Loading
پاکستان میں عدالتی نظام میں موجود پیچیدگیوں سے سب آگاہ ہیں، قوانین میں بھی ایسے ابہام ، ذومعنیت اور کمیاں موجود ہیں جن کا فائدہ اٹھا کر مقدمات کو برسوں تک لٹکایا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کو سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے خاصی کوششیں کررہی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے جمعہ کو عدالتی نظام میں کیس اسائنمنٹ اینڈ مینجمنٹ سسٹم کا افتتاح کر دیا ہے ۔اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ نیا نظام شفافیت، بروقت اور فوری انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ حکومت نے ایسا نظام متعارف کرایا ہے جس سے بدعنوانی کی نذر ہونے والا پیسہ دوبارہ قومی خزانے میں آئے گا۔ انھوں نے وضاحت کی کہ کھربوں روپے کے مقدمات ٹریبونلز، ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ وزیراعظم کی یہ بات بالکل درست ہے، پاکستان میں لین دین ، کاروبار اور قرضوں کے حوالے سے مقدمات بھی اتنے زیادہ ہیں جس کی وجہ سے نظام پر بوجھ حد تک بڑھ کیا ہے۔ فنانشل مقدمات کے فیصلے بھی برسوں نہیں ہوپاتے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ ہمیں قرضے لینا پڑتے ہیں، بدعنوان عناصر سے ایک ایک پائی وصول کرکے عوامی فلاح پر خرچ کریں گے۔ حکومت نے جو نیا نظام متعارف کرایا ہے کہ اس نظام کے اجرا کے لیے کینیڈا اور یو این او ڈی سی کی معاونت و مشاورت شامل ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ نیا نظام جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگا۔ پاکستان میں فوری اور تیزی سے انصاف کی فراہمی کے لیے یہ جدید نظام ضروری اور وقت کا تقاضا تھا،اس سے مقدمات نمٹانے میں تیزی آئے گی۔ خبر کے مطابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا کہ چند برس پہلے ایف بی آر میں بھی ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد مختلف صنعتوں سے واجب الادا ٹیکس جمع کرنا تھا، بدقسمتی سے ماضی میں اس سسٹم کا استعمال درست انداز میں نہیں کیا گیا، ہم نے اس سسٹم کو ازسرنو شروع کیا ہے،یہ نظام تمام بندرگاہوں، ایئرپورٹس اور ڈرائی پورٹس پر مؤثرانداز میں کام کر رہا ہے اور اس کے مثبت نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے اور بدعنوانی کی وجہ سے کھربوں روپے خزانے میں جمع ہونے کے بجائے عشروں سے تاخیر کا شکار تھے،میں اس معاملہ کی خود نگرانی کر رہا ہوں، گزشتہ 11ماہ میں خامیوں کو دور کرنے پر پوری توجہ دی ہے اور اس حوالے سے باقاعدگی سے جائزہ اجلاس ہوتے ہیں۔ وزیراعظم نے مزید کہا پاکستان کو ہر قسم کے وسائل سے مالامال ہے، ہر شعبہ میں بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد موجود ہیں، کئی دہائیوں سے ہمارا نظام انحطاط کا شکار رہا، ہمیں محنت اور تندہی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، گزرے وقت پر افسوس کرنے کے بجائے اس سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔ گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ نے ایک دن میں 24ارب روپے کے کیس کا میرٹ پر فیصلہ کیا ہے اور یہ رقم اب قومی خزانہ میں جمع ہو گی۔ پاکستان میں ای گورننس کے فروغ کے لیے اقدامات جلد عملی شکل اختیار کرنے چاہئیں ، وفاقی وزیر قانون نے بھی کہا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کرا کر98فیصد حکومتی اقدامات کو ای پورٹل پر منتقل کیا گیا ہے، تمام وفاقی قوانین کے لیے ایپ متعارف کرا دی گئی ہے، اب قانون کی منظوری ہوتے ہی فوری طور پر ایپ پر اس کی تفصیلات آ جاتی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جمعہ کو ہی نوجوان افرادی قوت کی پیشہ وارانہ تربیت کے حوالے سے بین الوزارتی جائزہ اجلاس کی صدارت بھی کی ہے ۔ اس اجلاس میں نیوٹیک ، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، وزارت سمندر پار پاکستانی اور وزارت صحت کی جانب سے نوجوانوں کی پیشہ وارانہ تربیت کے حوالے سے آیندہ تین سال کا لائحہ عمل پیش کیا گیا۔ نوجوانوں کو بین الاقوامی سطح پر مطلوبہ پیشہ وارانہ ہنر سے لیس کرنا حکومت کی اوّلین ترجیحات میں شامل ہے کیونکہ نوجوان ہی ملک کی ترقی کا ہراول دستہ ہیں۔ نوجوانوں کی مختلف شعبوں میں پیشہ وارانہ تربیت ملکی اور بین الاقوامی صنعتی مارکیٹ کو مدنظر رکھ کرکی جائے۔ حکومت نیوٹیک کو ہر قسم کی فنڈنگ فراہم کرے گی۔اجلاس کو بتایا گیا کہ نیوٹیک رواں برس اب تک 60 ہزار اور جون 2025تک ایک لاکھ41ہزار نوجوانوں کو آئی ٹی سمیت مختلف شعبوں میں پیشہ وارانہ تربیت فراہم کرے گا۔ 2026میں 2لاکھ 50ہزار جب کہ 2027میں 3لاکھ 37ہزار نوجوانوں کو تربیت دے گا۔نیوٹیک کے تحت 29ہزار سے زائد افراد تربیت حاصل کرکے سعودی عرب میں روزگار حاصل کر چکے ہیں۔ جب کہ دسمبر 2025تک 40ہزار، 2026میں ایک لاکھ جب کہ 2027میں ایک لاکھ 50ہزار افراد کو پیشہ وارانہ تربیت فراہم کرکے سعودی عرب میں روزگار کا ہدف رکھا گیا ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ ان تربیتی پروگرامز میں مدرسہ جات کے 2500سے زائد طلبہ کو تربیت دی جا چکی ہے۔وزارت آئی ٹی کی جانب سے بتایا گیا کہ آیندہ تین برس میں وزارت ملک بھر میں 92ہزار سے زائد نوجوانوں کو جدید آئی ٹی کورسز میں تربیت اور21لاکھ فری لانسرز تیار کرنے کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ ملک میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کی ضرورت سے انکار نہیں ہے۔وزیراعظم نے کہا ہے کہ ریٹیلرز پرمزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا،ایسے تمام ریٹیلرز جو ٹیکس نہیں دیتے ان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے ریٹیلرز کے مسائل کے حل کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کی بھی ہدایت کی۔وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ استعمال شدہ اشیا کی آڑ میں ہونے والی اسمگلنگ کے سد باب کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔مقامی صنعت کو جدت کو اپناتے ہوئے اپنی اشیا کی برآمدات کے لیے جدید ٹیکنالوجی اپنانی چاہیے تاکہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ کا مقابلہ کر سکیں۔ پاکستان میں ٹیکس نافذ کرنے اور ٹیکس اکٹھا کرنے کا سسٹم بھی خاصا پیچیدہ ہے۔ ان ڈائریکٹ ٹیکسز کے سٹسم پر غور کیا جائے تو اس کا سارا بوجھ آخری صارف پر ڈالا جاتا ہے۔ مینوفیکچرز، اسٹاکسٹس اور ریٹیلرز ٹیکس سے بچ جاتے ہیں اور ٹیکس کا بوجھ کنزیومر پر ڈالا جاتا ہے۔ جی ایس ٹی کو دیکھ لیا جائے، ریٹیلرز یہ ٹیکس صارف پر ڈالتے ہیں حالانکہ وہ سیلر کی بکری پر ٹیکس ہے، وہ پرچیزر کی خریداری پر ٹیکس نہیں ہے۔ ادھر ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے نمایندے نے سات ارب ڈالر قرضے کی اگلی قسط اور کلائمٹ فنانسنگ کے حوالے سے مذاکرات کے لیے آئی ایم ایف جائزہ مشن اور تکنیکی ٹیم کے پاکستان کے دورے کا شیڈول جاری کردیا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق آئی ایم ایف کا وفد مارچ کے اوائل سے پاکستان کا دورہ کرے گا اور قرض پروگرام کا پہلا جائزہ لے گا۔ آئی ایم ایف کا ایک اور وفد کلائمٹ فناننسنگ کی پاکستانی درخواست پر بات چیت کے لیے فروری کی آخر میں پاکستان کا دورہ کرے گا۔ تکنیکی ٹیم کلائمٹ فناننسنگ سے متعلق تکنیکی معاملات پربات چیت کرے گی۔ ادھر آئی ایم ایف نے اپنے مشن کے 6 تا 14فروری کے دورہ پاکستان پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ مشن کا مقصد 6 بنیادی ریاستی امورگورننس، بدعنوانی کے خطرات کا ابتدائی جائزہ لینا تھا۔ بیان میں کہا گیا آئی ایم ایف حکومت پاکستان کی سنجیدگی اور عزم کو سراہتا ہے۔ آئی ایم ایف ٹیم رواں سال کے آخر میں مزید معلومات اکٹھی کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کرے گی۔ یہ ٹیم گورننس، شفافیت، اقتصادی نتائج بہتر بنانے کے مواقع تلاش کرنے کے لیے اور حتمی جائزے کی تیاری میں مدد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کرے گی۔ مالیاتی شعبے کی نگرانی، مارکیٹ کے ضوابط، قانون کی حکمرانی سے متعلق امور شامل ہیں ۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے انسداد سے متعلق امور بھی شامل تھے۔ پاکستان کی معیشت کے حوالے سے اچھی خبریں مل رہی ہیں۔ معاشی ٹیم کی کارکردگی بھی اچھی جارہی ہے۔ حکومت کو اپنے قوانین میں مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے، معیشت کے وہ سیکٹرز جو سست رفتار ہیں، ان کے بارے میں عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ معیشت کے کئی سیکٹرز ایسے ہیں جو پوری طرح متحرک نہیں ہیں، انھیں متحرک کرنے کے لیے اقدامات انتہائی ضروری ہیں تاکہ ملک میں کاروباری تیزی آئے اور روزگار میں اضافہ ہو۔ملک میں کاروباری تیزی سے ہی مہنگائی کی شدت کا مقابلہ کیا جاسکتا اور امن و امان بھی بحال کیا جاسکتا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل