Wednesday, March 19, 2025
 

سندھ کی ترقی اور غربت

 



جے میتا Gemitaاور نیب زیپیک Nap Xepac انجکشن کینسر کے خطرناک مرض کو روکنے کے لیے مریض کو دی جاتی ہیں۔ یہ ادویات کیموتھراپی کے عمل کے ذریعے مریض کے جسم میں داخل کی جاتی ہیں۔ کینسر کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کینسر کے مریض کے لیے کیموتھراپی لازمی ہوتی ہے اور جب کیموتھراپی کا عمل شروع ہو جاتا ہے تو اس میں وقفہ آجائے یا کیموتھراپی کو روک دیا جائے تو سارا عمل بے کار ثابت ہوجاتا ہے۔ بازار میں ان ادویات کی قیمت ایک لاکھ روپے کے قریب ہے، اگرکوئی مریض یا اس کے لواحقین کا رابطہ کسی طرح ان ادویات بنانے والی کمپنی کے کسی فرد سے ہوجائے توکینسر کا ڈاکٹر میزبانی کرے تو یہ ادویات 75 ہزار روپے میں دستیاب ہوتی ہیں اور کیموتھراپی کے کم سے کم 10سیشن ہوتے ہیں۔  حکومت سندھ نے جب سے کراچی کے قدیم جناح اسپتال کو اپنی تحویل میں لیا ہے جناح اسپتال کا کینسر وارڈ صاحبِ ثروت افراد کے عطیات کی بناء پر اسٹیٹ آف آرٹ وارڈ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اس وارڈ میں علاج کے لیے جدید ترین مشینیں موجود ہیں مگر مریضوں کو کیموتھراپی کے لیے بازار سے ادویات خرید کر لانی پڑتی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں عموماً نچلے اور نچلے متوسط طبقے کے افراد آتے ہیں۔ ان کے لیے یہ مہنگی ادویات خریدنا ایک بہت بڑا کا مسئلہ ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی ایک سالہ کارکردگی پر ایک پریزنٹیشن دی گئی۔ یہ ایک اچھی کوشش ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت نے ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے ذریعے انفرا اسٹرکچر اور زراعت کے میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنی پریزنٹیشن میں ای سسٹم کے نفاذ سمیت صحت ، تعلیم، آئی ٹی، واٹر مینیجمنٹ، زراعت،گورننس اصلاحات کے حوالے سے اہم اقدامات پر روشنی ڈالی ہے۔ حکومت سندھ نے زراعت کے شعبے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے واٹر مینیجمنٹ کو بہتر کرنے کا دعویٰ کیا ہے مگر اخبارات کی فائلیں گواہ ہیں کہ ٹھٹھہ، بدین اور عمرکوٹ میں ٹیل کے زمینداروں کو مسلسل یہ شکایات ہیں کہ ان کے علاقے میں پانی پہنچتا نہیں ہے۔ جن زمینداروں کی زمینیں نہروں کے ابتدائی حصے میں واقع ہیں، ان کی زمینوں کو پانی مل جاتا ہے۔ یہ بھی رپورٹیں ہیں کہ دریائے سندھ کے قریب شہروں میں بھی پانی کی قلت ہے۔ اس کی ایک وجہ تو سندھ میں پانی کی کمی ہے تو دوسری طرف دریائے سندھ اور نہروں سے ہر سال مٹی نکالنے کا کام نہ ہونا بھی پانی کی کمی کی وجہ قرارد یا جاتا ہے۔ سندھ کی حکومت نے زراعت کے لیے پانی استعمال کرنے کے جدید ترین طریقوں کو رائج کرنے پر توجہ نہیں دی۔ اگر یہ جدید ترین طریقے رائج کیے جائیں تو پانی کی کمی کے باوجود بھی اچھی فصلیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ چند ماہ قبل ایک انگریزی معاصر میں ایک ماہر زراعت نے سندھ میں پیدا ہونے والی فصلوں کی پیداوار سندھ کی سرحد سے منسلک بھارت کی ریاست راجھستان کی فصلوں کی پیداوار کی شرح کا موازنہ کیا ہے۔ اس موازنے سے ظاہر ہورہا ہے کہ گندم، چاول اور دوسری فصلوں کی سندھ میں فی ایکڑ پیداوار راجھستان میں سے کم ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت سندھ کا محکمہ زراعت ہاریوں اور زمینداروں کو جدید طریقوں سے مانوس کرانے میں ناکام ہے۔ اس رپورٹ میں شعبہ تعلیم میں کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے مگر سندھ میں اب بھی 3.63 ملین بچے اسکول نہیں جاتے اور محض اسکول نہ جانے والے بچوں کی بڑی تعداد کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔ ان اسکول نہ جانے والے بچوں میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ عجیب بات ہے کہ اب بھی تعلیم کے لیے امداد دینے والے عالمی ادارے گھوسٹ اسکولوں کی موجودگی کا ضرور ذکرکرتے ہیں ۔ USAID کی مدد سے اندرونِ سندھ تعلیم کے کئی منصوبے بنے تھے۔ ایک امریکی سینیٹر نے صدر ٹرمپ کے یو ایس ایڈ کو بند کرنے کے فیصلہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں یو ایس ایڈ کے کروڑوں ڈالر خرچ ہونے کے باوجود گھوسٹ اسکولوں کی موجودگی کا مطلب کرپشن ہے۔ بہرحال سندھ کے تمام تعلیمی بورڈ جو میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کا انعقاد کرتے ہیں، مسلسل اسکینڈلزکی زد میں رہتے ہیں۔ ابھی گزشتہ ماہ تک چھ بورڈز کے چیئرمین کا تقرر ایک سال کے قریب عرصہ سے رکا ہوا تھا۔ تعلیمی شعبے کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ صرف کراچی بورڈ کے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے نتائج مشکوک ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ سال انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے نتائج ایک سیاسی تنازع بن گیا ہے۔ اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ میں تو یہ انکشاف کیا گیا کہ فرسٹ ایئر کے مختلف مضامین کی خاصی امتحانی کاپیاں چیک نہیں کی گئی تھیں۔ اس رپورٹ میں اندرونِ سندھ ہونے والے صنعتی ترقی کا ذکر نہیں ہے۔ سندھ کی حکومت شعوری طور پر اندرونِ سندھ شہروں میں صنعتی ترقی کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتی جس کے نتیجے میں بے روزگاری عام ہے اور اندرونِ سندھ شہروں کے نوجوان بڑے شہروں میں منتقل ہو کر ملازمتیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان نوجوانوں کا سارا زور سرکاری ملازمتوں کے حصول پر ہوتا ہے، اگر اندرونِ سندھ زرعی مصنوعات کے علاوہ دیگر بنیادی پروڈکٹ کے کارخانے لگائے جائیں تو ترقی کا عمل تیز تر ہوجائے گا۔ وزیر اعلیٰ کی اس پریزنٹیشن میں صحت کے لیے بھی بڑے پیمانہ پر اسپتالوں کو دی جانے والی گرانٹ کا ذکر کیا گیا ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ سندھ میں بین الاقوامی معیار کے 9 ایمرجنسی سینٹر اور 106 ٹیلی میڈیسن مراکز قائم کیے گئے ہیں اور حکومت کی کوششوں کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں اور صوبہ میں بچوں کی اموات کی شرح 5.4 فیصد سے کم ہو کر 2.9 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت سندھ کا یہ اہم کارنامہ ہے مگر لاڑکانہ ضلع کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاڑکانہ اور اطراف کے اضلاع میں ایڈز کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اسی طرح ہیپاٹائیٹس Bاور C نے ایک خطرناک صورت اختیار کرلی ہے۔ ایڈز کے مرض پھیلنے کی وجہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر D.H.O کے ادارہ کا کمزور ہونا ہے، اگر ڈی ایچ او اپنے ضلع میں ڈاکٹروں ، نرسوں ، کمپوڈر اور حجام کی دکانوں وغیرہ کی سنجیدگی سے نگرانی کا فریضہ انجام دے تو یہ امراض رک سکتے ہیں۔  سندھ میں کتے کے کاٹنے کا مرض خطرناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو ماہ میں کتے کے کاٹنے سے صرف کراچی کے تین اسپتالوں میں چھ مریض ہلاک ہوئے۔ اس رپورٹ میں مزید یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صرف کراچی کے انڈس اسپتال میں گزشتہ سال کتے کے کاٹنے کے پندرہ ہزار مریض آئے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اندرونِ سندھ اسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔  کراچی شہر کے آدھے سے زیادہ مکینوں کے گھروں میں نلوں سے پانی نہیں آتا۔ صاف پانی اور گندے پانی کی نکاس جیسے بنیادی اقدامات سے بہت سے امراض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس رپورٹ میں سندھ میں غربت کی خط کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد کا ذکر نہیں کیا گیا۔ خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے کی سندھ میں شرح 40.3 فیصد ہے۔ جب تک غربت کم نہیں ہوتی، ترقی کا حقیقی مفہوم عملی شکل اختیار نہیں کرسکتا۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل