Saturday, March 15, 2025
 

شافی جواب!

 



پارلیمانی جمہوری نظام حکومت میں کابینہ اس کا اہم حصہ ہوتی ہے، جس کی سربراہی وزیر اعظم کرتا ہے۔ جن ممالک میں صدارتی نظام ہوتا ہے وہاں صدر جمہوریہ کابینہ کی سربراہی کرتا ہے، پارلیمانی نظام حکومت میں کابینہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ایک پارلیمنٹ کے تحت کام کرتی ہے۔ وفاقی کابینہ میں ملک کے تمام اہم شعبوں اور محکموں کے وفاقی وزیر شامل ہوتے ہیں جو پورے نظام حکومت چلانے کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ آئین پاکستان کے تحت 18 ویں آئینی ترمیم کی روشنی میں کابینہ کے حجم کی ایک حد مقرر کر دی گئی ہے۔ آئین کی شق 92 کے تحت وفاقی کابینہ کے اراکین کی تعداد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے 11 فی صد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ہماری پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں کل اراکین کی تعداد 342 ہے جب کہ ایوان بالا یعنی سینیٹ میں 104 ہے۔ گویا دونوں ایوانوں کی تعداد 446 ہے اور اس کا 11 فی صد 49 بنتا ہے۔ وفاقی وزرا اور مشیران کو ماہانہ تنخواہ اور الاؤنس کی مد میں لاکھوں روپے کا پیکیج دیا جاتا ہے جن میں سرکاری رہائش، مفت میڈیکل، اہل خانہ سمیت سفری سہولیات اور دیگر متعدد سہولیات اور مراعات دی جاتی ہیں جو سب سرکاری خزانے سے ادا کیا جاتا ہے۔ ملک میں اس وقت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہے جس کے وزیر اعظم شہباز شریف ہیں۔ اپنی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد گزشتہ ہفتہ انھوں نے وفاقی کابینہ میں توسیع کا فیصلہ کیا جس کے مطابق وفاقی کابینہ میں 12 وزرا 9 وزرا مملکت اور مشیروں کو شامل کیا گیا ہے۔ صدر آصف زرداری نے نئے وزرا اور مشیروں سے حلف لیا اور انھیں قلم دان تفویض کر دیے گئے ہیں۔ وفاقی وزرا میں حنیف عباسی، معین وٹو، مصطفی کمال، سردار یوسف، علی پرویز، شزہ فاطمہ، جنید انور، خالد مگسی، اورنگزیب کھچی، رانا مبشر اور رضا حیات ہراج شامل ہیں۔ جب کہ وزرائے مملکت میں ملک رشید، طلال چوہدری، کھیئل داس، رحمن کانجو، بلال کیانی، انور چوہدری، مختار بھرت اور وجیہہ قمر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے توقیر شاہ، محمد علی اور پی ٹی آئی کے سابق وزیر اعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک کو بھی اپنی کابینہ میں بطور مشیر شامل کیا ہے۔ وفاقی کابینہ میں نئے وزرا کی شمولیت کے بعد کابینہ کی تعداد بڑھ کر 50 ہو گئی ہے جو آئین کی مقررہ حد 11 فی صد سے زائد ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ آیندہ چند ماہ میں چند ایک مزید ارکان پارلیمنٹ کو وزارت کا پروانہ پیش کردیا جائے۔ کابینہ میں توسیع پر وزرا تو یقینا خوشی سے نہال اور شاداں ہیں لیکن مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کابینہ میں جن نئے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے اور انھیں جو قلم دان سونپے گئے ہیں اس میں عمر، تجربے اور سیاسی وابستگی کو پوری طرح پیش نظر نہیں رکھا گیا جس کے باعث نئے تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے منحرف رکن قومی اسمبلی پرویز خٹک جوکہ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں ان کی بطور داخلہ مشیر وزیر اعظم تقرری پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سیاسی حرکیات پر گہری نظر رکھنے والوں کا موقف ہے کہ پرویز خٹک کی بطور مشیر داخلہ تقرری درحقیقت خیبر پختون خوا کے موجودہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپورکا توڑ کرنے کے لیے کی گئی ہے کیوں کہ دونوں کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا وفاقی حکومت اپنی اس حکمت عملی سے وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو سکے گی یا نہیں؟ کابینہ میں نئے وزرا کی شمولیت سے حکومت کی کارکردگی بہتر ہوگی یا نہیں؟ عوام کو کوئی ریلیف ملے گا یا نہیں، زوال پذیر محکموں اور شعبوں کی کارکردگی میں نمایاں تبدیلی آئے گی یا نہیں، اور کیا جمہوریت مستحکم ہوگی یا نہیں؟ اس حوالے سے آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ آپ ایک بین الاقوامی ادارے کی اس رپورٹ کا جائزہ لیجیے جس نے پاکستان کو ’’ دس خراب کارکردگی‘‘ والے ممالک کی فہرست میں شمار کیا ہے۔ بین الاقوامی جریدے دی اکانومسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ کی رپورٹ کے مطابق ڈیموکریسی انڈیکس 2024 میں پاکستان چھ درجے تنزلی کے بعد 124 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ رپورٹ میں 165 خودمختار ممالک اور دو ریاستوں میں رائج جمہوری نظام حکومت کے پانچ شعبوں کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں انتخابی عمل، حکومتی ذمے داریوں، سیاسی شرکت، سیاسی کلچر اور شہری آزادی بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگرچہ بنگلہ دیش میں سب سے زیادہ تنزلی دیکھی گئی لیکن جنوبی کوریا اور پاکستان میں نمایاں پستی ظاہر ہوئی ہے۔ مذکورہ ادارے کی رپورٹ ہمارے نظام جمہوریت اور 2024 کے انتخابی عمل پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پی ٹی آئی 2024 کے انتخابی عمل اور نتائج پر سنجیدہ سوالات اٹھا رہی ہے، شافی جواب کون دے گا؟

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل