Loading
رمضان المبارک کی الوداعی گھڑیوں میں سرزمین حرمین شریفین کا ذکر کرنا ہے لیکن اس سے پہلے ڈسکلیمرپرانے وقتوں میں اخبار میں ایک جملہ شائع ہوا کرتا تھا: ' ایڈیٹر کا مراسلہ نگار سے متفق ہونا ضروری نہیں۔' انگریزی کا چلن بڑھ جانے سے یہ طویل جملہ اب ایک لفظ ڈس کلیمر میں سمٹ گیا ہے۔ مجھے یہی ڈس کلیمر دینا ہے۔ بات یہ ہے کہ بھائی ابوبکر قدوسی سے میری جان پہچان ہرگز نہ تھی۔ فیس بک پر انھوں نے شاید دم درود اور تعویذ وغیرہ کے بارے میں اظہار کیا تو حیرت ہوئی کہ ایک اہل حدیث کیسی باتیں کر رہا ہے۔ بس، یہی بہانہ کسی طرح ان سے رابطے کا ذریعہ بن گیا۔ میرے سوال کے جواب میں جو کچھ انھوں نے کہا ہو گا، اس کی سمجھ تو نہیں آئی لیکن ایک مستقل نوعیت کا مخلصانہ تعلق ضرور بن گیا۔ میرے اور ان کے درمیان قدر مشترک تو شاید کوئی نہیں سوائے کسی قدر جذباتی کیفیت کے۔ میں نے ناظرہ قرآن کی تعلیم گھر میں حاصل کی اور کسی قدر محلے کی مسجد میں۔ جب ختم قرآن ہو گیا تو ابا جی نے فیصلہ کیا کہ اب ترجمے کے ساتھ قرآن پڑھنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ان کی نظر میں مولانا عبد المجید صاحب سے بہتر کوئی نہ تھا۔ مولانا عبد المجید جامع مسجد محمدی اہل حدیث کے خطیب تھے۔ اس عمر میں قرآن حکیم کا ترجمہ پڑھنا میرے لیے بڑی بات تھی۔ یہ پیش رفت میری نظر میں عامیوں سے بلند ہو کر طبقہ شرفا میں داخل ہونے جیسی تھی۔ استاد محترم مولانا عبد المجید کی شاگردی میری زندگی میں کئی درجے اہمیت رکھتی ہے۔ پہلی بات تو یہی ہے کہ وہ مجھے زمین پر لے آئے۔ انھوں نے میری ناظرہ اہلیت کا امتحان باتوں ہی باتوں میں لے لیا اور کچھ کہے بغیر حتی کہ شرمندہ بھی کیے بغیر بغیر انھوں نے مجھے زمین پر لا پٹخا۔ معلوم ہوا کہ ترجمے کی منزل ابھی دور ہے، پہلے ناظرہ دہرانا ہو گا۔ یوں انھوں نے کچھ اس حکمت سے قرآن حکیم پڑھایا کہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی عادت ہو گئی۔ اس طرح غلطیوں کا امکان محدود تر ہو گیا۔ یہ انکشاف تو بعد میں ہوا کہ وہ حافظ بھی تھے۔ آئندہ رمضان المبارک میں جب تراویح کا مرحلہ آیا تو قرعہ فال ان ہی کے نام کا نکلا۔ وہ آٹھ رکعت پڑھاتے تھے لیکن یہ چند رکعتیں بھی ہم پر بھاری پڑتیں۔ سخت گرمی کے موسم میں وہ بھی ہر دو رکعت کے بعد رک پر پانی کے دو گھونٹ بھرتے پھر نماز شروع ہوتی۔ قرآن کی تلاوت وہ یوں ٹھہر ٹھہر کر فرماتے کہ ان کا پڑھایا ہوا ترجمہ تازہ ہو جاتا۔ قدوسی صاحب میرے ہم سبق تو بالکل نہیں ہیں۔ ویسے بھی وہ عمر مجھ سے کم ازکم دس برس تو ضرور چھوٹے ہوں گے۔ ان کے ساتھ دل بستگی کا سبب یہ تھا کہ وہ اہل حدیث ہیں۔ حالاں کہ میں نہ اہل حدیث ہوں اور نہ آج تک اس قسم کی مذہبی تقسیم کو قبول کر پایا ہوں۔ ان کی اضافی خوبی لٹریچر اور غور و فکر کی باتوں سے دل چسپی ہے۔ وہ کوئی نہ کوئی اہم بحث چھیڑ دیتے ہیں جس پر مباحثہ گرم ہو جاتا ہے۔ ان کی فالوئنگ بہت زیادہ ہے لہٰذا انھیں خوب لائیک بھی ملتے ہیں۔ اتنی بہت ساری تعریف کے درمیان میں نالائق کبھی کبھی ان پر تنقید کر دیتا تو وہ اس کا خیر مقدم خندہ پیشانی سے کرتے لیکن ان کی فالوئنگ اتنی زیادہ ہے کہ میری تنقید یا نقطہ نظر اس میں کبھی کبھی دب بھی جاتا ہے یوں اس پر بات نہیں ہو پاتی۔ وہ کثیر التصانیف ہیں اور زود نویس بھی۔ بات کو پھیلانا اور بڑھانا انھیں خوب آتا ہے۔ ان کی ایک اور خوبی کسی بات یا واقعے کو فوری طور پر احاطہ تحریر میں لے آنا بھی ہے۔ یہ بات میں ایک مثال سے واضح کروں گا۔ گزشتہ برس اگست میں اپنی اہلیہ کے ساتھ میرا عمرے کے لیے جانا ہوا۔ پہلا عمرہ میں نے نوجوانی کے زمانے میں کیا تھا۔ اس عمرے اور حالیہ عمرے میں ایک فرق ہے۔ اس وقت مقام مقدسہ کی زیارت کا وفور تھا جب کہ اس بار ٹھہرا ؤکی کیفیت تھی۔ مشاہدہ ماضی کی نسبت مختلف ہے اور زیادہ دل چسپ ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لکھنے کے لیے بہت کچھ ہے لیکن اس کے باوجود میں ابھی تک اس موضوع پر کچھ لکھ نہیں پایا سوائے ایک آدھ تحریر کے۔ اس کے مقابلے میں قدوسی صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ ادھر وہ سفر مقدس سے لوٹے اور ادھر انھوں نے لکھنا شروع کر دیا۔ چند ہفتوں میں کتاب تیار تھی جو ' اور میں نم نیدہ نم نیدہ' کے عنوان سے شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکی ہے اور شاید اس کے دوسرے ایڈیشن کی تیاری بھی جاری ہے۔ قدوسی صاحب خود ناشر ہیں۔ ان کے والد گرامی بھی ناشر تھے لہٰذا خوب صورت کتاب شائع کرنے کا ہنر ( اصل میں؛ میں آرٹ کہنا چاہتا ہوں)وہ خوب جانتے ہیں اور یہ کتاب تو چوں کہ انھوں نے نہایت پیار اور خصوصی اہتمام کے ساتھ شائع کی ہے، اس لیے زیادہ خوب صورت اور دیدہ زیب ہے۔ کتاب کی ایک خوب صورتی تو جیسا عرض کیا ہے کہ ظاہری ہے۔ دوسری خوب صورتی کا تعلق اس کے متن سے ہے۔ حرمین شریفین کے ایک عام زائر اور ابوبکر قدوسی جیسے زائر میں ایک فرق ہے۔ عام زائر عبادت اور زیارت کے بے پناہ جذبے سے وہاں جاتا ہے جب کہ قدوسی صاحب جیسے لوگوں کے ساتھ ایسے جذبات کے علاوہ علم اور تاریخی پس منظر بھی ہوتا ہے لہٰذا وہ جب کسی خاص مقام کی زیارت کرتے ہیں تو اس موقع پر دین اور تاریخ کا علم ان کے مشاہدے میں گہرائی اور معنویت پیدا کر دیتا ہے جیسے مدینہ شریف میں کعب بن اشرف کے آثار کو دیکھتے ہوئے وہ صرف اس شخص کی کہانی ہی بیان نہیں کرتے بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کے یہودیوں کی مخاصمت کی وجوہات بھی کچھ ایسے ہنر کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کے بارے میں صہیونی تحریک کا نہ صرف یہ کہ پورا انداز فکر واضح ہو جاتا ہے بلکہ اسرائیل کے قیام کے بعد فلسطین کے ساتھ اختیار کیے گئے رویوں کی وجوہات بھی سامنے آ جاتی ہیں۔ ایسی خوبی کم مصنفین کے ہاں پائی جاتی ہے۔ اس سفر نامے کی یہ خوبی قاری کو شروع سے آخر تک متاثر کرتی ہے۔ اسی لیے جی چاہتا ہے آئندہ اگر میرے پاس وسائل ہوئے تو میں ان کے ساتھ حرمین شریفین کا سفر پسند کروں گا۔ میرے اس احساس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ حج و عمرہ کے سفر کا ارادہ کریں، اس کتاب کا مطالعہ کر کے جائیں اور ہو سکے تو ساتھ رکھیں۔ یہ صرف کتاب ایک سفر نامہ ہی نہیں بلکہ ایک گائیڈ بک بھی ہے۔ اقبال نے شکوہ لکھا تو بڑے لاڈ کے ساتھ اپنے مخاطب یعنی ذات باری تعالی سے ایک بات کہی ع خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے مجھے برادرم ابوبکر قدوسی سے کوئی گلہ تو نہیں کرنا البتہ ایک مشورہ دینا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس مشورے کو بھی اسی جذبے کے ساتھ لیں گے جس جذبے کے ساتھ وہ میری دیگر باتیں سنتے ہیں۔ میں نے ذکر کیا ہے کہ قدوسی صاحب زود نویس ہیں اور اپنے مشاہدے کو بہت جلد تحریری شکل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بہت بڑی خوبی ہے لیکن تیزی کے ساتھ کچھ مسائل بھی ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ تکرار کا ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ اس تحریر میں کسی قدر تکرار آ گئی ہے۔ ممکن ہے کہ روا روی میں پڑھنے والے قاری کو اس سے پریشانی نہ ہو لیکن مجھے اس کا احساس ہوا۔ ایک اور چیز جو مجھے محسوس ہوئی، یہ ہے کہ کہیں کہیں اس سفر نامے پر ڈائری نویسی کا احساس ہوتا ہے ۔ ڈائری نویسی اب اگرچہ متروک ہے لیکن یہ ہمارے ادب کا ایک قابل قدر اثاثہ ہے لیکن اس سفر نامے میں یہ کیفیت نہ ہوتی تو میرے خیال میں بہتر ہوتا یوں تحریر کی دل چسپی اور خوب صورتی میں مزید اضافہ ہو جاتا۔ میرے اس احساس کو جملہ معترضہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک شان دار سفر نامہ ہے جسے تادیر یاد رکھا جائے گا اور قارئین اس سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل