Tuesday, March 18, 2025
 

آئینی بینچ 4 ماہ میں کسی اہم معاملے کا فیصلہ نہ کر سکا

 



 4 ماہ گزر نے کے باوجود آئینی بینچ ابھی تک کسی اہم معاملے کا فیصلہ نہ کر سکا۔ 4 نومبر 2024 ء کو جوڈیشل کمیشن نے اکثریت سے 8 ججوں کو آئینی بینچ کیلیے نامزد کیا تھا۔ توقع تھی جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں بینچ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔ تاہم بینچ نے انھیں 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے مقدمات کے فیصلے کرنے کی مشروط اجازت دی۔ آئینی بینچ نے  46سماعتوں کے باوجود فوجی عدالتوں کے مقدمے کی کارروائی ابھی تک مکمل نہیں کی۔ اس معاملے کی سماعت آئندہ ماہ دوبارہ شروع کی جائے گی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا ہے  انہیں اپنی تردید کے نتیجے میں کم از کم 8 سماعتوں کی ضرورت ہے۔ فوجی عدالتوں کے مقدمے کی طویل سماعت کے باعث آئینی بنچ دو اہم مقدمات کی سماعت نہ کر سکا جب جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں بنچ نے سوال اٹھایا  کیا جنوری میں قانون اور آئین کی تشریح سے متعلق معاملات کی سماعت سے باقاعدہ بنچ کو روکا جا سکتا ہے تو آئینی بنچ کی کمیٹی نے فیصلہ کیا  26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت 8 جنوری کو ہو گی اور 8 رکنی بنچ صرف 8 رکنی آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرے گا۔ مقدمے کی سماعت تین ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی گئی۔ آئینی بنچ نے 50 دنوں بعد بھی  26ویں آئینی ترمیم کا مقدمہ طے نہیں کیا۔ اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی سنیارٹی سے متعلق ایک اور اہم معاملہ ہے۔ 5 ججوں نے مختلف ہائی کورٹس سے 3 ججوں کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ چیلنج کیا۔ انہوں نے 3 نئے ججوں کے تبادلے کے بعد درجہ بندی میں تبدیلیوں کی روشنی میں اپنی سنیارٹی کا دعویٰ  سپریم کورٹ میں کیا خاص طور پر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر جو جسٹس محسن اختر کیانی کی جگہ سینئر جج بنے۔ ان کا کہنا ہے تبادلہ کئے گئے ججوں کی سنیارٹی کا تعین نئے سرے سے حلف لینے کے بعد کیا جائے گا۔ مختلف بار ایسوسی ایشنز نے بھی 3 ججوں کے تبادلے کو لاہورہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔ یہاں تک کہ پی ٹی آئی نے بھی اسی موضوع پر آئینی پٹیشن دائر کی ہے۔ اگرچہ ان پٹیشنز پر نمبر الاٹ ہو چکے  لیکن ابھی تک یہ معاملہ فیصلے کیلئے طے نہیں ہوا ۔ وکلاء  کا خیال ہے ان اہم مقدمات میں جمود انتظامیہ  کیلئے موزوں ہے۔فوجی عدالتیں ملزمان کو سزائیں سنا چکی ہیں، اب وہ قید میں ہیں۔ دوسرا یہ  کہ 26 ویں آئینی ترمیم پر عملدرآمد رکاوٹ کے بغیر جاری ہے۔  اسلئے حکومت اس معاملے پر فوری فیصلہ کرنے میں جلدی نہیں کرے گی۔ تیسراحکومت کا لاہور ہائیکورٹ کے متعلق منصوبہ بھی آسانی سے جاری ہے۔جسٹس  سرفراز ڈوگر قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر کام کر رہے ہیں۔  حکومت کو ماضی کے برعکس  لاہور ہائیکورت  میں مشکل کا سامنا نہیں، اسلئے اس معاملے میں جمود حکومت کیلئے بھی موزوں ہے۔ کراچی بار ایسوسی ایشن نے فیصل صدیقی کے ذریعے لاہورہائیکورٹ میں 3 ججوں کے تبادلے کو بھی چیلنج کیا ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم آئینی بینچ کو قانون اور آئین کی تشریح کا خصوصی اختیار دیتی ہے۔ باقاعدہ بنچوں کو قانون اور آئین کی تشریح کیلئے دائرہ اختیار استعمال کرنے سے روک دیا گیا ۔ تاہم، آئینی بنچ نے گزشتہ سال نومبر سے اب تک کسی بھی قانون کی تشریح نہیں کی۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل