Saturday, March 15, 2025
 

صدر زرداری کا خطاب

 



صدر آصف زرداری نے سندھ میں چولستان کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے کے خلاف احتجاج کی تپش کو محسوس کر ہی لیا۔ انھوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ صدر زرداری نے اپنے صدارتی خطاب میں موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کی تعریف کی۔ انھوں نے کہا کہ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا فیصلہ یکطرفہ ہے، وہ بحیثیت صدر حکومت کی اس پالیسی کی حمایت نہیں کرسکتے، اگرچہ گرین پاکستان کے تحت چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے کی سب سے پہلے ایوانِ صدر جس کی صدارت صدر آصف زرداری کر رہے تھے والے اجلاس میں منظوری دی گئی تھی۔ اس وقت کئی مبصرین نے ایوانِ صدر میں صدر زرداری کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھائے تھے مگر ایوانِ صدر اور پیپلز پارٹی کے قائدین نے اس اجلاس پر ہونے والی تنقید پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ مگر اب صدر آصف زرداری نے صدارتی خطبے میں اس بارے میں خاموشی ختم کردی۔ چولستان فارمنگ گرین پاکستان انیشی ایٹو Green Pakistan Initiative کا پہلا حصہ ہے۔ GPI منصوبہ کا آغاز 2023میں ہوا تھا۔ اس منصوبے کے تحت زرعی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مدعوکرنے اور کارپوریٹ فارمنگ کو فروغ دینا ہے۔ اس منصوبہ کے تحت چولستان کے ریگستانی علاقے کی 5 ہزار سے زیادہ ایکڑ زمین سیراب ہوسکتی ہے۔ وفاقی حکومت نے حکومت پنجاب کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد اس منصوبے کو عملی شکل دی تھی۔ اس منصوبے کے لیے فوری طور پر دو نہروں کی تعمیر ہونی ہے۔ حکومت پنجاب کا کہنا ہے کہ ان دنوں نہروں کو دریائے ستلج میں آنے والا سیلابی پانی فراہم کیا جائے گا۔ جب 60ء کی دہائی میں پاکستان اور بھارت کے دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تھا ۔ اس معاہدے کے تحت دریائے ستلج کو بھارت کے حوالے کردیا گیا اور اسی معاہدہ کے تحت بھارت سیلاب کی صورت میں پانی دریائے ستلج میں پھینکتا ہے جس سے جنوبی پنجاب کے علاوہ اپر سندھ میں بھی سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے تحت چشمہ بینک کینال سے 6 نہریں نکالی جانی تھیں۔ سندھ کے بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ان میں سے 4 نہریں تعمیر ہوچکی ہیں۔ پنجاب کے محکمہ آبپاشی نے یکم جنوری 2024 کو انڈس ریور سسٹم اتھارٹی سے سیلابی پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا ہے۔ حکومت سندھ نے ارسا کے سرٹیفکیٹ کے اجراء کے اختیار کو چیلنج کیا تھا۔ سندھ حکومت کا واضح مؤقف ہے کہ 1991 میں ہونے والے پانی کے معاہدے کے تحت ارسا کا ادارہ اس طرح کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ ارسا کے افسر اعلیٰ نے حکومت پنجاب کو جاری کردہ سرٹیفکیٹ میں واضح طور پر تحریرکیا ہے کہ اس نہر میں خریف کے سیشن میں پانی دستیاب ہوگا اور اس نہر کو سیلابی پانی ملے گا۔  دریائے سندھ کے امور پر تحقیق کرنے والے سول سوسائٹی کے ایک ممتاز رہنما نصیر میمن کہتے ہیں کہ اس نہر کے پی سی ون کی دستاویز میں اس نہر کو Perennial Canalکا درجہ دیا گیا ہے۔ Perennial-I ایسی نہر ہوتی ہے جس میں سارا سال پانی موجودہ ہوتا ہے۔ اس وقت سندھ کو 13.7 فیصد اور پنجاب کو 19.4 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے اور دریائے سندھ گزشتہ کئی عشروں سے خشک سالی کا شکار رہا ہے، اس بناء پر اس منصوبے کے لیے بڑے پیمانہ پر پانی کی فراہمی کا واضح مطلب یہ ہے کہ دریائے سندھ سے اس منصوبے کے لیے پانی فراہم کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پھر اس منصوبے پر چولستان کے مقامی کسان جو صدیوں سے آباد ہیں وہی احتجاج کررہے ہیں۔ ان افراد نے لاہور ہائی کورٹ کی بہاولپور بنچ میں دائر کی جانے والی عرض داشتوں میں اب سوال اٹھایا ہے کہ ان سے زمین چھینی جارہی ہے۔ جنوبی پنجاب کے نوجوان صحافی جودت سید کی رپورٹ کے مطابق دریائے ستلج گنڈا سنگھ والا کے مقام پر پانی کی آمد اور اخراج صفر ہے، سلیمانکی ہیڈ جو بہاولنگر سے گزرتا ہے اس کے مقام پر بھی پانی کی آمد اور اخراج صفر ہے، ہیڈ اسلام بہاولپور سے پہلے واقع ہے اس میں بھی پانی کی آمد اور اخراج صفر ہے جب کہ پنجند ظاہر پیر کے مقام پر قائم ہے یہاں بھی پانی کا بہاؤ آمد اور اخراج صفر ہے۔ اسی طرح سے دریائے راوی جو ہیڈ سدھنائی کے مقام پر جنوبی پنجاب میں آتا ہے یہاں بھی پانی کی آمد میں کمی واقع ہوئی ہے جس میں صرف 1600 کیوسک پانی دستیاب ہے جب کہ دریائے چناب جو ملتان اور مظفرگڑھ کی زرخیز زمینوں کو آباد کرتا ہے اس میں بھی ہیڈ تریموں کے مقام پر پانی کی آمد اور اخراج صفر ہے۔ دریائے سندھ میں تونسہ کے مقام پر پانی کی آمد 26 ہزار کیوسک ہے جس میں گزشتہ ریکارڈ کے مطابق 80 فیصد تک کمی دیکھی جا رہی ہے۔ حکومت سندھ کے اعتراض کے بعد وفاقی حکومت کو وفاق اور صوبوں کے درمیان مسائل کو حل کرنے کے آئینی ادارہ مشترکہ مفاد کونسل میں لے جانا چاہیے تھا مگر وفاقی حکومت اپنی ذمے داری پوری کرنے کو تیار نہیں ہے، یوں معاملات پیچیدہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ واپڈا کے ایک سابق چیئرمین پانی کی تقسیم کے ادارے ارسا کے سربراہ رہے جو ہمیشہ کالا باغ ڈیم کے فوائد بیان کرتے رہے۔ وفاقی حکومت کی فیصلہ سازی نے اس تقرر کے لیے سب سے بڑی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ جب بلاول بھٹو زرداری نے اس تقررکے خلاف احتجاج کیا تو وزیر اعظم کو اس فیصلے کو منسوخ کرنا پڑا ۔ جب میاں نواز شریف 90ء کی دہائی میں پہلی دفعہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو سندھ میں پیپلز پارٹی کے منحرف رہنما جام صادق وزیر اعلیٰ تھے اور سینیئر بیوروکریٹ غلام اسحاق خان صدر کے عہدے پر فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس وقت وفاق کی نگرانی میں چاروں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدہ کے تحت انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ایک) قانون کے ذریعہ قیام عمل میں آیا تھا۔ ارسا کے قانون کے تحت اس ادارے میں چاروں صوبوں کو نمایندگی دی گئی تھی۔ اس وقت وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے ارسا کی ہیت کو تبدیل کرنے کے لیے ایک ترمیمی آرڈیننس تیار کیا تھا۔ اس ترمیمی آرڈیننس کے تحت اس کا چیئرمین خود مختار حیثیت کا حامل نہیں ہوگا بلکہ چیئرمین کے مستقبل کا انحصار وزیر اعظم کی صوابدید پر ہوگا۔ اس ترمیم کے بعد گریڈ 21 کا افسر ارسا کا چیئرمین ہوسکتا تھا۔ چیئرمین ارسا ایک ٹیکنیکل کمیٹی قائم کرنے کا مجاز ہوگا جس میں ماہرین شامل ہونگے۔ اس مسودے کی شق 8 کے تحت تکنیکی ماہرین کی کمیٹی 10دن میں تکنیکی بنیادوں پر پانی کی تقسیم کا طریقہ کار اختیار کرے گی اور ہر صوبے کو پانی کی فراہمی کا فیصلہ یہ تکنیکی کمیٹی کرے گی۔ اس مسودے کی شق 7 کے تحت صوبائی اراکین کا کردار مزید محدود ہوجائے گا۔ اصولی طور پر وفاقی حکومت کو اس اہم قانون کے مسودہ کو صوبوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے آئینی ادارہ مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کرنا چاہیے تھا مگر حکومت نے آئینی ادارہ کو نظرانداز کیا۔ اس وقت تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی صدرِ پاکستان کے عہدے پر فائز تھے۔ ڈاکٹر عارف علوی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف مہم کا حصہ رہے ہیں، انھیں اس قانون کے چھوٹے صوبوں پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ تھا۔ اس بناء پر انھوں نے اس قانون پر دستخط کرنے سے انکار کیا۔ پیپلز پارٹی نے اس مسودہ قانون کے خلاف زبردست مہم شروع کی تھی۔ سندھ اسمبلی نے قوانین مسودہ کے خلاف قراردادیں بھی منظور کی تھیں مگر جب دوبارہ مسلم لیگ ن کی وفاق میں حکومت بنی تو اس نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور دیگر رہنما مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ آئینی ادارہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس فوری طور پر بلایا جائے مگر حکومت آئینی راستہ اختیار کرنے کے بجائے انتظامی احکامات سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اگرچہ صدر زرداری کی پارلیمنٹ میں تقریر کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو افطار ڈنر پر مدعو کیا اور یہ امید ظاہر کی کہ چولستان کنال کا مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہو جائے گا ۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل