Wednesday, March 19, 2025
 

بلوچستان… محرکات اور حل

 



ملک کو عدمِ استحکام کا شکار کیا جارہا ہے، دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں، ہر روز جیّد علمائے کرام اور سیکیوریٹی اہلکار شہید کیے جارہے ہیں اور عوام سمجھتے ہیں کہ حکمران صرف حکمرانی کے مزے لے رہے ہیں، چند روایتی بیانات کے سوا کچھ نہیں کیا جارہا۔ بلوچستان کی عظیم محب وطن شخصیّت میر جعفر خان جمالی کے نام سے موسوم جعفر ایکسپریس پر حملے اور بے گناہ انسانوں کی ہلاکتوں سے دل دکھی اور مضطرب ہے۔ نہتّے مسافروں کے ساتھ روا رکھی جانے والی درندگی جتنی قابلِ نفرت اور قابلِ مذمّت ہے، کچھ بدبختوں کی جانب سے اس درندگی کو glorify کرنے کی مذموم حرکت بھی اتنی ہی قابلِ مذمّت ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں وطن کی دھرتی کو مادرِوطن کہا جاتا ہے یعنی ملک کا تقدس ماں کے تقدس کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی غنڈہ یا بدمعاش کسی کی ماں کو گالی دے یا اس کو بے توقیر کرے اور اس کا کوئی بیٹا اس غنڈے کی تعریف کرنا شروع کردے تو ہر شخص اس بیٹے کو بے غیرت اور بدبخت قرار دے گا اور اس کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرے گا، یہ اس سانحے کا ایک پہلو ہے، دوسرا یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بہت اچھا ہوا۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ سیکیوریٹی فورسز خاص طور پر آرمی کے کمانڈوز اور سنائپرز نے بڑی مہارت اور بہادری کے ساتھ آپریشن کیا جس کے نتیجے میں یرغمالی جانیں بچانے میں کامیاب ہوئے اور بہت سے دہشت گرد مارے گئے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ اس نوعیّت کے کسی بھی چیلنج سے نپٹنے کے لیے قوم نے جب بھی فوج کو پکارا ہے فوج کے ڈسپلنڈ، ٹرینڈ، بہادر اور بے خوف جوان اور افسر فوراً پہنچے ہیں، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آرمی نے پیشہ ورانہ مہارت اور جرات کا مظاہرہ کیا اور توّقع سے کم وقت میں دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر حالات پر قابو پالیا، جو قابلِ تحسین ہے۔ مگر اس کے کچھ پہلو اور بھی ہیں۔ Intelligence Failure کا جتنا بھی دفاع کیا جائے مگر اس ناکامی کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ دہشت گرد اتنے بڑے آپریشن کی منصوبہ بندی کرتے رہے مگر کسی کو خبر نہ ہوسکی۔ اس کی ضرور انکوائری ہونی چاہیے۔ د ہشت گردوں کو اندر سے جو معلومات فراہم کی گئیں، اس کا ذمے دار کون ہے؟ اسے بھی کیفرِ کردار تک پہچایا جائے۔ مجھے پچھلے کچھ سالوں میں بارہا بلوچستان جانے کا موقع ملا ہے۔ 2013سے 2020تک وہاں حالات بہت بہتر تھے اور ہر سطح پر یہ تاثر نمایاں تھا کہ علیحدگی پسند عناصر عددی لحاظ سے بہت تھوڑے اور کمزور ہوگئے ہیں اور نئی ریکروٹمنٹ کے لیے بلوچ نوجوان ان کے ساتھ ملنے کے لیے تیّار نہیں۔ پھر یہ کیسے ہوا کہ ان کے لیے عوام کی ناپسندیدگی اب کسی حد تک ہمدردی میں تبدیل ہوگئی، اور اب نوجوان پھر ان کی جانب راغب ہونے لگے۔ ایسا کیوں ہوا ہے؟ اس کا کون ذمّے دار ہے۔ بلوچ نوجوانوں کی ریاست سے دوری ایک بڑی وجہ تو missing persons کا معاملہ ہے، مگر کئی بلوچ لیڈر میڈیا پر کھل کر کہتے ہیں کہ ’’دہشت گردی سے زیادہ معاملہ کرپشن اور بری گورننس کا بھی ہے۔ بلوچستان میں تعینات مختلف اداروں کے افراد پیسہ بنانے میں مگن ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام میرٹ اور انصاف سے محروم ہیں، ہر سطح پر بدانتظامی ہے جس کے خطرات نتائج ظاہر ہونے لگے ہیں، بدانتظامی اور کرپشن کا فوری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ریاست عوام کا اعتماد کھو دیتی ہے۔ عوام، ریاست سے کٹ جاتے ہیں اور ان میں کچھ دہشت گردوں یا علیحدگی پسندوں کی جھولی میں جاگرتے ہیں۔ بلوچستان میں خارجی محرّکات کا کردار سب سے اہم ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ بی ایل اے کو پیسہ اور اسلحہ بھارت کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کے اندر آکر دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے اور اپنے اہداف کو قتل کرنے میں بھارت کا مجرمانہ کردار بالکل واضح ہے۔ چند روز پہلے بھی اس نے اپنے کارندوں کے ذریعے اپنے اہداف کو جہلم کے قریب قتل کرا یا تاہم اس کی تصدیق نہیں ہے۔ اس سے پہلے وہ پاکستانی حدود کے اندر آکر متعدد افراد کو قتل کرا چکا ہے۔ اگر پاکستان نے ایسا کیا ہوتا تو بھارت نے پوری دنیا میں شور مچا کر پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہوتا اور ہم ہر جگہ اپنی صفائیاں دینے کی کوشش کررہے ہوتے۔ انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور فارن آفس بھارت کی دہشت گردانہ کاروائیوں کو عالمی فورمز پر اجاگر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اب بھی بھارت کا کھل کر ذکر نہیں کیا جارہا، حکومت کی یہ پالیسی ناقابلِ فہم ہے۔ داخلی محرّکات میں لاپتہ افرا د اور سرکاری اہلکاروں کا توہین آمیز روّیہ بلوچ نوجوانوں کی alienation کی بڑی وجہ ہے، اس کے علاوہ 26 اگست 2006 کو، پاکستان کے آئین کے ساتھ ہمیشہ وفادار رہنے والے نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت نے ناراض گروپوں کو ایک شہید فراہم کردیا جس سے علحدگی پسندوں کی نیم مردہ تحریک کو نئی زندگی مل گئی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جنرل مشرّف کی پالیسیوں نے جوآگ لگائی تھی اس کے شعلوں نے بہت سے قیمتی اثاثوں کو بھسم کردیا ہے۔ تیسری اہم وجہ سیاسی حقوق سے محرومی ہے۔ بلوچ عوام کا یہ گلہ بجا ہے کہ وہاں ن کے حقیقی نمایندوں پر مشتمل حکومت نہیں بننے دی جاتی۔ بلوچستان سے تعلّق رکھنے والے وہ ممبرانِ اسمبلی اور سینیٹرز جو علیحدگی پسندوں کی کھل کر مذمّت کرتے ہیں، وہ بھی میڈیا پر بڑے واضح انداز میں الزام لگاتے ہیں کہ بلوچستان میں سرکاری افسران کرپشن میں ملوّث ہیں، چونکہ پیسہ بنانا ہی ان کی ترجیحِ اوّل ہے اس لیے ان کے اقدامات نیک نیّتی اور اخلاص سے خالی ہیں، جن کی وجہ سے حالات کے بگاڑ میں بہت اضافہ ہوا ہے، ان کے بقول اسمبلی کی نشستیں اور وزارتیں بیچی جاتی ہیں، گوادر کے مقبول اور درویش صفت راہنما مولانا ہدایت الرّحمن جو اقبالؒکے اس شعر کی مجسّم تصویر ہیں کہ  ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق اور جو بلاخوف وعناد ہر جگہ سچ بولتے ہیں۔ عوام کے اس حقیقی نمایندے (جو ملک سے محبت کرتا اور دہشت گردوں کی مذمت کرتا ہے) کو ہتھکڑیاں لگا کر تذلیل کی گئی جو قابلِ مذمّت تھی۔ اب حالیہ سانحے کے بعد وزیراعظم نے کوئٹہ کا دورہ کیا تو دوسرے ایم پی ایز کے ساتھ میٹنگ کی، مگر مولانا ہدایت الرحمن کو باہر رکھا گیا۔ یہ پالیسی پاکستان اور بلوچستان کے لیے نقصان دہ ہے۔ اب مسئلے کے حل کی جانب آتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ جعفر ایکپریس کے واقعے کے بعد ریاست کو زبردست آپریشن کرکے اپنی برتری قائم کرنا ہوگی۔ گوریلا کاروائیاں تو کسی بھی ملک میں کی جاسکتی ہیں، اس لیے اختر مینگل کی ٹویٹ کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر ریاست کو بلوچستان میں بڑا منّظم اور موثر آپریشن کرکے اپنی کمزوری کا تاثر زائل کرنا ہوگا۔ میاں نواز شریف ایک بڑی پارٹی کے صدر اور سب سے سینئر سیاستدان ہیں، لاہور کی پرانی عمارتوں کی بحالی ان کا کام نہیں، ملک کے دو صوبوں میں آگ لگی ہے۔ اس آگ کو بجھانے اور ملک کو امن اور استحکام سے ہمکنار کرنے کے لیے انھیں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے، میں پھر کہوں گا کہ 2014کی طرح میاں صاحب ملک کی تمام سیاسی قیادت کو بلا کر ایک میز پر بٹھائیں ان کے ساتھ آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، محمود اچکزئی، ڈاکٹر مالک بلوچ اور ہدایت الرحمن بھی بیٹھے ہوں اور کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کریں۔ بلوچستان میں سرکاری اداروں کے سربراہ ایسے لوگ مقرر کیے جائیں جو باصلاحیّت، معاملہ فہم اور جراتمند ہوں۔ جن کے کردار پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے، گورننس بہتر کی جائے، سرکاری دفتروں میں میرٹ او ر انصاف نظر آئے اور عام آدمی کو عزّت اور احترام دیا جائے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کوئٹہ جاکر مولانا ہدایت الرحمن اور جے یو آئی کے مشران سے اور سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر مالک اور نوابزادہ زہری سے علیحدہ علیحدہ میٹنگیں کریں جس میں اور کوئی شخص شامل نہ ہو اور مسئلے کی تشخیص کے لیے ان سے رائے اور مشورے لیں۔ بلوچستان کے حقیقی نمایندوں سے مشاورت کے بعد بلوچستان میں short term اور long term پالیسیاں بنائی جائیں۔ انٹیلی جنس کی ناکامیوں پر قابو پایا جائے۔ سب سے موثر ذریعہ Human intelligence ہے۔ اس سلسلے میں پولیس سے مدد لی جائے اور ہر شہر میں ریاست کے حامیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ گوادر، پنجگور اور تُربت وغیرہ میں امن وامان کے بارے میں پولیس افسران اور عسکری کمانڈرز باہمی مشاورت سے پالیسی تشکیل دیں۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پالیسی کی سمت ایک ہونی چاہیے۔ اور اتھارٹی اور کمانڈ بھی ایک ہونی چاہیے۔ مختلف اور متحارب پالیسیوں کا تاثر ختم ہونا چاہیے۔ ریاست کے حامی عناصر کے نوجوانوں کو عسکری اداروں میں بھرتی کیا جائے۔اس کے علاوہ آٹھ سے دس ہزار بلوچ نوجوانوں کو سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں نوکریاں دی جائیں۔ بلوچستان کے حقیقی نمایندوں کو حکومت میں اور فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کیا جائے۔ بلوچستان میں پنجاب لیول کا سی ٹی ڈی قائم کیا جائے اور انھیں جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح کیا جائے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل