Loading
(گزشتہ سے پیوستہ) گجراتی اور ہِندی/اُردو کے مشترک الفاظ میں شانتی (سکون)، آنند (خوشی)، پریم ، مارگ (راستہ)، شہر، آگ، وَن (یعنی بن: جنگل) ، راجا ، فولاد، پُل، ناشتو (ناشتا)، بطک (بطخ)، پھائے دو (فائدہ)، لشکر، باجار (بازار) وغیرہ بھی شامل ہیں۔ گجراتی اُردو (یعنی گجرات کے لوگوں کی اُردو) کے وسیع موضوع میں یہ جہت بھی تحقیق طلب ہے کہ گجرات، علی الخصوص جوناگڑھ اور گردونواح میں تُرک، تُرک نژاد پٹھان، بابی یا بابئی، یوسف زئی، بنگش، دُرّانی اور نیازی سمیت مختلف قبائل کے پٹھان ، عرب اور دیگر نسلوں کے لوگ اپنی اپنی آبائی زبانوں سے مقامی زبانوں اور بولیوں کے اختلاط کے بعد، جنم لینے والی مخصوص بولی ٹھولی کے عادی ہیں، (جبکہ پشتو بھی کچھ کچھ باقی ہے) تو اُردو کی یہ شاخ دیگر سے کس قدر مختلف ہے، جبکہ ہمیں تو محض روہیل کھنڈی/رام پوری اُردو کا پتا ہے یا کچھ کچھ بھوپال کی بولی ٹھولی کی شُنیِد ہے۔ بات کی بات ہے کہ پرانے گجراتیوں کی اردو میں بِکری (فروخت)، ’جاستی‘ (زیادتی) اورکمتی (کمی) جیسے الفاظ بہت عام تھے۔ انگریزی زبان میں گجراتی سے مستعار الفاظ واصطلاحات کی تعداد زیادہ نہیں، وِکی پیڈیا کے بیان کے مطابق فقط 86 ایسے اسماء ہیں، مگر میرا خیال ہے کہ یہ تحقیق ادھوری ہے۔ کسی حد تک لسانی قیاس آرائی کی گئی تو معلوم ہوا کہ چانول (چاول) کا Congee نامی دلیہ ۔یا۔چِینی دلیہ [Chinese rice porridge] شاید گجراتی سے آیا ہے۔ یہاں رُک کر ذاتی رائے بھی شامل کروںکہ ہمارے یہاں اردو میں، چھلکے والے مخصوص چھوٹے چانول کو ’’کنکی‘‘ کہا جاتا ہے جو عموماً پرندوں کو کھِلانے کے کام آتا ہے۔ گجراتی اور اُردو کے لسانی اشتراک کے باب میں ایک قدرے مختلف پہلو یہ بھی ہے کہ سرزمین گجرات (ہندوستان) سے عربی زبان وادب اور دینی علوم کی بھی بہت خدمت کی گئی۔ تحقیقی مواد کی تلاش میں ایک کتاب بعنوان ’’عربی زبان وادب کی ترقی میں گجرات کے دانشوروں کا حصہ‘‘ از قلم ڈاکٹر باقر علی محمد علی ترمذی مترجمہ محبوب حسین احمد حسین عباسی، انٹرنیٹ پر نظر آئی۔ ابھی باقاعدہ مطالعہ تو نہیں کرسکا ، مگر اس موضوع پر یقیناً بہت وقیع کتاب ہے۔ اردو کو گجراتی، کچھی اور میمنی سے قریب لانے کی کوششوں میں سب سے نمایاں نام گجراتی اور اُردو کے عظیم محقق، تاریخ داں، مترجم، مصنف ومؤلف، صحافی اور میرے مشفق بزرگ کرم فرما کھتری عصمت علی پٹیل (اصل نام محمد اسماعیل عبداللّہ پٹیل) کا ہے۔ کھتری صاحب21 ستمبر1948ء کو کَچھ، مانڈوی (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے المدینہ گرامر اسکول، جوڑیا بازار، طیب علی علوی اسکول، کِیماڑی اور جامعہ مِلّیہ اسلامیہ اسکول، ملیر (کراچی) سے تعلیم پائی۔ اسکول کے دور میں اُن کی پہلی تحریر ’ننّھی دنیا‘ شایع ہوئی۔ یہ 1965ء کی بات ہے جب اسکول کے دس سالہ جشن کے موقع پر صدر پاکستان، فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اسکول کا معائنہ کیا اور طلبہ سے فرداً فرداً دریافت کیا کہ وہ بڑے ہوکر کیا بننا چاہتے ہیں تو اپنی باری آنے پر کھتری عصمت نے یہ کہہ کر سربراہ مملکت و حکومت کو ششدر کردیا کہ میں دانشور بننا چاہتا ہوں۔ صدر ایوب اپنی جگہ سے چل کر اس پُرعزم طالب علم کے پاس گئے اوراس کی کمر پر تھپکی دیتے ہوئے شاباش دی۔ کھتری عصمت نے اپنے زمانۂ طالب علمی ہی سے مختلف رسائل میں لکھنے کے ساتھ ساتھ رسالے جاری کرنے کا شوق بھی پورا کیا۔ 14جولائی 1970ء کو اُنھوں نے بچوں کے مقبول رسالے ’ہمدرد نونہال‘ میں ملازمت شروع کی جو 21 ستمبر 2008ء کو اَزخود سبکدوشی کی درخواست پر، مکمل ہوئی۔ حکیم محمد سعید شہید نے اُن سے وعدہ لیا تھا کہ وہ کبھی اُنھیں چھوڑ کر نہیں جائیں گے، مگر کھتری صاحب کو اپنے نجی مسائل کے سبب، یہ ملازمت ترک کرنی پڑی۔ کھتری صاحب متعدد جرائد اور فلاحی تنظیموں سے منسلک رہے۔ انھیں برادری کی کثیرجہتی خدمت کے اعتراف میں ’فخرِ کھتری‘ کا لقب دیا گیا، علاوہ اَزیں انھیں بہت سی تنظیموں اور اداروں نے کئی اعزازات اور ایوارڈز سے نوازا۔ کھتری عصمت علی پٹیل نے اُردو میں پندرہ کتب تصنیف وتالیف کیں، جبکہ گجراتی سے پندرہ کتب کا ترجمہ بھی کیا۔ انھوں نے 1994ء میں منعقد ہونے والی عالمی ادبی کانفرنس میں گجراتی قوم کی نمایندگی کرتے ہوئے ایک مقالہ بعنوان ’قائداعظم کی مادری زبان گجراتی اور اُس کا ادب‘ پیش کرکے دادوتحسین وصول کی اور پھرسابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی خواہش پر، اکادمی ادبیات پاکستان (اسلام آباد) کے لیے پاکستانی گجراتی ادب کا جائزہ بعنوان ’پاکستانی گجراتی ادب: 1947ء تا 2008ء۔ انتخاب ِشاعری وافسانہ‘ بھی مرتب کیا۔ اُن کی دیگر اہم کتب میں ’تاریخِ کھتری‘، ’حیات ِ جاویداں: سَر آدم جی‘ ، ’قائدِ کاٹھیاواڑ، عیسیٰ بھائی میمن : حیات اور کارنامے‘، اور ’تحریکِ پاکستان اور کھتری برادری‘ شامل ہیں۔ کھتری عصمت کے والد کھتری عبد اللّہ حاجی ابراہیم پٹیل، تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور مخیّر سماجی شخصیت تھے۔ کھتری عصمت کے دادا کھتری ابراہیم پٹیل (مقبول کچھّی) نے کچھّی زبان کے شاعر کی حیثیت سے شہرت پائی اور اٹھارہ کتب یادگار چھوڑیں۔ یہاں ایک ضمنی نکتہ عرض کرتا چلوں کہ گجراتی، کچھی، میمنی اور سندھی آپس میں ہم رشتہ ہیں۔ ان کی تشکیل و ارتقاء کا دور بھی، کہیں نہ کہیں قدیم اردو کی بنیاد سے جُڑا ہوا ہے۔ اس باب میں بھی تحقیق کی ضرورت ہے۔ گجراتی زبان کے لیے راقم کی خدمات ہرچند کہ میری مادری وپدری زبان اُردو اور آبائی تعلق ہاپڑ، میرٹھ (ہندوستان) سے ہے، مگر میری سرشت میں ہر زبان سے محبت اور اُس کے فروغ کے لیے حتیٰ المقدور کوشش کرنا شامل ہے۔ مجھے دلی قلق ہے کہ پاکستان سے گجراتی زبان معدوم ہوتی جارہی ہے جو کبھی کراچی اور سندھ بھر میں دوسری بڑی زبان تھی۔ اس زوال کاسب سے بڑا باعث خود اہلِ زبان گجراتیوں کی غفلت، عدم توجہ اور عدم تعاون ہے۔ آج گجراتی کی مطبوعات میں فقط ایک اخبار ’وطن‘ اور اِکّا دُکّا شایع ہونے والی کتب ہیں۔ آپ چاہیں تو اس فہرست میں آغاخانی اور بوہری فرقے کی مذہبی کتب بھی شامل کرلیں، مگر بہرحال صورت حال اطمینان بخش نہیں، خصوصاً ان حقائق کے پیش ِ نظر: ا)۔ گجراتی لکھنے پڑھنے اور بولنے والے اب آٹے میں نمک برابر رہ گئے ہیں۔ ب)۔ اگر کوئی کتابی یا اخباری نوعیت کا کام ہوتو گجراتی کاتب /کمپوزر بھی بصد دِقّت ہاتھ آتا ہے۔ ج)۔ گجراتی زبان کی تعلیم وتدریس تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ د)۔ گجراتی زبان میں ریڈیو کی نشریات تو ہیں، لیکن کوئی ٹیلیوژن چینل کام نہیں کررہا۔ فلم تو سرے سے بنتی ہی نہیں! ’’سقوط ِ جُوناگڑھ‘‘ اور دستاویزی ڈراما: سہیل کی کوشش پاکستان میں آباد گجراتیوں، میمنوں اور دیگر برادریوں کا ایک بڑا حصہ جوناگڑھ سے ہجرت کرکے آیا ہے، خاکسارنے ماضی میں دوتین مرتبہ کوشش کی کہ گجراتی بولنے والوں کے ’بڑوں‘ سے مل کر، ’’سقوط ِ جُوناگڑھ‘‘ کے موضوع پر دستاویزی نوعیت کا ڈراما [Docu-drama] تیار کیا جائے جس کے لیے بندہ بطور محقق ومصنف آمادہ تھا اور ہے، مگر وسائل بہرحال مطلوب ہیں۔ کراچی میں اگر ایک ہی گجراتی سیٹھ (بلاامتیاز ِ مذہب) اس منصوبے کی اہمیت سمجھتے ہوئے کچھ سرمایہ لگانے کو راضی ہو تو بخدا یہ مسئلہ اقوام عالَم کی فوری توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ انتہائی دُکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ جوناگڑھ کے نام لیوا محض 9 نومبر کو ایک تقریب منعقد کرکے اور ایک بیان جاری کرکے اگلے سال تک سُکوت اختیار کرلیتے ہیں۔ {یادرکھنے کی بات یہ ہے کہ تقسیم ہند کے منصوبے کے اعلان کے بعد، 15اگست 1947ء کو، پاکستان سے الحاق کرنے والی سب سے پہلی ریاست جوناگڑھ تھی، البتہ اس کے سقوط اور بھارت کے غاصبانہ قبضے کے بعد صورت حال بدلی تو اَب یہ حقیقت ہے کہ موجودہ پاکستان میں شامل ریاستوں میں سب سے پہلے یہ اقدام بہاول پور نے کیا تھا، یہ 5 اکتوبر1947ء کی بات ہے اور حکومت ِ پاکستان نے اُن کا یہ اقدام 9اکتوبر1947ء کو منظور کیا تھا۔ جوناگڑھ کے بابی پٹھان مسلم حکمراں ’مہاراجا‘ نواب محمد مہابت خانجی سِوُم نے 14ستمبر1947ء کو پاکستان سے الحاق کی دستاویز[Instrument of Accession -IoA] پر دستحظ کیے، جبکہ اگلے ہی دن گورنرجنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اس کی توثیق کی ;کہیں کہیں یہ تاریخ ِ توثیق 16ستمبر بھی درج ہے }۔ راقم نے یہاں تک کہا کہ بغور دیکھا جائے تو مسئلہ جوناگڑھ ، مسئلہ کشمیر سے بھی بڑا ہے کیونکہ کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کے لیے اوّل اوّل انگریز کو جتن کرنے پڑے، پھر ایک عالمی سازش کے تحت، اُس کی (نام نہاد ہی سہی)، الگ اور خودمختار (یا نیم خودمختار) حیثیت ختم کردی گئی، جبکہ جوناگڑھ تو عین ہندوستان میں واقع ہے، انگریزی کا سہارا لیں تو Junagadh is very much in India۔ نواب جوناگڑھ نے بھی پاکستان سے الحاق کی وجہ یہی بتائی تھی کہ ہم آبی راستے سے قدرتی طور پر پاکستان سے جُڑے ہوئے ہیں۔ جوناگڑھ، کراچی سے 300 سمندری مِیل کے فاصلے پر واقع ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حیران کُن تاریخی حقیقت ہے کہ دو ہندو ریاستوں جیسلمیر اور بیکانیر کے زُعَماء نے اَزخود، قائداعظم سے ملاقات میں، پاکستان میں شمولیت کا ارادہ ظاہر کیا تھا جسے قبول نہ کیا گیا۔ ذرا سوچیں کہ اگر راجپوتانہ (موجودہ راجستھان) میں شامل یہ ہندو ریاستیں پاکستان کا حصہ ہوتیں اور ہندو اَکثریت کی ریاست جوناگڑھ بھی تو ہندوستان کبھی پاکستان پر حملے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ (جب نواب جوناگڑھ کی الحاق ِ پاکستان کی دستاویز کی توثیق ہوئی تو جوناگڑھ کے زیرانتظام دو چھوٹی ریاستوں مانگرول اور ببریا واڑ (Babariawad) نے بغاوت کردی جسے کچلنے کے لیے ریاستی فوج حرکت میں آئی، ان میں اوّل الذکر کا حکمراں مسلمان تھا۔ ان دونوں ریاستوں نے بھارت سے الحاق کا اعلان کیاتھا۔ انڈیا نے فوجی طاقت کے بل بُوتے پر اِن دونوں چھوٹی ریاستوں پر تسلط قائم کرلیا۔ دریں اثناء مہاتما گاندھی کے بھتیجے شمل داس گاندھی [Samaldas Gandhi] (1897ء تا 1953ء) نے اپنی عسکری قوت دِکھاتے ہوئے ایک جِلاوطن ’عارضی ‘حکومت قائم کی، ایک سو ساٹھ (160) دیہات پر قبضہ کیا اور 30ستمبر 1947ء تا 8 نومبر1947ء بطور وزیراعظم و وزیرخارجہ حکمراں رہا، (7 نومبر 1947ء کو ریاست جوناگڑھ کے دیوان یعنی وزیراعظم، سَر شاہنواز بھُٹّو کی دعوت ملنے پر) 9 نومبر کو، اِنڈین فوج نے باقاعدہ قبضہ کرتے ہوئے اس ریاست کو آزاد (اُس وقت تک نیم خودمختار برطانوی نَوآبادی) ہندوستان میں شامل کرلیا۔ اس سانحے سے قبل، وہی دیوان، نواب صاحب کو مع اہل ِخانہ کراچی روانگی پر آمادہ کرچکے تھے۔ یہ کمزور روایت بھی ملتی ہے کہ پاکستان میں شمولیت کا مشورہ، دیوان ہی نے نواب کو دیا تھا، مگر میرے نزدیک یہ محلّ نظر ہے کہ ایک ہی شخص پہلے پاکستان اور پھر ہندوستان کے حق میں اپنا اثررسوخ استعمال کرے۔ انڈین فوج کے حملے کے وقت قتل غارت گری ، لوٹ مار اور مسلم عورتوں کی آبروریزی کا المیہ بھی ظہور پذیر ہوا۔ جوناگڑھ کے سانحے کے وقت، ریاست نے حکومت ِ پاکستان سے فوجی امداد کی درخواست کی، مگر کمزور عسکری قوت کے سبب، انھیں انکار کردیا گیا اور مابعد کسی کو کبھی خیال نہ آیا کہ ہم اپنا یہ حصہ بھی بزور واپس لے سکتے ہیں۔ گجراتی زبان میں پاکستانی ٹیلیوژن چینل کا قیام: سہیل کی مساعی ریڈیوپاکستان کی بیرونی نشریات میں گجراتی زبان بھی شامل ہے۔ پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق شام پونے پانچ بجے تا شام سَواپانچ بجے (16:45 to 17:15 PST)گجراتی زبان میں ریڈیو پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ ایف ایم چینلز میں کوئی گجراتی نشریات شروع کرنے کا سوچتا ہے نہ ٹیلیوژن چینل کا۔ میں نے اس ضمن میں چند حضرات سے ملاقات کرکے کسی بھی نوعیت کا گجراتی ٹیلیوژن چینل (یعنی سیٹلائٹ ٹی وی چینل، سیدھا سادہ مقامی ٹی وی چینل، کیبل ٹی وی چینل۔یا۔ویب ٹی وی/یوٹیوب ٹی وی چینل) شروع کرنے کی تجویز پیش کی۔ قارئین کرام یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اس راقم کی کئی بار کوشش کے باوجود، گجراتی سرمایہ دار ہنوز یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر ہم پاکستان کا اوّلین گجراتی ٹیلیوژن چینل قائم کرکے متنوع موضوعات پر نشریات شروع کریں تو یہ اقدام لسانی، تاریخی اور سیاسی اعتبار سے خطّے میں بہت اہم ثابت ہوگا۔ ہندوستان میں گجراتی ٹیلیوژن بہت ترقی یافتہ ہے، مگر ہم ابھی ابتداء بھی نہیں کرسکے۔ مجھے چند ایک بار اُن کے نجی ٹیلیوژن چینل ETVکی گجراتی نشریات بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ اُن کے کارٹون بہت اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں۔ میں ایک مرتبہ پھر، اس تحریر کے ذریعے گجراتی کے مخیّر حضرات کو دعوت دیتا ہوں کہ اس باب میں خاکسار سے رابطہ کرکے اشتراک ِ عمل کی کوئی صورت پیدا کریں۔ سہیل کے کثیر لسانی ادبی جریدے ’ہم رِکاب‘ [The Fellow Rider] میں گجراتی شاعر کی نعت کی شمولیت: ان سطور کے راقم نے اپنے کثیر لسانی ادبی جریدے ’ہم رِکاب‘ ۔The Fellow Riderکے شمارہ دوم (بابت اکتوبر تا دسمبر 2019ء) میں بزرگ گجراتی شاعر جناب یعقوب کلوڈی مُنشیؔ دھوراجوی کی کہی ہوئی ایک نعت مع اردو ترجمہ شایع کی تھی۔ اس نعت کے حصول میں، روزنامہ وطن (گجراتی) کے مدیر جناب ارشاد عرب ساٹی (فرزند ِعثمان عرب ساٹی مرحوم) نے میری مدد کی تھی۔ کچھ تذکرہ گجراتی فلموں کا زبان وادب کے باب میں فلم کا حصہ بھی زیرِبحث لایا جاتا ہے۔ 1932ء میں اوّلین گجراتی فلم ’نرسن مہتا‘‘ (Narsinh Mehta) نمائش کے لیے پیش کی گئی جس کے ہدایت کار مَنو بھائی وکیل تھے۔ اس کے مرکزی کردار، مارُوتی راؤ اور اُوما کانت ڈیسائی نے ادا کیے تھے۔ محض پندرہ دن میں تیار ہونے والی اس فلم پر اُس زمانے میں فقط سترہ ہزار (17,000 ) روپے خرچ ہوئے تھے جو 2023ء میں پانچ اعشاریہ دوملین (5.2 million) ہندوستانی روپے کے برابر تھے۔ پاکستان میں گجراتی فلموں کا دور بہت تاخیر سے شروع ہوا، جب یکم دسمبر 1970ء کو اوّلین گجراتی فلم ’ماں تے ماں‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی ۔ اس فلم کے ہدایت کار اقبال اختر تھے، جبکہ نمایاں اداکاروں میں صوفیہ بانو، شائستہ قیصر اور آغا سجاد شامل تھے۔ آغا سجاد نے 1990ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلیوژن کے ڈراموں میں کام کیا اور اپنی بیٹی سمن آغا کو بھی اسی شعبے میں متعارف کروایا۔ خاکسار نے بطور ٹیلیوژن مصنف ومحقق کام کرتے ہوئے چند ایک بار، کراچی مرکز میں، ان سے اتفاقیہ ملاقات کی;بڑھاپے میں بھی بہت وجیہ وشکیل تھے۔ فلم کی کاسٹ میں ریڈیو، ٹی وی اور اسٹیج کے نامور فن کار سبحانی بایونس بھی شامل تھے۔ 1970ء میں ہندوستان سے تین گجراتی فلمیں ’جگر اَنے امی‘ (Jigar ane Ami)، ’ویلین اَویا پھول‘(Veline Avya Phool ) اور’ دھرتی نا چھورو‘ (Dharati Na Chhoru) نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ ہندوستان میں آج بھی گجراتی فلمیں بن رہی ہیں، مگر ہمارے یہاں اس جہت میں مکمل سنّاٹا ہے۔ قارئین کرام اردو اور گجراتی کے لسانی تعلق واشتراک کے وسیع باب کو سلسلہ زباں فہمی کی چار اقساط میں سمونا تقریباً ناممکن تھا، مگر خاکسار نے اپنی سی کوشش کی، اِس ضمن میں گجراتی احباب کا تعاون بھی برائے نام رہا، ماسوائے کھتری عصمت علی پٹیل صاحب کے;بہرحال اس موضوع کی کئی جہتوں پر مواد کی فراہمی اور مزید تحقیق لاز م ہے۔ (ختم شد)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل