Loading
مختلف سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں حکومت کے کنٹرول میں کچھ نہیں ہے جس کی وجہ سے عوام میں پھیلی ہوئی مایوسی بجا ہے اور حکومت کی طرف سے عوام کو صرف دعوے ہی سننے کو ملتے آ رہے ہیں اور عملی طور پر کچھ ہوا ہے نہ ہی عوام کو اس حکومت سے کچھ ریلیف ملنے کی توقع رکھی جا سکتی ہے، کیونکہ حکومت کے کنٹرول میں کچھ نہیں ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو وزیر اعظم بنے تقریباً ڈھائی سال ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم منتخب کیا تھا جو وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے ملک کے تمام وزرائے اعلیٰ سے زیادہ مقبول، انتظامی طور پر بہترین ایڈمنسٹریٹر اور دن رات محنت کرنے والے عوامی وزیر اعلیٰ تھے اور خود کو وزیر اعلیٰ کے بجائے خادم اعلیٰ کہلاتے تھے جن کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے پنجاب میں مثالی ترقی ہوئی تھی اور پنجاب کے عوام اپنے وزیر اعلیٰ سے جتنے مطمئن تھے اس کی وجہ میاں شہباز شریف کی سب سے بہترین کارکردگی تھی اور جب اپریل 2022 میں جب وہ وزیر اعظم بنے تو عوام کو ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں کہ وہ اب پنجاب کی طرح پاکستان اور ملک کے سارے لوگوں کی خدمت کریں گے۔ پنجاب میں وہ تین بار وزیر اعلیٰ رہے وہ اس سے قبل کبھی اپنے بھائی کی طرح صوبائی وزیر نہیں رہے تھے اور جس طرح پہلی بار برائے راست وزیر اعلیٰ بنے تھے، اسی طرح وہ دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور چھوٹی جماعتوں ایم کیو ایم، جے یو آئی (ف) و دیگر کی حمایت سے صرف وزیر اعظم ہی منتخب نہیں ہوئے تھے بلکہ پی ٹی آئی کے سوا انھیں تمام سیاسی پارٹیوں اور بالاتروں کی مکمل حمایت حاصل تھی، جس کی وجہ سے عوام بھی شہباز شریف حکومت پر مطمئن تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا دعویٰ ہے کہ اس کی حکومت نے ملک کو آئی ایم ایف سے نجات دلا دی تھی مگر پی ٹی آئی حکومت نے اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں ملک کا جو حشر اور آئی ایم ایف کو سخت ناراض کیا تھا، اس کی وجہ سے وزیر اعظم شہباز شریف نے سب سے پہلے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے اور معاشی حالات کی بہتری پر توجہ دی۔ انھوں نے دوست ممالک سے مالی مدد لے کر اور آئی ایم ایف سے مزید قرض تو حاصل کیا مگر پاکستان آئی ایم ایف کی غلامی میں چلا گیا تھا مگر حکومت کے لیے آئی ایم ایف کو راضی کرنا ضروری اور قرض لینا مجبوری تھی اس لیے آئی ایم ایف نے اپنی سخت شرائط پر مزید قرضہ تو دیا مگر پاکستان کو اپنے شکنجے میں ایسا جکڑا کہ عوام پھڑپھڑا رہے ہیں مگر جب سے اب تک حکمران مزے کر رہے ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت ملک کی تباہی کا ذمے دار پی ٹی آئی کی حکومت کو قرار دیتی اور حکومت میں اپنوں کو نوازتی رہی اور تمام اتحادی پارٹیوں نے بڑھ بڑھ کر حکومت میں اپنے لوگوں کو نوازا مگر کسی کو یہ فکر نہیں تھی کہ قرضوں پر حکومت چلانے کا انجام کیا ہوگا؟ جتنے قرضے اور امداد ملی وہ حکومتی اخراجات کی نذر ہوتی رہی مگر جس کو کچھ نہیں ملا وہ ملک کے عوام تھے جن کی زندگی نئی حکومت بننے کے بعد مشکل سے مشکل ہوتی رہی اور عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا بلکہ عوام پر مہنگائی مسلط کرنا شروع کی گئی۔ یہ سلسلہ نگراں حکومت میں مزید بڑھا پھر (ن) لیگ اور پی پی کی حکومت دوبارہ بنی جو ایک سال پورا کر چکی اور شہباز شریف حکومت ڈھائی سال پورے کر رہی ہے۔ دونوں بڑی پارٹیاں عوام کی بات کرتی ہیں۔ (ن) لیگ نے انتظامی اور پیپلز پارٹی نے آئینی عہدے لے رکھے ہیں اور ڈھائی سال سے مہنگائی کم ہونے کے صرف دعوے ہی عوام سن رہے ہیں مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔ ان ڈھائی سالوں میں حکومت نے صرف اپنوں کو نوازا مگر عوام کو ریلیف دینے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ مہنگی بجلی سستی کرنے کی باتیں ہوئیں مگر کچھ نہیں ہوا۔ڈھائی برسوں میں موجودہ حکومت میں عوام غیر ملکی قرضوں کے مزید بوجھ تلے آئے کیونکہ یہ قرضے حکمرانوں نے نہیں عوام نے مہنگائی اور ٹیکسوں کی مد میں ادا کرنے ہیں۔ موجودہ حکومت کے لیے کہا جاتا ہے کہ عوام کو ریلیف دینا اس کے کنٹرول میں نہیں ہے کیونکہ آئی ایم ایف اجازت نہیں دے رہا۔حکمران عوام کو ریلیف دینے میں اتنے ہی بے بس ہیں تو حال ہی میں کابینہ کی تعداد اور وزیروں، مشیروں کی جو تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں۔ اس کے لیے بھی آئی ایم ایف سے اجازت لی گئی تھی؟ اس سے قبل وفاقی حکومت نے ارکان پارلیمنٹ اور اعلیٰ ججز کی جو تنخواہیں اور مراعات بڑھائی تھیں کیا وہ بھی آئی ایم ایف کی اجازت اور منظوری سے بڑھی تھی؟ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق وفاقی حکومت بہت سی چیزوں میں بے اختیار ہے مگر جب حکومت اپنے ارکان پارلیمنٹ، وزیروں، مشیروں اور ججز کی تنخواہیں اور مراعات بڑھانے کا اختیار استعمال کرتی ہے تو عوام کو ریلیف دینا کیوں حکومت کے اختیار میں نہیں ہے؟ دہشت گردی کنٹرول کرنا حکومت کے اختیار میں نہیں ہے مگر سابقہ تجربات کے باوجود ساڑھے سات لاکھ ٹن چینی ملک سے باہر بھجوانا بھی حکومت کے اختیار میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ عالمی سطح پر پٹرول کے نرخ کم ہوتے ہیں تو اس کمی کا فائدہ پہنچانا تو حکومت کے اختیار میں ہے مگر حکومت لیوی بڑھا کر اپنا فائدہ حاصل کر لیتی ہے مگر عوام کو یہ جائز فائدہ بھی نہیں دیتی۔ ڈھائی برسوں میں موجودہ حکومت کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنے عوام کو مقررہ نرخوں پر چینی ہی فراہم کرتی جو اس کے کنٹرول میں تھا جس کے لیے آئی ایم ایف کی اجازت کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ حکومت کو اپنوں کو نوازنے سے تو آئی ایم ایف نہیں روکتا مگر عوام کو ریلیف دینے میں آئی ایم ایف کو جواز بنایا جاتا ہے کیونکہ حکومت عوام کو ریلیف دینا ہی نہیں چاہتی اور عوام کو مایوس کر چکی ہے۔ حکومت نے مہنگائی بڑھا بڑھا کر عوام کی چیخیں ضرور نکلوا دی ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل