Thursday, March 20, 2025
 

اپیکس کمیٹیوں کا اجلاس پہلے تواتر کے ساتھ ہوا کرتا تھا

 



تجزیہ کار نوید حسین کا کہنا ہے کہ اگر طاقت کے استعمال سے دہشت گردی ختم ہو چکی ہوتی تو ہم پختونخوا اور سابق قبائلی علاقوں درجنوں آپریشن کر چکے ہوئے ہیں، وہاں آپریشن راہ نجات، راہ راست، ضرب عضب سمیت نہ جانے کتنے آپریشن ہو چکے ہیں۔ اور اسی طرح اگر صرف طاقت کے استعمال سے، کائنیٹک رسپانس سے اگرانسرجینسی کو ختم کیا جا سکتا بلو چستان میں تو وہ نواب اکبر بگٹی کی وفات کے بعد سے تقریباً بیس سال ہونے کو ہیں وہاں پرہمارا کائنیٹک رسپانس ہی چل رہا ہے، وہاں دہشتگردی میں بڑھوتی ہی ہوئی ہے کم نہیں ہوئی۔  ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایک بات تو یہ طے ہے کہ صرف طاقت کے استعمال سے کائنیٹک رسپانس سے یہ مسئلہ ختم نہیں ہو گا۔  تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کل باقاعدہ اعلامیہ بھی ایشو ہو گیا، ساری بات ہو گئی اب اس میں سب سے دلچسپ، سیریس اور مزے کی گفتگو حوالے سے جتنی بھی کی گئی وہ بلاول بھٹو زرداری کی تھی جنھوں نے کائنیٹک آپریشن یعنی فوجی آپریشن کو لے کر چلنے کے ساتھ ساتھ ایک سوفٹ پرانگ کو بھی لیکر چلنے کی بات کی کہ جو بلوچ یکجہتی کمیٹی یا انسانی حقوق کی وہ تنظیمیں جو ریاست مخالف نہیں ہیں کہ ان کو انگیج کیا جائے اور پیپلزپارٹی کی انھوں نے خدمات پیش کیں کہ عالمی سطح پر بھی کام کرنے کو ہم تیار ہیں اور یہاں پر بھی۔  تجزیہ کار شکیل انجم نے کہا کہ ماضی میں بھی طاقت کا استعمال کیا گیا تھا جب اے پی ایس کا سانحہ ہوا ، 2014 میں آپریشن ضرب عضب لانچ کیا گیا تو اس وقت طاقت کا ہی استعمال تھا اور بلاتفریق آپریشن کیے گئے شمالی وزیرستان میں سوات میں کیونکہ اس وقت دہشتگرد سوات کے اندر آ چکے تھے اور وہاں پرانھوں نے سمجھیں اپنی حکومت ہی قائم کر لی تھی، سوات کے مختلف علاقوں میں تو طاقت کا استعمال بھی بڑا ضروری ہے لیکن وہ عناصر وہ ایلیمنٹ جو اینٹی اسٹیٹ نہیں ہیں جن کے اپنے کوئی ریزرویشن ہیں، احساس محرومی ہے ان سے بات چیت بھی ہونی چاہیے۔  تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ کہ سسٹم پہلے بھی بنا تھا اپیکس کمیٹیاں بھی بنائی گئیں، جو پولیٹیکل گورنمنٹ ہیں اس میں ان کو اپنا کردار بالکل جاری رکھنا چاہیے تھا مگر پھر اس کو چھوڑ دیا گیا، اپیکس کمیٹیوں کا اجلاس پہلے تواتر کے ساتھ ہوا کرتا تھا اور اس بارے میں لائحہ عمل طے کیا جاتا تھا، وقت کیساتھ دہشت گردی سے نمٹنے کیلیے جو بھی اقدامات کیے جاتے تھے وہ کیے جاتے تھے لیکن بعد میں یہ چھوڑ دیے گئے۔  تجزیہ کار سلمان عابد نے کہا بنیادی طور پر آرمی چیف نے جو انڈیکیٹ کیا ہے کسی ایک صوبے کی گورننس کا ایشو ڈسکس نہیں کیا، انھوں نے مجموعی طور پر کہا ہے کہ پاکستان میں گورننس کے جو ایشوز ہیں اس کی وجہ سے بھی لوگوں کے اندر افراتفری اور انتشار پایا جاتا ہے، اب آپ دیکھیں کہ18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کی بنیادی ذمے داری تھی کہ وہ گورننس کے نظام کو امپروو کریں، فیڈرل گورنمنٹ کا بھی اس میں رول تھا لیکن ہمارے چاروں صوبوں کی جو گورننس ہے وہ سب کے سامنے ہے اور اس کے اندر جو مسائل ہیں وہ بھی ہم بھگت رہے ہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل