Tuesday, April 01, 2025
 

یوم القدس

 



ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو دنیا بھر میں فلسطینیوں کی تحریک آزادی سے اظہار یکجہتی کے لیے اور بالخصوص قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لیے یوم القدس کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کا آغاز 1970کی دہائی میں اس وقت ہوا جب ایران سے تعلق رکھنے والے امام خمینی نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو فلسطین کی آزادی کی حمایت کے دن کے طور پر منایا جائے اور اس دن کو انھوںنے یوم القدس کا نام دیا۔ امام خمینی نے اعلان کر دیا اور ایرانی عوام کے ساتھ ساتھ خطے کی دیگر اقوام نے اس اعلان کو بے حدپذیرائی دی۔اس دن کو منانے کا ایک مقصد جو امام خمینی نے بیان کیا وہ یہ تھا کہ کم سے کم مسلمان اقوام ایک دن متحد ہو کر اپنے مشترکہ مسئلہ یعنی فلسطین اور قبلہ اول کی بازیابی کے لیے ہم آواز ہو جائیں۔ یعنی آپس کے اتحاد کا مظہر دنیا پر روشن ہو جائے کہ مسلمان اقوام متحد ہیں۔ اسی لیے امام خمینی نے اس دن کو اتحاد اور وحدت کا دن قرار دیا اور کہا کہ یہ دن مظلوموں کا دن ہے اور ظالم نظاموں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا دن ہے۔ یوم القدس کو ایک خاص حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ پوری دنیا میں چاہے فلسطین کے اندر ہو یا فلسطین کے باہر ، ہر مقام پر رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی مسلمان اقوام اور غیر مسلم اقوام سب کی سب اس دن کو یک زبان ہو کر فلسطین کی آزادی کے لیے صدائے حق بلند کرتے ہیں۔ یہ دن ایک عالمی دن کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اس دن کی اہمیت میں بھی اضافہ دیکھنے کو آ رہاہے کیونکہ جس طرح مسئلہ فلسطین موجودہ زمانہ میں آگہی کی منازل طے کررہا ہے آج سے پہلے کبھی ایسا نہیں تھا۔ آج معاشرے کے تمام طبقات فلسطین کی آزادی اور قبلہ اول کی بازیابی کے لیے غاصب صیہونی طاقتوں کے خلاف متحد ہو چکے ہیں۔آج گلوبل مزاحمت کا تصور جنم لے چکا ہے۔ یوم القدس بھی عالمی مزاحمت کا ایک استعارہ قرار پایا ہے۔ ایک طرف غزہ اور لبنان لہو لہو ہیں۔ جنگ بندی کے معاہدوں کو غاصب اسرائیل کی جانب سے توڑ دیا گیا ہے اور معصوم انسانوں کا قتل عام جاری ہے۔دنیا خاموش ہے اور تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مسلمان حکومتیں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اپنے معاشی فوائد کو حاصل کرنے کے لیے مظلوم فلسطینیوں کی قربانیوں اور ان کے خون کا سود ا کر چکی ہیں۔یوم القدس ایسے حالات میںمنایا گیا ہے کہ جب پاکستان میں بھی صحافیوں کے غاصب اسرائیل میں جا کر فلسطین مخالف مہم میں شامل ہونے کے شواہد مل رہے ہیں۔ آئے روزسوشل میڈیا پر پاکستانی صحافیوں کی تصویریں سامنے آ رہی ہیں جو اسرائیل ہو کر آئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی اس طرح کے وفود جاتے رہے ہیں لیکن اب سات اکتوبر کے بعد ان وفود کو خاص طور پر لے جا جایا رہاہے اور پھر فلسطین کے خلاف بیانات ریکارڈ کیے جا رہے ہیں تا کہ فلسطین کاز کو نقصان پہنچایا جا سکے۔  یوم القدس ایسے حالات میں آیا ہے کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن جاری ہے۔ سیدحسن نصر اللہ اور یحییٰ سنوار ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ لیکن ان شہداء کی یاد اور فکر آج بھی ہمارے درمیان باقی ہے۔حماس اور حزب اللہ کی فکر نے آج بھی دنیا بھر کے حریت پسندوں کو متحد کر رکھا ہے۔ یوم القدس قربانیوں کے زمانہ میں آ رہاہے۔یوم القدس ایسے حالات میں آ رہاہے کہ فلسطین کے لیے دعائیں کرنا بھی کم کر دیا گیا ہے۔عوام نے جنگ کے آغاز پر بائیکاٹ کیا تھا لیکن ابھی اس بائیکاٹ میں بھی کافی حد تک کمی نظر آ رہی ہے۔ البتہ یوم القدس کی آمد سے یہ استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ عوام کو اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ترویج کی جائے اور عوام کو یہ بتایا جائے کہ جس طر ح انھوںنے جنگ کے آغاز پر بائیکاٹ جاری رکھا تھا اسی طرح آج بھی جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ یوم القدس کی آمد پر ہم دنیا ئے اسلام کے عرب و غیر عرب حکمرانوںسے یہ مطالبہ تو کر سکتے ہیں کہ وہ کم ازکم غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر دیں۔ یہ دن ہمیں ایک نیا جذبہ عطا کر رہاہے۔ضرورت ا س امر کی ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ ہم سب فلسطین و القدس کے لیے متحد ہیں۔ یوم القدس امت مسلمہ کی سرفرازی کا دن ہے۔عالم اسلام کی نصرت و کامرانی کا دن ہے۔یہ دن حقیقت میں ظالم اور جابر نظاموں کو نابود کرنے کا دن ہے۔ مظلوموں کی حاکمیت قائم کرنے کادن ہے۔ یہ دن القدس کا دن ہے ۔ یہ دن حق پرستوں کا دن ہے۔ یہ دن باطل قوتوں کی سرنگونی کا دن ہے۔آئیں! ہم اس بات اور عزم کا عہد کریں کہ ہم میں سے ہر کوئی معاشرے میں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق مظلوم فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھے گا۔فلسطینیوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ مسئلہ فلسطین کے خلاف ہونے والی صیہونی سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔ یہ وہ کام ہیں جو ہم میں سے ہر فردانجام دے سکتا ہے۔آئیں، اسی جذبے کے ساتھ اپنا دینی، اخلاقی ، سیاسی اور انسانی فریضہ ادا کریں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل