Monday, April 21, 2025
 

وقت وقت کی بات ہے

 



گزشتہ دنوں بھارت میں شری رام چندر جی کا جنم دن منایا گیا۔ بی جے پی کے غنڈوں نے اس دن جامے سے باہر ہوکر رقصِ ابلیس کیا اور مسلمانوں کو طیش دلانے کے لیے اشتعال انگیز نعرے لگائے، تاہم مسلمانوں کے علمبردار مولانا محمود احمد مدنی نے مسلمانوں کو پرامن اور پرسکون رہنے کی تلقین کی، تاکہ بی جے پی کے غنڈے موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ جیسا کہ اندیشہ اور خدشہ تھا کہ بی جے پی اگر برسرِ اقتدار آگئی تو ہندوستان کے مسلمانوں کی خیر نہیں، ٹھیک ویسا ہی ہو رہا ہے۔ بھارت کے مسلمانوں کو ہر طرح سے تنگ کیا جارہا ہے اور ان پر مظالم پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ بی جے پی کے قائدین جوکچھ کر رہے ہیں وہ ہندو دھرم کے خلاف کر رہے ہیں جوکہ ہندو دھرم کو بدنام کرنے کے مترادف ہے کیونکہ شری رام چندر جی نے نہ تو تشدد کا درس دیا ہے اور نہ ہی کسی کے دھرم کو بُرا بھلا کہنے کی ترغیب دی ہے۔اصل معاملہ اس کے الٹ ہے۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب رامائن جسے والمیکی نے سنسکرت بھاشا میں تحریر کیا تھا اور جس کا ہندی ترجمہ کرنے میں دربارِ اکبری کے اہم رکن اور ہندی کے مہا کوی (شاعر) عبدالرحیم خان خانہ نے تلسی داس کی مالی اعانت کی تھی، اس میں رام چندر جی کا جو چرتر (عظیم) کردار بیان کیا گیا ہے، اس کے مطابق ہندوؤں کے پیشوا رام چندر جی نے انسانوں کو امن و آشتی اور بھائی چارے کی تلقین کی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بی جے پی اور اس کے غنڈے اپنے پیشوا رام چندر جی کی توہین کر رہے ہیں۔رامائن کے مطابق بھارت کو ایک امن پسند اور صلح جو دیس ہونا چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہوگی کہ بھارت میں بی جے پی کے ہاتھوں مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کی شہادت کی کارروائی شری رام چندر جی کے درس کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھارت کے سیکولر آئین کی بھی خلاف ورزی ہے، جو بلا امتیاز بھارت کے تمام شہریوں کو برابرکے حقوق دیتا ہے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ بھارت کے حالیہ عام انتخابات میں بی جے پی کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہوئی ورنہ وہ بھارت کے آئین میں تبدیلی کر کے سیکولر ازم کا خاتمہ کردیتی۔ یہ بات انتہائی خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے کہ بھارت کے مسلمانوں نے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے کمر کس لی ہے اور جمعیت العلماء ہند کے مرکزی قائد مولانا محمود اسعد مدنی کو اپنا علمبردار منتخب کرلیا ہے۔ مولانا مدنی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کے باپ دادا کی عظمت مسلمہ ہے۔ اس کے علاوہ مولانا بذاتِ خود بھی بیشمار خوبیوں کے حامل ہیں۔ دور اندیشی، فہم و فراست، قوتِ فیصلہ سازی کے علاوہ ان میں اور بھی بیشمار خوبیاں موجود ہیں۔ وہ مسلمانوں کو کسی بھی حالت میں مشتعل نہ ہونے کی ہدایت اور ضبط و تحمل سے کام لینے کی تلقین کر رہے ہیں۔ انھیں یقینِ کامل ہے کہ اگر مسلمانوں نے ان کی ہدایات پر عمل کیا تو اِن شاء الہ مکمل کامیابی اُن کے قدم چومے گی۔ انھوں نے کہا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں اپنی اپنی جگہ اپنا کردار ادا کرتی رہیں اور کسی بھی حالت میں صبر و استقامت کا دامن اپنے ہاتھوں سے نہ چھوڑیں۔ مولانا محمود اسعد مدنی صبر و استقامت کا کوہِ گراں ہیں۔نریندر مودی جو خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں اپنے پاپوں کا بھگتان بھگتنے والے ہیں اور اِنشاء اللہ ان کے اقتدارکا سورج غروب ہونے والا ہے۔سیاسی نجومیوں کا خیال ہے کہ بھارت کے آیندہ انتخابات میں انھیں منہ کی کھانا پڑے گی۔ ساحرنے کیا خوب کہا ہے: ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا نریندر مودی نے چناؤ سے پہلے بھارتی جنتا کو سہانے خواب دکھائے تھے اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کے دورِ اقتدار میں بھارت سورگ بن جائے گا اور غربت اور بیروزگاری ختم ہوجائے گی۔ ووٹروں نے ان کے کہے پر یقین کرلیا اور وہ جھانسے میں آگئے۔ اب نتیجہ سب کے سامنے ہے اور غریبی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگوں کا جینا حرام ہوچکا ہے اور دو وقت کی روٹی کے لیے بھی پریشان ہیں۔ دوسری جانب بھارت کے امیر امیر تر ہوتے جا رہے ہیں جن میں اڈانی اور امبانی سرِفہرست ہیں۔جھوٹ اور مکاری کی سیاست نے مودی کو چائے والا سے پردھان منتری بنا دیا ہے۔ وقت وقت کی بات ہے اور وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اور وقت ہمیشہ ساتھ نہیں دیتا۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل