Wednesday, March 19, 2025
 

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا مسئلہ

 



پنجاب حکومت نے اپنی ایک سالہ کارکردگی میں دیگر محکموں کی کارکردگی سے عوام کو آگاہ کیا گیا ہے لیکن بلدیاتی اداروں کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ پنجاب میں بلدیاتی ادارے سرکاری افسروں کی سربراہی میں چل رہے ہیں۔ 2015 میں پنجاب میں بھی دیگر صوبوں کی طرح سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات کرائے گئے تھے، اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی مگر پنجاب کے منتخب نمایندوں کی حلف برداری دیر سے ہوئی تھی ۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں نے دو تہائی سے بھی زیادہ کامیابی حاصل کی تھی اور تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو برائے نام کامیابی ملی تھی۔2017 میں پنجاب کے بلدیاتی ادارے مکمل طور فعال ہوئے تھے اور لاہور سمیت پنجاب کے بڑے شہروں کی میونسپل کارپوریشنوں میں مسلم لیگ (ن) کے لارڈ میئر اور میئرز منتخب ہوئے تھے جن کو چارج سنبھالے ایک سال ہوا تھا کہ 2018 کے عام انتخابات آ گئے جن کے دوران پی ٹی آئی کے اعتراضات پر بلدیاتی اداروں پر الیکشن کمیشن نے کچھ پابندیاں بھی عائد کی تھیں۔ 2018 کے الیکشن میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے سب سے زیادہ نشستیں لی تھیں مگر اس کی حکومت نہیں بننے دی گئی تھی اور وفاق کی طرح پنجاب میں بھی اتحادیوں کے ذریعے ہی پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی گئی تھی جس نے آتے ہی بلدیاتی عہدیداروں پر متعدد پابندیاں لگا دی تھیں اور ترقیاتی فنڈز کے استعمال پر پابندی لگا کر ان کے اختیارات محدود کر دیے گئے تھے جس کی وجہ سے پنجاب کے بلدیاتی عہدیدار کوئی کام نہ کر سکے تھے اور کچھ عرصے بعد پنجاب کی پی ٹی آئی حکومت نے مسلم لیگ (ن) سے انتقام لینے کے لیے پنجاب کے بلدیاتی ادارے توڑ دیے تھے اور (ن) لیگی عہدیداروں کو ہٹا کر ان کی جگہ ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیے تھے۔ پنجاب واحد صوبہ تھا جس کے بلدیاتی ادارے توڑے گئے تھے جب کہ کے پی، سندھ اور بلوچستان کے منتخب بلدیاتی اداروں نے اپنی مدت پوری کی تھی۔ملک کے آئین میں بلدیاتی اداروں کا قیام ضروری قرار دیا گیا ہے جس کے تحت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہے اور بلدیاتی اداروں کو آئین کے تحت اختیارات بھی ملنے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے فوجی صدر ہوتے ہوئے ملک کو ضلعی حکومتوں کی شکل میں ایک بااختیار بلدیاتی نظام دیا تھا جس میں بلدیاتی عہدیدار سرکاری افسروں اور محکمہ بلدیات کے محتاج نہیں تھے اور منتخب ناظمین کو ضلعی حکومتوں میں مکمل مالی اور انتظامی اختیارات حاصل تھے اور ماضی میں ضلعی حکومتوں جیسا بااختیار بلدیاتی نظام کسی نے نہیں دیا تھا۔ 2008 میں پنجاب میں پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی تھی اور 2013 میں نواز شریف وزیر اعظم بنے تھے مگر 2008 میں پنجاب اور سندھ میں ضلعی حکومتوں کا نظام ہی لپیٹ دیا تھا اور دونوں صوبوں میں 1979 کا بے اختیار بلدیاتی نظام بحال کرکے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے شروع کر دیے تھے جو آئینی طور پر بلدیاتی اداروں کا حق ہے جو ان کے بجائے ارکان اسمبلی کو نوازنے کے لیے انھیں دیے جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی وفاقی اور پنجاب حکومت نے مسلم لیگ (ن) کی دشمنی میں پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو کام نہیں کرنے دیا تھا اور بلدیاتی ادارے توڑ دیے تھے جس کے خلاف پنجاب کے بلدیاتی عہدیداروں نے لارڈ میئر لاہور کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں سالوں بعد بھی بلدیاتی ادارے بحال نہیں کیے گئے، جس کے خلاف وہ سپریم کورٹ گئے جس پر پنجاب کے بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم دیا تھا مگر پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے بحال نہیں کیے تھے جس کے خلاف وہ پھر سپریم کورٹ گئے جہاں فیصلہ اتنی تاخیر سے آیا جب ان کی مدت پوری ہونے والی تھی۔ پی ٹی آئی پر مہربان عدلیہ نے (ن) لیگی بلدیاتی عہدیداروں کے حق میں دیر سے فیصلہ دیا بزدار حکومت کے خلاف غیر قانونی طور بلدیاتی ادارے توڑنے پر کارروائی ہونی چاہیے تھی جس کے بعد حمزہ اور پرویز الٰہی کی حکومتوں نے بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے اور اب ایک سال سے مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں لیکن تاحال پنجاب میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے ہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل