Wednesday, April 16, 2025
 

بارود کا ڈھیر

 



کراچی بارود کے ڈھیر پر پہنچ گیا ہے، پرتشدد ہجوم نے بے گناہ شہریوں کی ہلاکت پر 10ٹینکر جلا دیے اور شہر میں پانی نایاب ہوگیا۔کراچی میں مسائل بڑھ رہے ہیں مگر وفاق میں اتحادی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف زبانی گولہ باری میں مصروف ہیں۔ عوام کے پاس مایوسی کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ کراچی میں گزشتہ 6ماہ میں ٹریفک کے حادثات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں اور اس دوران ان ہیوی ٹینکروں نے موٹر سائیکل سواروں کو اس طرح کچلا ہے کہ جن لوگوں نے یہ مناظر سوشل میڈیا پر دیکھے ہیں، ان میں سے کئی خواتین راتوں کو بے خوابی کا شکار ہوگئی ہیں۔ شاہراہ فیصل پر ملیر کے قریب ایک پانی کے ٹینکر نے سڑک کے دوسری طرف جانے والے جوڑے کو کچل دیا۔ اس حادثے میں میاں، حاملہ عورت کے علاوہ اس کے پیٹ سے باہر آنے والا بچہ بھی جاں بحق ہوگیا تھا۔ شاہراہ فیصل پر موٹر سائیکل پر بیٹھا ہوا ایک جوڑا افطار کر رہا تھا کہ ایک تیز رفتار کار نے اس جوڑے کو کچل دیا۔ تیز رفتار کار ایک 17سالہ نوجوان چلا رہا تھا۔ گزشتہ سال امراء کے خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اپنی کارکو قابو نہیں کرسکی، یوں موٹر سائیکل پر جانے والے باپ اور بیٹی دنیا سے رخصت ہوگئے تھے ۔ اس طرح کے حادثات کراچی میں متواتر ہو رہے ہیں مگر صوبائی حکومت نے فوری طور پر ٹریفک کے ان مسائل کے حل کے لیے رسمی بیانات کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بعض مسائل کے حل کے لیے خاصے متحرک نظر آتے ہیں مگر شاید کراچی کے ٹریفک حادثات ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں، یوں انھوں نے بہت دنوں بعد گزشتہ ہفتہ ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں کئی فیصلے کیے گئے۔ ان فیصلوں میں ایک فیصلہ کے تحت اب ہیوی ٹرانسپورٹ کے لیے رفتار 30کلومیٹر فی گھنٹہ طے کی گئی ہے۔ یہ چھوٹی بڑی گاڑیوں میں ٹریکر اور پروٹیکشن ڈیوائسز کی تنصیب کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس اجلاس میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ گاڑیوں کی فٹنس سے متعلق تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ ڈرائیوروں کا طبی معائنہ لازمی ہوگا، یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ڈرائیونگ اکیڈمیز قائم کی جائیں گی۔ سندھ کی حکومت ابھی تک جدید طرزِ حکومت پر عمل پیرا نہیں ہوسکی ہے۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل شدید ترین شکل اختیارکرچکے ہیں۔ جب شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو انھوں نے لاہور، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کے جدید نظام کو تعمیرکرنے پر خصوصی توجہ دی، یوں لاہور، ملتان اور اسلام آباد میں جدید ٹریک پر ایئرکنڈیشنڈ بسیں چلنے لگیں۔ جو سفر عام بسوں میں 2 گھنٹوں میں طے ہوتا تھا وہ آدھے گھنٹے میں طے ہونے لگا۔ لاہور میں تو اورنج ٹرین بھی چلنے لگی۔ اب موجودہ وزیر اعلیٰ مریم نواز زیرِ زمین ریل گاڑی چلانے کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے پشاور میں بھی میٹرو تعمیر کردی۔ اس دوران کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ تقریباً ختم ہوگئی اور لوگ بار برداری کے لیے چین کی دریافت چنگ چی پر سفرکرنے پر مجبور ہوئے۔ جب میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو انھوں نے بڑا بورڈ سے نمائش چورنگی تک گرین لائن منصوبہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ منصوبہ تحریک انصاف کی حکومت کے برسر اقتدار آنے کی بنیاد پر تاخیر سے مکمل ہوسکا مگر اس علاقے میں سفر کرنے والوں کے لیے یہ منصوبہ ایک نعمت ہے۔ حکومت سندھ نے چار سال قبل ملیرکینٹ سے گلشن اقبال کے راستے نمائش تک ریڈ لائن کا منصوبہ شروع کیا۔ حکومت نے اس منصوبے سے پہلے گلشن جانے والی سڑک کروڑوں روپے سے تعمیر کی تھی۔ اب چند سال بعد ہی اس سڑک کو توڑ کر ریڈ لائن کی تعمیر جاری ہے اور یہ منصوبہ علاقے میں سفر کرنے والوں کے لیے ایک عذاب بن گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ مختلف مواقعے پر سندھ حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کا معائنہ کرتے ہیں۔ انھوں نے شاہراہِ ذوالفقار علی بھٹو کی تعمیر میں خصوصی دلچسپی لی ہے اور مہینہ میں کئی دفعہ ان کی اس منصوبے کے معائنے کی تصاویر وائرل ہوتی ہیں مگر ملیر کینٹ سے لے کر گلشن اقبال کے اطراف کے رہنے والے لاکھوں لوگوں کی خواہش ہے کہ وزیر اعلیٰ ریڈ لائن کی تعمیرکا بھی معائنہ کریں۔ سندھ حکومت نے دو سال قبل دو سو جدید ایئرکنڈیشنڈ بسیں مختلف روٹس پر چلائی تھیں۔ اگرچہ ان بسوں کی تعداد انتہائی کم ہے مگر کراچی کے شہریوں کو ان جدید بسوں سے خاطر خواہ فائدہ ہوا۔ حکومت سندھ نے چند ماہ قبل ان بسوں کے کرایہ میں اضافہ کردیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں چلنے والی جدید بسوں کے مقابلے میں ان کا کرایہ زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹریفک کے حادثات کی ایک وجہ سڑکوں کا ٹوٹا ہونا اور سڑکوں پر سیوریج کا پانی جمع ہونا ہے۔ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب مسلسل سڑکوں کو بہتر بنانے کے حوالے سے متحرک تو نظر آتے ہیں مگر عملی طور پر صورتحال بہتر نہیں ہو پا رہی۔ بلدیہ کراچی کے افسران کا کہنا ہے کہ پورے کراچی میں بلدیہ کی حدود 30 فیصد کے قریب ہیں، باقی علاقہ کنٹونمنٹ بورڈ اور دیگر اداروں کے زیرِ کنٹرول ہے۔ یوں اداروں کی حدود کے اپنے جھگڑے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام کے حق میں نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ پانی کی تقسیم کے علاوہ کوڑے کرکٹ کو اٹھانے کے لیے سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ قائم کیا گیا،کراچی میں پانی نایاب ہے۔ کراچی کی بیشتر بستیوں میں نلوں کے ذریعے پانی فراہم نہیں ہوتا۔ ان بستیوں کے لوگ ٹینکروں کے ذریعے پانی خریدتے ہیں۔ اس بناء پر ایک مضبوط ٹینکر مافیا کے ٹینکر سڑکوں پر دوڑتے ہیں۔ ان میں سے اکثر ٹینکرکراچی میں رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ ٹینکروں کی اکثریت کراچی سے متصل بلوچستان کے شہر حب میں رجسٹرڈ ہے، یوں ان ٹینکروں کی سالانہ فٹنس کا معاملہ کبھی حقیقت کا روپ اختیار نہیں کرتا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی عدم دلچسپی کی بناء پر سرکلر ریلوے فعال نہیں ہے۔ پاکستان ریلوے کے حالات بھی ناگفتہ بہ ہیں، اگر ریلوے کو متحرک کیا جائے توکراچی پورٹ پر آنے والے کنٹینر مال گاڑیوں کے ذریعے پورے ملک بھجوائے جاسکتے ہیں، یوں نہ صرف کراچی کی سڑکوں پر بلکہ کراچی سے پشاور تک موٹر وے پر بھی حادثات کم ہوسکتے ہیں۔ کراچی کے شہریوں کی سندھ حکومت سے مایوسی کی ایک وجہ سرکاری ملازمتوں کی خرید و فروخت بھی ہے۔ کراچی کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ سوال سرائیت کرگیا ہے کہ انھیں سندھ کے کس محکمے میں آسانی سے ملازمت نہیں ملے گی۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کی ساکھ ختم ہوئے عرصہ ہوگیا۔ سرکاری کالج سے ریٹائر ہونے والے ایک پرنسپل گزشتہ دنوں یہ شکوہ کررہے تھے کہ سندھ سیکریٹریٹ میں کوئی کام ’’چمک‘‘ کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ سندھ حکومت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قانون میں ایک نئی ترمیم کی ہے۔ اس ترمیم کے تحت رہائشی علاقوں میں کمرشل تعمیرات ہوسکتی ہیں، شاید افسران بالا نے یہ ترمیم کرتے وقت اس بات کو مدنظر نہیں رکھا کہ کراچی میں بغیر منصوبہ بندی کے ہر علاقہ بڑی عمارتوں کے جنگل میں تبدیل ہوگا جس سے شہری مسائل کے علاوہ ماحولیاتی آلودگی کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ فائر بریگیڈ کے عملے کے پاس پانچویں منزل سے زیادہ منزلوں میں آگ بجھانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ حکومت نے حادثات کو کم کرنے کے لیے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے، عام تاثر یہ ہے کہ ان فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوسکے گا۔ ماضی میں کراچی کے شہری علاقوں کی نمایندگی کرنے والی وفاق میں اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ کراچی شہر اس وقت بارود کے ڈھیر پر آچکا ہے۔ ان کا بیانیہ ہے کہ سڑکوں پر چنگاریاں ابھرتی ہیں۔ وہ اس بارود کے ڈھیر تک پہنچیں گی تو ایک بار پھر خون بہنے کا ڈر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خود مختار مقامی اور شہری حکومت کا قیام ہی کراچی کو بچانے کا طریقہ ہے۔ جب پیپلز پارٹی اپنے شریک چیئرمین کو صدر پاکستان کے عہدہ پر فائزکرنے کے لیے ایم کیو ایم سے معاہدہ کرسکتی ہے تو پھرکراچی کے مسائل کے حل کے لیے ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں سے مذاکرات کیوں نہیں کرسکتی؟ شہروں کی ترقی کا سائنٹیفک راستہ نچلی سطح تک خود مختار بلدیاتی نظام کے قیام میں ہی مضمر ہے۔ کراچی میں گزشتہ دنوں ٹینکروں کی آتشزدگی کے واقعات سے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے خدشات کی تصدیق ہوتی ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل