Loading
بھارت میں مودی سرکار کے دور میں مسلمانوں کو امتیازی سلوک، نفرت انگیز مہم اور معاشی بائیکاٹ کا سامنا ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کے کاروبار کو تباہ کرنے کے لیے جھوٹے الزامات اور سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے کا سہارا لے لیا ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق، ہندو انتہا پسند گروہ مسلسل مسلمانوں کے کاروبار اور روزگار کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ مسلم دکانداروں، ہوٹل مالکان اور سبزی فروشوں کے خلاف بے بنیاد دعوے کیے جا رہے ہیں کہ وہ کھانوں میں گائے کا گوشت، پیشاب اور تھوک کی ملاوٹ کرتے ہیں۔ ہندو تنظیمیں مسلمانوں کو دکانیں کرائے پر نہ دینے کے مطالبات کر رہی ہیں۔ اترپردیش، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں سبزی فروشوں اور چھوٹے دکانداروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کئی ذبح خانے غیر قانونی قرار دے کر بند کر دیے گئے ہیں، جس سے ہزاروں مسلمان بے روزگار ہو گئے ہیں۔ اترپردیش میں ایک ہوٹل مالک وسیم احمد نے بتایا کہ پروپیگنڈے کے باعث ان کا ہوٹل ویران ہو چکا ہے اور کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ہندو مذہبی رہنما بھی اس مہم میں پیش پیش ہیں، سوامی یشویت مہاراج نے کہا کہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے ہوٹلوں سے کھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت مسلمانوں کو سماجی اور اقتصادی طور پر بے دخل کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل