Loading
بات دراصل یہ ہے کہ چینی کے بغیر ہمارا گزارا نہیں اور رمضان المبارک اور عیدالفطر کے موقعے پر چینی کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ چینی کے طرح طرح کے پکوان بنائے جاتے ہیں اور ہمارے ملک میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کا ایک اہم ترین اور سدا بہار ذریعہ مٹھائی کی دکانیں ہیں اور اگر جس ماہ ملک بھر کی مٹھائی کی دکانوں کی سیل بڑھ جاتی ہے تو سمجھیں کہ ملک میں خوشحالی نے آنا شروع کردیا ہے اور اگر فروخت میں کمی ہو جائے، مٹھائیوں کی طلب میں کمی ہونی شروع ہو جائے تو سمجھ لیں کہ لوگوں کی جیب سے پیسے اِدھر اُدھر سرک گئے ہیں۔ چینی سے بنی ہوئی سوغات کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں مشہور ہے۔ مثلاً ملتان کا حلوہ اور چکوال کی پہلوان ریوڑی اور دیگر مٹھائیاں وغیرہ۔ چکوال کی پہلوان ریوڑی نے تو بہت جلد دنیا میں اپنا نام کما لیا ہے۔ چھپڑ بازار سے آم کے جوس کی دکان سے شروع ہو کر ایک کارخانہ ریوڑی بنانے کا اور پھر یہ کاروبار چکوال کی ریوڑیاں کے حوالے سے دنیا بھر میں پھیل گیا۔ اسی طرح تلہ گنگ کا صبونی حلوہ اور خوشاب کا ڈھوڈہ پتیسہ اور کراچی کا سوہن حلوہ، گوجرانوالہ کی برفی، حیدرآبادی ربڑی وغیرہ وغیرہ۔ پاکستان بننے کے بعد کئی عشروں تک چینی کی راشن بندی کی جاتی تھی اور غالباً 1968 تک 10 آنے فی سیر چینی مل جایا کرتی تھی۔ پھر اس کی راشن بندی ہونے لگی۔ 1975 میں 2 روپے60 پیسے فی کلو چینی راشن کی دکانوں سے مل جایا کرتی تھی وہ بھی راشن کارڈ دیکھ کر فی گھرانے کو 3 ،4 یا پانچ کلو چینی فراہم کرتے تھے۔ 1980 کی دہائی سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر چینی کے کارخانے لگتے چلے گئے، اب بتایا جاتا ہے کہ ان کی تعداد 84 ہے۔ پاکستان میں گنے کی وافر مقدار میں پیداوار بھی ہوتی ہے۔ چند سالوں سے اوسطاً 8 کروڑ ٹن تک ہے۔ اللہ رب العالمین نے پاکستانیوں کو ان کی من پسند خوراک چائے، مٹھائی، حلوہ جات، شیر خورمہ اور دیگر بہت سی میٹھی اشیا بنانے کے لیے اس ملک کو گنے اور چینی کی پیداوار میں خودکفیل بنایا ہے۔ البتہ بعض اوقات حکومت کی انتظامی صلاحیتوں کی ناکامی، غیر مناسب منصوبہ بندی اور غلط اندازے اور موسمی حالات کے باعث گنے کی پیداوار میں کبھی کمی بھی ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود چینی کی پیداوار اتنی ہو جاتی ہے کہ اگر ذخیرہ اندوزی نہ کی جائے، اسمگل نہ کردی جائے تو چینی کی پیداوار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ملکی کھپت پوری ہو جاتی ہے۔ ایسے میں چینی ریٹ کنٹرول کرنے کی حکومت کو ضرورت ہی نہ رہے۔ پاکستان گنے کی پیداوار کے لحاظ سے اکثر دنیا میں پانچویں نمبر پر براجمان رہا ہے۔ اس کی فی ایکڑ گنے کی پیداوار اوسطاً 500 من ہے کہیں 1000 اور 12 سو من بھی ہے جب کہ دنیا کی اوسطاً پیداوار فی ایکڑ 600 من سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ پاکستانی پنجاب سے جڑے بھارتی پنجاب میں فی ایکڑ گنے کے علاوہ بھی ہر پیداوار پاکستان سے کہیں بہت زیادہ ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں کسان کو فی من گنے کی ادائیگی 6 سو سے 7 سو روپے کی جا رہی ہے اور ہندوستان میں ریٹ زیادہ دیے جاتے ہیں۔ اب پیداوار پر نظر ڈالتے ہیں 2021-22 میں سب سے زیادہ پیداوار حاصل ہوئی یعنی 8 کروڑ86 لاکھ 51 ہزار ٹن، 2018-19 میں پیداوار 5 سال میں سب سے کم تھی 6 کروڑ10 لاکھ ٹن۔2020-21 میں 8 کروڑ10 لاکھ ٹن۔ اب تسلسل اس بات پر ہے کہ تقریباً 8 کروڑ ٹن کے لگ بھگ گنے کی پیداوار اور چینی کی پیداوار اس سیزن میں جوکہ فروری تک اختتام کو پہنچا ہے 58 لاکھ ٹن چینی کی پیداوار ہوئی ہے۔ گنے کی فی ایکڑ پیداوار کے حساب سے سندھ اول نمبر پر ہے پھر پنجاب۔ پاکستان اپنی گنے کی پیداوار کا 75 فی صد چینی پیدا کرتا ہے۔ اس مرتبہ کہا جا رہا ہے کہ گنے کی پیداوار میں 15 فی صد کمی ہوئی ہے۔ اگرچہ چینی کی پیداوار تو کم نہیں ہے لیکن کارخانے دار چینی فروخت کرنے کے بجائے اس کو اسٹورکرنے میں دلچسپی بھی لے رہے ہیں۔ اب اس کا کیا فائدہ ہوگا۔ بات یہ ہے کہ نئے کرشنگ کے آغاز میں 8 ماہ درمیان میں حائل ہیں، اگر اسٹاک کو روک لیتے ہیں تو ایک طرح کی غیر حقیقی قلت پیدا ہو جائے گی۔ مارکیٹ میں چینی کی کمی سے اس کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا، گزشتہ کئی مہینوں سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔پاکستان کو چینی کا ایک بڑا خریدار ملک بنگلہ دیش حال ہی میں ملا ہے اور گزشتہ دنوں وہاں کی بندرگاہ چٹاگانگ میں 26 ہزار میٹرک ٹن چینی لے کر 53 سال بعد پہلا پاکستانی بحری جہاز لنگرانداز ہو چکا تھا۔ گنے کے علاوہ پاکستان میں چقندر سے بھی چینی بنائی جاتی ہے اور اس سال ایک لاکھ ٹن چینی بنائی گئی۔ کل چینی کی پیداوار 59 لاکھ ٹن پاکستانی صارفین کی ضرورت کے لیے ناکافی نہیں ہے، اس کے ساتھ کچھ مقدار برآمد کرکے چینی کے برآمدی ممالک میں اپنا نام لکھوائے رکھ سکتے ہیں۔ ان تمام کے باوجود اگر اس کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے، مارکیٹ میں چینی کی کمی یا شارٹیج ہو رہی ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ گنے کی پیداوار کم ہوئی ہے یا چینی کی۔ اصل وجہ کچھ اور ہے اور وہ ہے ناجائز منافع کمانا، ذخیرہ اندوزی کرنا، مصنوعی قلت پیدا کر کے فی کلو قیمت میں مسلسل اضافہ کیے جانا۔ لہٰذا حکومت چینی کی قیمت کو پچھلی سطح پر لے جانے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل