Loading
اس وقت وطن عزیز میں فتنہ الخوارج کی ریشہ روانیاں عروج پر ہیں۔ دو صوبوں میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات تسلسل کے ساتھ ہورہے ہیں۔ فتنہ الخوارج کے خلاف ہماری سیکیورٹی فورسز ایک مضبوط دیوار بنے ہوئے سامنے کھڑے ہیں اور فوجی جوان شہادت کا رتبہ بھی پا رہے ہیں۔دہشت گردی کی یہ کوئی نئی لہر نہیں ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ ہمارے ہمسائے افغانستان میں جاری جنگوں نے پاکستان میں دہشت گردی کی بنیاد رکھی اور وہ گروہ جو افغانستان کی جنگ میں پاکستان کی بالواسطہ خدمات اورمداخلت کے مخالف تھے، انھی گروہوں نے پاکستان کو دہشت گردی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ،پاکستان کے لاکھوں افراد دہشت گردی کی اس عفریت کا سامنا کر چکے ہیں ۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کی لہر نے سیکیورٹی فورسز کو آزمائش میں ڈال رکھاہے۔ بلوچستان کے نام نہاد علیحدگی پسند گروہ کے دہشت گردوں نے ٹرین کو روک کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ جب چاہئیں جہاں چاہئیں دہشت گردی کی کارروائی کر سکتے ہیں لیکن ہماری افواج نے بروقت کاروائی کر کے اس کا جواب دیا اور حملہ آور تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا لیکن دہشت گردی کی بڑھتی کاروائیاں ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ ایک طویل عرصے کے بعد دہشت گردی نے سر اٹھایا ہے اور اس کا آغاز انھی دو صوبوں میں ہوا ہے جو پہلے بھی دہشت گردی کا شکار رہے ہیں۔ اب تو افغانستان میں بھی کوئی جنگ نہیں ہور ہی اور طالبان اپنی حکومت کی مضبوطی کے لیے دن رات دعوے کر رہے ہیں۔ ادھر امریکی فوجوں نے انخلا کے وقت اربوں ڈالر کا جو جدیداسلحہ افغانستان میں چھوڑا ہے، وہی اسلحہ اب اس دہشت گردی میں استعمال ہو رہا ہے اور پاکستان اس کا نشانہ ہے۔پاکستانی فیصلہ سازوں سے کہاں پر غلطی ہورہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان مخالف عناصر کو ایک پھر پنپنے کا موقع مل رہا ہے ۔ ہمارے فیصلہ ساز یہ بات ضرور ذہن نشین رکھیں کہ آپ کا جماندرو دشمن بھارت کوئی ایسا موقع نہیں جانے دیتا جس میں وہ پاکستان کو زک پہنچا سکے ۔ ہماری سیکیورٹی ایجنسیز کی توانائیاں اس دہشت گردی کے سدباب میں صرف ہو رہی ہیں جس میں وہ جانوں کے نذرانے بھی پیش کر رہے ہیں ۔ ریاست مخالف شر پسند عناصر کو کچلنے کے لیے ایک مشترکہ قومی لائحہ عمل مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے جس میں ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی مفاد کو ترجیح دی جانی چاہیے ۔ ریاست کے تمام ستونوں بشمول ملک کے سرکردہ سیاسی رہنماؤں اور خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی تمام سیاسی پارٹیوں کو قومی دھارے میں لا کر اس اہم ترین مقصد کے حصول میں شامل کریں۔ پاکستان کی سلامتی کو کوئی خطرات لاحق نہیں ہیں لیکن ملکی معیشت کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال قابو میں رہے تا کہ اگر کوئی غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اس کو سرمایہ کاری کے لیے ایک محفوظ ماحول میسر آئے۔ حکومت نے ملکی معیشت کو اٹھانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں ان کے حقیقی ثمرات ابھی تک عوام تک نہیں پہنچ سکے۔ غربت اور مہنگائی میں کمی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ رمضان کے مقدس مہینے میں بھی مہنگائی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ مرغی کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جب کہ چینی جس کی قیمتوں کا ہمیشہ شہرہ رہا ہے ایک بار پھر خبروں کی زد میں ہے ، مزے کی بات یہ ہے کہ گزشتہ کرشنگ سیزن میں حکومت نے چینی کے کارخانہ داروں کو خود ہی اس بات کی اجازت دے دی تھی کہ وہ چینی بیرون ملک فروخت کر دیں کیونکہ ان کارخانہ داروں نے حکومت کو یقین دلایا تھا کہ ملکی ضروریات کے مطابق چینی کی وافر مقدار ملک میں موجود رہے گی اور وہ صرف فالتو چینی بیرون ملک فروخت کر رہے ہیں ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہر طرف سے ہائے مہنگی چینی کی پکار سنائی دے رہی ہے اور یہی کارخانہ دار ڈھٹائی سے ملکی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے چینی کی درآمد پر زور دے رہے ہیں۔ شوگر گروپ پہلی حکومت میں بھی شامل تھا اور موجود حکومت کا حصہ بھی ہے۔ اور چینی کا بحران سر پر ہے، اس پر مزید تبصرے کی گنجائش نہیں ہے کہ عوام اب بہت عقل مند ہو چکے ہیں اور وہ ان لوگوں کو پہچان گئے جو عوام کے استحصال کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ صوبہ پنجاب میں مریم نواز کی حکومت عوام کی خدمت کے لیے کام کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن شاید ہماری خاتون وزیر اعلیٰ کو بھی مہنگی چینی کے متعلق کسی نے آگاہی نہیں دی ۔ اب یہ حکمرانوں پر منحصر ہے کہ وہ اس صورتحال سے کیسے نبرد آزماء ہوتے ہیں یا پھر وہ بھی ڈنگ ٹپاؤ والا معاملہ ہی رکھتے ہیں کہ آج اگر وہ کسی کے دست شفقت کی وجہ سے تاج سجائے ہوئے ہیں تو وہ عوام کے مصائب سے پہلوتی کر سکتے ہیں مگرحکمرانی تلوار کی دھار پر چلنے کا نام ہے اور اس کا حساب دنیا میں بھی دینا ہوگا اور آخرت میں بھی ۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل