Wednesday, March 19, 2025
 

ڈاکٹر جاوید اقبال۔۔۔ ایک شخصیت باکمال

 



زندہ معاشرے اپنے زندہ لوگوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، اور زندہ دِل انسان ہی ترقی یافتہ معاشروں کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ، جو اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر معاشرے کی اجتماعی بہتری اور فلاح کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں، وہ عظمت کے مرتبے پر فائز ہوجاتے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا ایسے ماڈرن راہ نماؤں کے افکار کو ہر عام و خاص تک پہنچانے میں نمایاں رہا ہے۔ میں علم و ادب اور تعلیم و تربیت کے لیے کوشاں ایسے نایاب ہیروں کی تلاش میں رہتا ہوں جو مثبت سوچ، علم کی روشنی اور اُمید کی شمع کو روشن رکھے ہوئے ہیں جن کی زندگی کا مقصد لوگوں کی زندگی میں بہتری لانا، آسانیاں پیدا کرنا اور حقیقی مقصد کی تلاش میں معاونت کرنا ہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت، ملک کے نام ور اسپیکر ڈاکٹر جاوید اقبال ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال ایک ممتاز پاکستانی سرجن، طبی ماہرِتعلیم، سماجی اثرو رسوخ رکھنے والے انسپائرنگ اسپیکر اور شاعر ہیں، جنہیں صحت، تعلیم، والدین کی تعلیم و تربیت، اور سماجی فلاح و اصلاح کے لیے اپنی خدمات کی بدولت ممتاز مقام حاصل ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال، میڈیکل کی تعلیم اور سرجیکل پریکٹس میں 35 سال سے زیادہ کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اپنے پورے کیریئر کے دوران، انہوں نے سرجری اور طبی تعلیم کے شعبوں میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے مختلف تعلیمی اور طبی خدمات سرانجام دی ہیں۔ ان کا آخری عہدہ، قائداعظم میڈیکل کالج، بہاولپور کے پرنسپل کے طور پر تھا، جہاں انہوں نے طبی تعلیم اور ادارہ جاتی قیادت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ ایم بی بی ایس (بیچلر آف میڈیسن اور بیچلر آف سرجری)، فیلو آف دی کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز، پاکستان)، فیلو آف دی رائل کالج آف سرجنز، امریکی کالج آف سرجنز کے فیلو)، انٹرنیشنل کالج آف لیپروسکوپک سرجنز کے فیلو)، اورہیلتھ پروفیشنز ایجوکیشن میں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کے ممبر ہیں۔ ابتدائی تعلیم اور بچپن ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتایا کہ وہ 1961 میں بہاول نگر کے قریبی شہر، ہارون آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ایک گھریلو خاتون تھیں، جب کہ والد سرکاری ملازمت کرتے تھے، اس لیے وہ اسلام آباد میں مقیم رہے۔ ان کے ننھیال کا تعلق ہارون آباد سے تھا، جہاں ان کی پیدائش ہوئی۔ ڈاکٹرجاوید اقبال کی بہن سمیت ان کے والدین کی بس دو اولادیں ہیں۔ انہوں نے پرائمری سے ایف ایس سی تک تعلیم اسلام آباد میں حاصل کی، اور بعد ازآں ایم بی بی ایس کے لیے نشتر میڈیکل کالج، ملتان میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد زندگی انہیں مختلف شہروں اور مقامات تک لے گئی۔ اپنے بچپن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اگر کسی کا دُنیا میں آئیڈیل بچپن ہو سکتا ہے، تو وہ ان کا بچپن تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان کے والدین کی دانش مندی، محبت، اور متوازن پرورش تھی۔ وہ بہت پیار کرنے والے تھے، مگر لاڈ بالکل نہیں کرتے تھے۔ والدین نے بچپن ہی میں انہیں خودمختاری اور ذمہ داری کا عادی بنایا تھا۔ وہ کہتے ہیں: ’’جس عمر میں، میں اپنے کپڑے خود دھو سکتا تھا، میں خود دھوتا تھا۔ جس عمر میں جھاڑو دے سکتا تھا، تو میں جھاڑو دیتا تھا۔ میں اپنی امی کے ساتھ آٹا گوندھتا تھا، اپنے جوتے خود پالش کرتا تھا۔ بہت چھوٹی عمر سے میں اسکول خود ہی جاتا تھا۔‘‘ انہیں یاد ہے کہ جب وہ ساتویں جماعت میں داخل ہوئے تو ان کے والد نے انہیں خود داخلہ لینے بھیجا۔ انہوں نے خود جا کر داخلہ فارم جمع کرایا اور فیس ادا کی، جو ان کے اعتماد اور خودمختاری کی تربیت کا نتیجہ تھا۔ وہ اپنے اسکول، فیڈرل گورنمنٹ اسکول نمبر ون، اسلام آباد کو ایک بہترین درس گاہ قرار دیتے ہیں، جہاں سے کئی نام ور اور کام یاب شخصیات نکلیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انہیں ایک شان دار تعلیمی ماحول ملا اور ان کا بچپن بے حد خوش گوار گزرا۔  تدریسی سفر ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ میڈیکل کا انتخاب میری اپنی پسند تھی، اور تدریس کا شوق میرے اندر ابتدا سے ہی موجود تھا۔ اگرچہ سوشل میڈیا نے میرے تدریسی پہلو کو نمایاں کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں ہمیشہ سے ہی تعلیم و تدریس سے وابستہ رہا ہوں۔ ہاؤس جاب کے دوران بھی میں طلبہ کو کلاسز پڑھایا کرتا تھا، اور بطور رجسٹرار، سنیئر رجسٹرار، اور اسسٹنٹ پروفیسر بھی تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ سوشل میڈیا کے ظہور سے قبل ہی میں نے ماسٹرز ان میڈیکل ایجوکیشن مکمل کرلیا تھا اور پاکستان بھر میں سرجری سے متعلق ورکشاپس منعقد کراتا رہا۔ بعدازآں، میڈیکل ایجوکیشن کے تحت مختلف سماجی موضوعات پر بھی تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کیا۔ یوں میری شخصیت میں کوئی بنیادی تبدیلی (ٹرانسفارمیشن) نہیں ہوئی، کیوںکہ میں ابتدا سے ہی ایک استاد تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے میرے اس پہلو کو وسیع پیمانے پر متعارف کروا دیا ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کا مستقبل نوجوانوں کے مستقبل کے حوالے سے سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ نوجوانوں کی موجودہ صورت حال صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ یورپ میں بھی نوجوان بھٹکے ہوئے ہیں اور وہاں بھی مایوسی (Frustration) بہت زیادہ ہے، لہٰذا ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ صرف پاکستان کو ہی اس چیلینج کا سامنا ہے۔ درحقیقت، پچھلے 10سالوں میں دُنیا بھر میں ایک ہی نعرہ گونج رہا ہے، ’’پیسے کماؤ، پیسے کماؤ، پیسے کماؤ!‘‘ یہ رجحان صرف پاکستان میں نہیں، بلکہ دُنیا بھر میں دیکھا جا رہا ہے، اور اسی کی وجہ سے نوجوان تیزی سے مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں اور شارٹ کٹس تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں اس مسئلے کو مزید سنگین بنانے والا عنصر یہ ہے کہ نہ تو ہمارا تعلیمی نظام نوجوانوں کی مناسب راہ نمائی کر رہا ہے، اور نہ ہی ہمارے ادارے انہیں بہترین رول ماڈلز فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، نوجوان الجھن کا شکار ہو رہے ہیں۔ تاہم، وہ نوجوان جو عقل و دانش سے کام لیتے ہیں، محنت پر یقین رکھتے ہیں، صحیح راہ نمائی (Mentorship) تلاش کر لیتے ہیں یا کوئی واضح حکمتِ عملی (Strategy) بنا لیتے ہیں، وہ پاکستان میں بھی اتنے ہی کام یاب ہو رہے ہیں جتنے دُنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں ہوسکتے ہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی اور سماجی رویوں میں تبدیلی مذہبی اقلیتوں، بین المذاہب ہم آہنگی، اور معاشرتی بھائی چارے کے فروغ کے حوالے سے انہوں نے کہا۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلام، مسیحیت، یا کوئی بھی مذہب نفرت کا درس نہیں دیتا۔ کسی بھی مذہب میں انسان سے نفرت کی گنجائش نہیں ہے۔ نظریاتی اختلاف ایک فطری امر ہے، جسے دلیل اور مکالمے کے ذریعے زیرِبحث لایا جا سکتا ہے، مگر انسانی برابری پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح کسی مسیحی کا خون ہے، ویسا ہی ہندو، سکھ، اور مسلمان کا خون بھی ہے۔ اگر کوئی معاشرہ مذہب کی بنیاد پر نفرت، امتیازی سلوک، یا کسی کو کم تر سمجھنے کا رجحان رکھتا ہے، تو یہ ایک بیماری ہے، نہ کہ کوئی صحت مند معاشرہ ہے۔ حقیقت میں، یہ کسی مذہبی معاشرے کی نشانی نہیں بلکہ غیرمذہبی رویے کی علامت ہے۔ اسی لیے، پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں کو آگے بڑھ کر اس پیغام کو عام کرنا چاہیے کہ مذہب کی بنیاد پر لڑائی جھگڑے نہیں ہونے چاہییں۔ نظریاتی اختلافات ہمیشہ رہیں گے، کیوںکہ اللّہ تعالیٰ نے کسی بھی دو افراد کے نظریات یکساں نہیں بنائے ہیں۔ اختلافِ رائے فطری ہے، اور اسے مہذب انداز میں گفت و شنید اور مکالمے کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ جہاں تک مسیحی کیمونٹی کا تعلق ہے، ان کے کئی افراد معاشرے میں بہترین خدمات سرانجام دے رہے ہیں، خاص طور پر صفائی اور دیگر لازمی خدمات میں ان کا کردار نمایاں ہے۔ ان کے اس کردار کو کمتر سمجھنے کے بجائے عزت دی جانی چاہیے، کیوںکہ جو شخص دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کر رہا ہے، وہ درحقیقت ان پر احسان کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے، ہمارے ہاں کچھ فرسودہ اصطلاحات اور رویے غلامی کے دور سے چلے آ رہے ہیں، جنہیں بدلنے کی ضرورت ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان کا مرتبہ اس کے کام سے نہیں، بلکہ اس کے اخلاق اور کردار سے بنتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ نوجوان نسل میں اب آگاہی اور شعور بڑھ رہی ہے، اور ان شاء اللہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مذہبی کشیدگی کم ہوگی اور ہم ایک زیادہ ہم آہنگ اور باہمی احترام پر مبنی معاشرہ تشکیل دے سکیں گے۔ جدید پیرنٹنگ کے چیلنجز اور ہمارے بچوں کا مستقبل آج کے دور میں والدین کے لیے پیرنٹنگ پہلے سے کہیں زیادہ مشکل اور چیلنجنگ بن چکی ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ آج کے والدین بعض بنیادی چیزیں نظر انداز کر رہے ہیں، جو ہمارے بچپن میں عام تھیں۔ جب ہم بچے تھے، تو ہماری معلومات (ڈیٹا) محدود اور فلٹرڈ ہوتی تھیں، اور یہی معلومات ہماری شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ ہمارے لیے علم کے بنیادی ذرائع والدین، اساتذہ، والدین کے دوست، گلی کے ساتھی، اخبارات، ریڈیو اور چند گھنٹوں کی ٹی وی نشریات تھے۔ ان ذرائع سے حاصل ہونے والا مواد انتہائی معیاری اور فطری تھا۔ ٹی وی اور ریڈیو پر آنے والا مواد فلٹرڈ اور سلیقے سے پیش کیا جاتا تھا۔ اس میں مشاعرے، کلاسیکی موسیقی، مذہبی پروگرام، اور سنجیدہ تفریحی مواد شامل ہوتا تھا، جو بچوں کے مزاج اور ذہنی نشوونما کو مثبت انداز میں تشکیل دیتا تھا۔ موجودہ دور میں سب سے بڑا مسئلہ ’’ان فلٹرڈ ڈیٹا‘‘ (Unfiltered Data) کی بھرمار ہے۔ والدین نے بچوں کے ہاتھ میں موبائل فون دے دیا ہے، مگر اس پر آنے والے مواد کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ بچوں کے دماغ پر بے چھنی، متضاد اور بعض اوقات انتہائی نقصان دہ معلومات کا شدید اثر پڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے ان کی ذہنی اور اخلاقی تربیت خطرے میں ہے۔ اسی لیے، آج پیرنٹنگ سیکھنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ خوش قسمتی سے، ہم نے پچھلے آٹھ سے دس سالوں کی محنت کے بعد پیرنٹنگ کا ایک جامع کورس تیار کیا ہے، جس میں میں نے اپنی تمام تحقیق اور تجربات شامل کیے ہیں۔ یہ کورس ہر والدین کے لیے بہترین راہ نمائی فراہم کرتا ہے، تاکہ وہ جدید چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے اپنے بچوں کی بہتر تربیت کر سکیں۔ چھوٹے گھروں کے بڑے خواب نوجوانوں کے لیے کام یابی کا راستہ ڈاکٹرجاویداقبال کہتے ہیں کہ دُنیا کے جتنے بھی بڑے لوگ ہیں، ان میں سے اکثر چھوٹے گھروں میں پیدا ہوئے تھے۔ کام یابی کا تعلق آپ کے وسائل یا پس منظر سے نہیں ہے، بلکہ آپ کی محنت، مستقل مزاجی، اور درست حکمتِ عملی سے ہے۔ اگر آپ کی منزل بڑی ہے تو یہ مت سوچیں کہ چھوٹے گھر یا محدود وسائل آپ کی کام یابی میں رکاوٹ بنیں گے۔ اگر آپ واقعی اپنے خوابوں کو حقیقت بنانا چاہتے ہیں تو چار بنیادی چیزوں پر کام کرنا ضروری ہے: پہلی، محنت اور لگن: سستی اور کاہلی کو چھوڑ دو، کیوںکہ دُنیا میں کوئی بھی کام یاب شخص محنت کے بغیر آگے نہیں بڑھا ہے۔ جو بھی میدان چُنو، اس میں انتھک محنت کرو۔ دوسری، نوکری کے بجائے ہنر کو ترجیح دو: نوکری کے چکر میں پڑنے کے بجائے اپنی مہارتوں (Skills) کو بڑھاؤ اور کوئی بھی کام شروع کرنے سے نہ گھبراؤ۔ چاہے وہ چھوٹا کاروبار ہی کیوں نہ ہو، اگر آپ مہارت رکھتے ہیں، تو آپ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یاد رکھو، کوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا ہے۔ تیسری، مسلسل سیکھنے کی عادت اپناؤ: دُنیا میں علم اور ہنر کی کوئی حد نہیں ہے، اس لیے ہمیشہ نئی چیزیں سیکھنے اور خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہو۔ جو شخص ہر دن کچھ نیا سیکھتا ہے، وہ ہمیشہ دوسروں سے آگے نکل جاتا ہے۔ چوتھی، ناکامی سے گھبرانا نہیں: آپ کے راستے میں ناکامیاں ضرور آئیں گی، لیکن اگر آپ دوبارہ اُٹھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، تو کوئی بھی آپ کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتا ہے۔ یاد رکھو، دُنیا میں کوئی بھی محنتی اور مستقل مزاج شخص ناکام نہیں ہوسکتا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، پاکستان اور پوری دُنیا کوئی بھی شخص جو سست نہیں، کاہل نہیں ہے وہ ناکام ہو ہی نہیں سکتا ہے، یہ ناممکن ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل