Loading
ڈپٹی رجسٹرار کے خلاف از خود توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ عمران خان ملاقات کیسز منتقلی ہائیکورٹ جج نے نہ کی ہوتی تو یہ کریمنل توہینِ عدالت ہوتی۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے اسفسار کیا کہ کیا اس کو نمبر لگ گیا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کل عدالت نے دل کی باتیں کیں اور ہم نے سنیں، آج مجھے موقع دیں میں بھی دل کی باتیں کر لوں، ایک ہی سوال ہے کیا مشعال یوسفزئی بانی پی ٹی آئی کی وکیل ہیں یا نہیں، اس سوال سے یہ ساری صورتحال پیدا ہوئی ہے، بانی پی ٹی آئی کے فوکل پرسن نیاز اللہ نیازی نے خود بیان دیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ آیا ایک بینچ سے کیس اس طرح منتقل ہو سکتا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے دلائل میں کہا کہ کل آپ نے کہا کہ میں انصاف نہیں دے سکتا تو مجھے بیٹھنا نہیں چاہیے، مجھے بھی آج دل کی بات کرنے دیں، نیاز اللہ نیازی خود عدالت میں موجود تھے انہیں خود عدالت کو بتانا چاہیے تھا، نیاز اللہ نیازی نے خود کہا کہ مشعال یوسفزئی ہماری وکیل نہیں ہیں، عدالت سے استدعا ہے نیازی صاحب کو عدالت میں بلا کر پوچھ لیں۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ یہ بات اتنی سادہ ہی ہے تو کمیشن کو اس لیے تو بھیجا تھا، بانی پی ٹی آئی نے کہہ دینا تھا وہ میری وکیل نہیں، مشعال گئی لیکن آپ نے ملنے نہیں دیا، آپ روک روک کر یہاں تک لے آئے کہ لا کلرک کو ڈیڑھ گھنٹہ بٹھائے رکھا، تین سیکنڈ کی بات تھی آپ نے لا کلرک کو تین گھنٹے بٹھائے رکھا۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ ایک وکیل کہتا ہے میں وکیل ہوں عدالت اس کی بات رد نہیں کر سکتی، جب دوسری طرف سے آتا ہے کہ وکیل نہیں تو پھر عدالت ملزم سے پوچھے گی۔ آپ مجھے بتائیں بطور جج میں کیا کرتا؟ میں کسی وجہ سے توہین عدالت چلا رہا ہوں تاکہ ہم سیکھیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اس کیس میں 37 کیسز زیر التواء ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ دس ہزار کیس بھی ہوں اس متعلقہ عدالت کو ہی کیس منتقلی یا لارجر بینچ کی استدعا کی جاتی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ لارجر بینچ درخواست ہماری نہیں سپرٹینڈنٹ اڈیالہ جیل کی تھی۔ عدالت نے بینچ تبدیلی سے متعلق شق پڑھنے کی ہدایت کی۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے استفسار کیا کہ کیا تمام فریقین کو نوٹس کرکے سنا گیا؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ نوٹس نہیں کیا گیا، کیس منتقلی کی درخواست آئی تھی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ جس قانونی نکتے کے تحت درخواست آئی، آرڈر خود کہتا ہے کہ درخواست اس کے تحت نہیں دی جا سکتی، آرڈر کے مطابق درخواست گزار نے اپنی استدعا پر زور نہیں دیا لیکن اس کے باوجود استدعا مان بھی لی گئی۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ جج کا احتساب عوام کرتی ہے، جج کا احتساب کوئی اور نہیں کرتا ہے، اس کارروائی کا مقصد لوگوں کو آگاہی دینا ہے، اس کارروائی کا مطلب ہائی کورٹ کو مزید شرمندہ کرنا نہیں، میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ جج کا احتساب پبلک کرتی ہے، کہیں اور نہیں ہوتا۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت وہی جج سنتا ہے جس کے آرڈر کی خلاف ورزی ہوئی ہے، میں اپنے یا اپنے کولیگز کے لیے کوئی ناخوش گوار بات نہیں چھوڑنا چاہتا، کیا آپ اس عدالت کے سامنے لگی توہین عدالت درخواست پر دلائل دیں گے؟ کیا وہ بینچ توہین عدالت کیس سنے گی جس نے آرڈر ہی نہیں کیا، جس کی حکم عدولی ہوئی؟ مشعال یوسفزئی نے کہا کہ میری توہین عدالت کیس میں 6 سے 7 سماعتیں ہوئیں، ہر سماعت پر مختلف مؤقف لیا گیا، بانی پی ٹی آئی کے وکلاء میرے ساتھ کھڑے ہیں، ان وکلا کو بانی پی ٹی آئی نے ہدایت کی ہے کہ میرے کیس میں پیش ہوں۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارس دیے کہ میرے لیے سب سے اہم عدالت کی توقیر ہے۔ مشعال یوسفزئی نے بتایا کہ اسی عدالت کے باہر مجھے کہا گیا تھا کہ آپ توہین عدالت کیس واپس لیں، یہ بھی کہا گیا کہ کیس میں کچھ نہیں ہوگا، آپ دیوار سے سر مار رہی ہیں۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارس دیے کہ آج صرف کیس منتقلی کا معاملہ عدالت کے سامنے ہے، مجھے اس ایشو پر ایک فائنل ججمنٹ لکھنی ہے، میں لکھوں گا کہ اس طرح کیس ٹرانسفر کرنے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں، اگر یہ کام ہائی کورٹ جج نے نا کیا ہوتا تو یہ کریمنل توہین عدالت ہوتی۔ آپ سب کو بلانے کا مقصد کہ ہماری معاونت کریں، میں ریسرچ کرنے کے لیے نہیں بیٹھ سکتا۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو مشکل پوزیشن میں نہیں رکھنا چاہتے ہیں، ایڈووکیٹ جنرل صاحب آپ نے عدالتی سوالات پر عدالت کو مطمئن کرنا ہے۔ سابق ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون روسٹرم پر آگئے۔ جہانگیر جدون نے کہا کہ میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، میرا بنیادی سوال یہ ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل آفس ڈپٹی رجسٹرار کو ڈیفنڈ کر سکتا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل وفاق کا نمائندہ ہے، وہ ڈپٹی رجسٹرار کی نمائندگی نہیں کر سکتا، پراسیکیوٹر جنرل آفس ہی ڈپٹی رجسٹرار کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل ایاز شوکت نے کہا کہ جہانگیر جدون صاحب کا شکریہ انہوں نے مجھے اس معاملے سے نکالنے میں مدد کی، مجھے اس معاملے سے نکال ہی دیں تو بہتر ہوگا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اب سوال تو یہ بھی ہے کہ ان کیسز میں ریاست کہاں کھڑی ہے؟ سوال یہ ہے کہ لارجر بینچ کی تشکیل قانونی ہے یا نہیں؟ لارجر بینچ کی عدالتی کارروائی قانونی ہے یا نہیں؟ آج لارجر بینچ میں سماعت ہوگی تو دیکھیں کہ کیا وہ قانونی کارروائی ہے یا نہیں۔ شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے لارجر بینچ کی تشکیل سے متعلق آرڈر پر توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا آرڈر میں لکھا ہے کہ آفس اعتراضات کو دور کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اچھا ایسا لکھا ہے، لیکن اعتراضات دور کرنے کی وجہ کوئی نہیں بتائی گئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل