دنیا نے نہ صرف ہمیں جسمانی طور پر بلکہ دلی طور بھی ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے، اور ہم سب تنہائی کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔ کیا ہمیں واقعی اتنا مصروف ہو جانا چاہیے کہ دوستوں کے لیے وقت ہی نہ بچے؟ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے خول سے باہر نکلیں، دوستوں سے حقیقی طور پر ملیں، اور وہی محبت و خلوص واپس لے کر آئیں جو کبھی ہماری زندگی کو برکت اور خوشی دیتا تھا۔ یہی وہ قربتیں ہیں جو ہمیں پھر سے جوڑ سکتی ہیں"اور ہمیں وہ حقیقی اطمینان دے سکتی ہیں جو آج ہماری زندگی سے غائب ہو چکا ہے۔ یہی کمی ہمارے معاشرتی رویوں میں بھی نظر آتی ہے۔ محلے کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں، خلوص کی جگہ مصلحت نے لے لی ہے، اور دینے والے ہاتھ کم ہوتے جا رہے ہیں۔ پہلے ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے کا جذبہ تھا، مگر اب اپنی ضروریات پوری کرنا ہی سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔" رمضان، جو کبھی محبت، خلوص اور بانٹنے کا مہینہ تھا، اب ایک رسمی تہوار بنتا جا رہا ہے۔ امیر لوگ یا فلاحی تنظیمیں اپنی طرف سے سحری و افطاری کا اہتمام کر لیتی ہیں، مگر وہ اجتماعی روح، وہ محلے کی سطح پر بچھنے والے دسترخوان، وہ مشترکہ دعائیں اور وہ مل بیٹھنے کا مزہ اب ناپید ہو چکا ہے۔ مہنگائی اور بدلتی ترجیحات نے ہمیں ایک دوسرے سے مزید دور کر دیا ہے۔ اصل خوشی اور برکت صرف دولت میں نہیں، بلکہ محبت اور تعلقات میں بھی ہے۔ ہمیں اپنے خول سے باہر نکلنا ہوگا، ایک دوسرے کی خبرگیری کرنی ہوگی، اور پھر سے ایک زندہ دل معاشرہ بننے کی کوشش کرنی ہوگی۔ کیونکہ جو کچھ ہم بانٹیں گے—چاہے وہ آسانی ہو، محبت ہو یا وقت—وہی ہمیں لوٹ کر ملے گا۔ اور جب ہم دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے، تبھی ہماری زندگی میں حقیقی خوشی، سکون اور برکت واپس آئے گی۔" تحریر عبد الباسط خان  صاحب تحریر کراچی کے رہائشی ہیں۔ پڑھنا، لکھنا اور سیاحت کا شوق رکھتے ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے بارے میں ان کی ایک کتاب ’’چاند ہتھیلی پر‘‘ شائع ہوچکی ہے۔ موسیقی، فلموں اور شاعری کا  شوق رکھتے ہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل