Loading
ملک کے دو اہم صوبوں کے پی کے اور بلوچستان میں گزشتہ چند ماہ سے دہشت گردی کی وارداتوں میں جو تیزی آئی ہے اور دہشت گرد عناصر حکومتی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے اہم قومی تنصیبات اور شخصیات اور عام لوگوں کو جس طرح نشانہ بنا رہے ہیں اس نے پوری قوم کو ایک ذہنی کرب اور اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ فورسز کی کامیاب کارروائیوں اور آپریشن میں درجنوں فتنہ الخوارج کے لوگوں کو واصل جہنم کرنے کے بعد بھی وقفے وقفے سے دہشت گرد عناصر کہیں نہ کہیں اپنی مذموم کارروائیوں سے اپنے ہونے کا نہ صرف احساس دلاتے ہیں بلکہ ہماری اجتماعی کاوشوں کو بھی چیلنج کر رکھا ہے۔ بلوچستان میں بالخصوص دہشت گرد عناصر نے حکومتی رٹ کو اس بری طرح پامال کر رکھا ہے کہ واقفان حال کے مطابق صوبے کے بعض علاقوں میں سرشام ہی سناٹا چھا جاتا ہے اور وہاں عام آدمی اکیلے سفر بھی نہیں کر سکتا جس سے صوبے کے امن و امان کی مخدوش صورت حال کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جعفر ایکسپریس حملے کے بعد ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کو ایک بار پھر موقعہ فراہم کیا کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں دہشت گردی کے اسباب و عوامل اور اس کے پس منظر و محرکات کا کھوج لگائیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کریں، اس حوالے سے قومی سلامتی کونسل کی پارلیمانی کمیٹی کا گزشتہ ہفتے ان کیمرہ خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیر اعظم، آرمی چیف، پارلیمانی کمیٹی کے اراکین، سیاسی قائدین، اہم وفاقی وزرا، فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام بھی شریک ہوئے۔ چھ گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس کے بعد جو اعلامیہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے پڑھ کر سنایا اس کے مطابق دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان اور عزم استحکام کی حکمت عملی پر پوری قوت کے ساتھ عمل درآمد کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کی پرزور مذمت کرتے ہوئے پاک فوج کے کردار، مختلف آپریشنل کارروائیوں میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی جرأت و بہادری کو شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شہدا کی قربانیوں کو سراہا اور لواحقین کے جذبہ حب الوطنی کی ستائش کی گئی۔ اعلامیے میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ پاک فوج اور عوام کی قوت سے دہشت گردی کو ہر صورت جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ دہشت گردی ناسور بن چکی ہے اس کا ہر صورت خاتمہ ضروری ہے۔ 2018 کے بعد کی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے جو فوائد حاصل ہوئے تھے انھیں ضایع کر دیا گیا۔ وزیر اعظم نے اس اہم اجلاس میں اپوزیشن (تحریک انصاف) کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے رویے کو غیر ضروری قرار دیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردی کے معاملے کو سفارتی سطح پر بھرپور انداز سے اٹھانا چاہیے جو یقینا ایک صائب مشورہ ہے۔ حکومت کو بلاول بھٹو کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے سفارتی سطح پر موثرانداز سے عالمی برادری کو یہ باور کرانا چاہیے کہ بلوچستان اور کے پی کے میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے کس طرح افغانستان سے ملتے ہیں اور بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اپنے ہرکاروں کے ذریعے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گرد عناصر کی سہولت کاری کر رہی ہے۔ ان کیمرہ اجلاس میں پی ٹی آئی کی عدم شرکت کو بعض مبصرین و تجزیہ نگار تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے غیر جمہوری طرز عمل قرار دے رہے ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ کے پی کے نے اجلاس میں شرکت کرکے پی ٹی آئی کی نمایندگی کرتے ہوئے اپنے موقف کا اظہار کیا کہ حکومت اور اپوزیشن کو آپس کی بداعتمادی ختم کرنی چاہیے۔اجلاس سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے خطاب کرتے ہوئے پرمغز اور معنی خیز باتیں کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی سلامتی سے بڑا کوئی ایجنڈا نہیں، ہم کب تک ’’نرم ریاست‘‘ کی طرز پر جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے، ہمیں بہتر گورننس کے ساتھ پاکستان کو ایک ’’سخت گیر ریاست‘‘ بنانے کی ضرورت ہے۔ آرمی چیف نے واضح طور پر اور صاف لفظوں میں سیاسی قیادت کو یہ پیغام دیا کہ ہم گورننس کے خلا کب تک افواج پاکستان اور شہدا کے خون سے بھرتے رہیں گے۔ واضح ہو گیا کہ اصل مسئلہ گورننس کا ہے۔ اگر کے پی کے بالخصوص بلوچستان میں اچھی گورننس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، سیاسی قیادت کی جانب سے وہاں کے عوام کے دیرینہ مسائل حل کیے جاتے، محرومیوں کا ازالہ کیا جاتا، صوبے کے وسائل کو صوبے کے عوام پر خرچ کیا جاتا، بلوچوں کی آواز سنی جاتی تو وہاں نفرتیں جنم نہ لیتیں، اور نہ ہی غیر ملکی وطن دشمن قوتوں کو بلوچستان میں اپنا مکروہ کھیل کھیلنے کا موقعہ ملتا۔ ملک کی سیاسی قیادت کو آرمی چیف کے پیغام کو سمجھنا چاہیے اور بلوچستان و کے پی کے کی سیاسی قیادت، اراکین صوبائی و قومی اسمبلی اور دونوں صوبائی حکومتوں کو اپنی خامیوں و کمزوریوں پر نظر ثانی کرکے گورننس کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ جیساکہ صدر آصف زرداری نے اپنے حالیہ دورہ بلوچستان کے موقع پر کوئٹہ میں بلوچستان کی پارلیمانی پارٹیوں کے اراکین سے ملاقات اور امن و امان پر منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنی ہے۔ ریاست کو قائم رہنا ہے، پارلیمانی لیڈر نے صوبے کے مسائل اور بلوچ عوام کی محرومیوں سے متعلق صدر کو آگاہ کیا تو انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ عید کے بعد وہ بلوچستان میں کیمپ لگائیں گے اور بلوچوں کی شکایات کا ازالہ کیا جائے گا۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے نہ صرف بلوچستان میں گورننس کا خلا پر ہو سکتا ہے بلکہ امن کا قیام یقینی اور دشمن کی سازشیں بھی ناکام بنائی جا سکتی ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل