Saturday, September 07, 2024
 

اساتذہ سے ناانصافی، آخر کب تک

 



آج میں پاکستان کے اس طبقے کی بات کرنا چاہوں گی جسے پوری دنیا میں عزت حاصل ہے لیکن پاکستان میں انہیں لاتعداد مسائل میں جکڑ دیا گیا ہے۔ اس ناانصافی کو بلاشبہ ظلم ہی کہا جاسکتا ہے۔

اساتذہ برسہابرس سے مستقبل کے معماروں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتے آئے ہیں، لیکن انہیں نہ کوئی ریلیف دیا جاتا ہے اور نہ ان کے مسائل کا کسی کو ادراک ہے۔ بالخصوص کالج پرنسپل کو جو جون جولائی کی چھٹیوں میں معمول سے زیادہ کام اور ذمے داریوں میں مصروف ہوتا ہے اور چھٹیوں میں بھی سالانہ امتحانات لینے کا پابند ہوتا ہے۔

پرنسپل کی کوشش ہوتی ہے کہ کالج امتحانات اور سینٹرز میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ پھر انویجیلیٹرز کو تحفظ فراہم کرنا، طلبا تنظیموں کی غنڈہ گردی اور پولیس کی عدم دستیابی کے باوجود اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر امتحانات کو پر سکون طریقے سے چلانا ایک پرنسپل کی ذمے داری ہوتی ہے۔ لیکن اس پرنسپل سے پوچھیں کہ وہ ان مسائل سے کس طرح نبردآزما ہوتا ہے۔

اسے یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر بورڈ کے نمائندگان نے چھاپہ مارا تو سینٹر میں کوئی تماشا نہ ہو، خاص کر بوائز کالج ایسے وقت میں شدید تناؤ کا گڑھ ہوتے ہیں۔ پہلا چیلنج تو یہ کہ پرچہ وقت پر شروع ہوجائے، سب کو نظم و ضبط کے ساتھ کلاسز میں بٹھایا جائے، نقل نہ ہو کیوں کہ پرنسپل اور کالج کی ساکھ داؤ پر لگی ہوتی ہے۔

معمولی اونچ نیچ اور بدنظمی سے اساتذہ کی برسوں سے کمائی گئی عزت خاک میں مل سکتی ہے۔ دوسری جانب عملہ کم ہوتا ہے تو پرنسپل کو اپنی صوابدید پر باہر سے انویجیلیٹرز بھی بلانے پڑتے ہیں یا پھر خود میدان میں آکر پورا سینٹر دیکھنا پڑتا ہے۔ یوں اسے وسائل کی کمی کی باعث لاتعداد مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

پیپر ختم ہونے کے بعد پرنسپل کا دوسرا امتحان شروع ہوتا ہے، جس میں کاپیوں کا حصول، ان کا شمار، بروقت پیکنگ اور بورڈ تک روانگی شامل ہے۔ اس پورے مرحلے میں کئی گھنٹے صرف ہوجاتے ہیں۔ ان دنوں میں اساتذہ دیر سے گھر جاتے ہیں اور ہمہ وقت دباؤ میں رہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس تمام بھاگ دوڑ کے باوجود اساتذہ کو ملتا کیا ہے؟

حکومت نے اس اہم ترین طبقے کو یکسر نظر انداز کیا ہوا ہے۔ اس تمام بھاگ دوڑ کا انہیں کوئی اضافی الاؤنس نہیں ملتا۔ ایک جانب تو انہیں بہتر طبی سہولیات نہیں ملتیں تو دوسری طرف اچھے اور معیاری اسپتال میں علاج معالجہ محض خواب ہی رہتا ہے۔ روز کے مقابلے میں امتحانات کے دنوں میں دیر سے گھر جانا معمول بن جاتا ہے۔ برسوں کی محنت اور تدریس کے بعد ریٹائرمنٹ پر بھی کچھ نہیں ملتا۔ کوئی پلاٹ تو کجا دورانِ سروس بھی کوئی خاص سہولت نہیں ملتی جبکہ جامعات کے اساتذہ اسٹاف ٹاؤن میں رہتے ہیں اور کالج اساتذہ کےلیے ایسی کوئی اسکیم موجود ہی نہیں۔

ماہ گرما کی چھٹیوں کے دو ماہ میں کالج اساتذہ معمول سے زیادہ مصروف ہوتے ہیں۔ نہ وہ جون جولائی میں اپنے بچوں کو کہیں سیروتفریح پر لے جاسکتے ہیں اور نہ ہی اس نہ ختم ہونے والے ٹینشن سے باہر نکل پاتے ہیں۔ یوں فیملی کے ساتھ گزارے جانے والے لمحات کے ممکنہ مواقع بھی ان سے چھین لیے جاتے ہیں۔

اس کے بعد فوراً ہی کالج میں داخلوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جس میں پھر وہی بھاگ دوڑ اور دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ اس طرح کالج کے اساتذہ کافی عرصے تک ایڈمیشن کے مختلف مراحل میں الجھے رہتے ہیں۔ یہاں ایک سوال ہے کہ کیا یہ معزز اساتذہ کےلیے ناانصافی نہیں؟ آخر اس کا انجام کرپشن کی صورت میں بھی برامد ہوسکتا ہے۔ کیونکہ جہاں انصاف نہیں ہوتا وہاں دھاندلیاں اور کرپشن اپنے جالے بنتی ہے۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ کالجز بھی دیگر سرکاری اداروں کی طرح کرپشن کے گڑھ بن جائیں۔

یہی وجہ ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کی طرح کالج اساتذہ بہتر سہولیات کا تقاضا کرتے ہیں، وہ بہتر طبی سہولیات اور سخت محنت کا صلہ مانگ رہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل