Loading
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں تازہ تازہ نویں جماعت میں آئی تھی اور نئے مضامین سے آنکھ مچولی کھیل رہی تھی کہ ایک صبح اسکول شروع ہونے کے کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد اسکول کا گھنٹا ٹن ٹنا ٹن بجنا شروع ہوگیا۔ سب پریشان ہوگئے کہ ابھی تو اسکول کی آدھی چھٹی میں دو پریڈز باقی تھے۔ ساری لڑکیاں شور مچاتی برآمدے میں نکل آئیں اور ٹیچرز بھی پریشان پریشان سی ہمارے برابر آکھڑی ہوئیں۔ تب ہی ایک ٹیچر نے کہا مسز سلیم ( ہیڈ مسٹر یس) نیچے آنے کا اشارہ کر رہی ہیں۔ ان دنوں اسکولوں میں اجتماعی طور پر آنے جانے کا مطلب ہوتا تھا لائن بنا کے چلیں۔ منٹوں میں تمام کمرے خالی ہوگئے اور اسکول کے اندرونی گراؤنڈ میں ہم سب لائن بنا کے کھڑے کسی انہونی کا انتظار کرنے لگے۔ مسز سیلم، یعنی ہماری ہیڈمسٹریس صاحبہ آگے بڑھیں اور بہ آواز بلند سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد انھوں نے بتایا،’’بچیو! آج علی الصبح دشمن یعنی بھارت نے ہمارے ملک پر حملہ کردیا ہے۔ لاہور میں اس وقت جنگ ہورہی ہے۔ ڈائیریکٹ سے ابھی اسکول بند کرنے کا فون آیا ہے۔ ملک میں ایمرجینسی نافذ کردی گئی ہے۔ تھوڑی دیر میں صدرمملکت قوم سے خطاب کریں گے۔ آپ سب اپنے گھروں کو جاسکتی ہیں۔ اپنے ملک کی کام یابی کے لئے دعا کریے۔ ‘‘ ہم سب کلاسوں میں واپس آنے اور کتابیں کاپیاں سمیٹنے کے دوران ایک دوسرے سے یہ پوچھتے رہے کہ جنگ کیسی ہوتی ہے؟ کس رنگ کی ہوتی ہے؟ اس میں کیا ہوتا ہے؟ ایک ساتھی نے کہنی مارتے ہوئے یہ بھی کہا، تمہارے والد تو فوج میں تھے نہ تم بتاؤ جنگ میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے منمناتی آواز میں کہا ’’آج پوچھوں گی۔‘‘ پانچویں، چھٹی جماعت کی اسلامیات میں البتہ جنگ اُحد اور جنگ بدر کے بارے میں ضرور پڑھا تھا، لیکن وہ تو دین کے لیے ہونے والی جنگیں تھیں اور دین تو اب پھیل چکا۔ اب کس بات کی جنگ ہے۔ یہ سب سوچتے، بولتے گھر کی جانب گام زن ہوگئے۔ ہمارے گھر اور اسکول کے درمیان کوئی دوسو قدموں کا فاصلہ تھا۔ گھر میں بے وقت داخل ہوتے دیکھ کے قبل اس کے امی کوئی سوال کرتیں ان کے چہرے کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے ہم نے خالص بڑی باجی یعنی ہیڈ مسٹریس والے انداز میں کہا،’’جنگ ہوگئی ہے، بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا ہے۔ لاہور میں لڑائی ہورہی ہے۔ تھوڑی دیر میں صدر پاکستان خطاب کرنے والے ہیں۔‘‘ ہمارے اعلان کے جواب میں دھلے کپڑے الگنی پر پھیلاتی ہماری تائی ’’اللّہ رحم کرے‘‘ کہتی نیچے بیٹھتی چلی گئیں۔ امی نے گھور کے دیکھا اور غصے بھری آواز میں ڈانٹتی ہوئئے ریڈیو کی طرف لپکیں۔ ان دنوں کے ریڈیو سب ہی کو یاد ہوں گے، کھولنے کے بعد چند منٹ تک اس کے گرم ہونے یا آواز نکلنے کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ریڈیو کی آواز نکلی کہ صدر پاکستان محمد ایوب خان قوم سے خطاب فرمائیں گے۔ لمحوں میں ایوب خان کی بھاری بھرکم آواز گونجنے لگی۔ ان کی تقریر کا دورانیہ مشکل سے دو یا تین منٹ کا تھا۔ اپنی تقریر میں انھوں نے دشمن کے دانت کھٹے کرنے، شکست فاش دینے اور قوم کو متحد رہنے جیسی کچھ باتیں کیں۔ ہمیں کیا کرنا ہے، گھر میں موجود کسی فرد کو اندازہ نہ تھا۔ اسی دوران مسجد سے بھی جنگ اور دعاؤں کا اعلان ہونے لگا، اگلے آدھے گھنٹے میں ہماری تایازاد بہنیں اور اسکولوں کو گئے لڑکے بھی واپس آگئے اور اس سے اگلے گھنٹے میں پاپا اور تایا بھی واپس پہنچ گئے۔ گھر کے دونوں بڑے مرد کچھ سراسیمہ سے تھے۔ ان کے دل اور ذہنوں میں کیا چل رہا تھا؟ اندازہ لگانا مشکل تھا۔ ریڈیو بار بار ایوب خان کی تقریر نشر کر رہا تھا۔ درمیانی وقفے میں نورجہاں کی آواز وطن کے سجیلے جوانوں کو پکارنے لگتی۔ شام کی چائے پیتے ہوئے ہمارے تایا نے اپنے بھائی یعنی ہمارے والد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،’’عبدل احد گھر میں کچھ فالتو آٹا، چینی، دالیں وغیرہ ضرور ہونی چاہییں۔ گھر میں چھوٹے بچے بھی ہیں۔ یاد ہے نہ برطانیہ کی لڑائی میں کھانے پینے کی اشیاء کتنی مشکل سے ملتی تھیں۔‘‘ ان کی گفتگو سے جنگ کی پہلی برائی کا احساس ہوا کہ کھانے پینے کا سامان نایاب ہوجاتا ہے۔ شام آگے بڑھی تو مساجد اور ریڈیو سے بلیک آؤٹ کے اعلانات ہونے لگے۔ کیسے ہوگا،کیا کرنا ہوگا، یہ بھی باربار بتایا جانے لگا۔ جب ہی ہمارے تایا نے فوراً اعلان کیا کہ رات کا کھانا مغرب کی روشنی میں کھالیا جائے اور ایسا ہی ہوا۔ تب ہی جنگ کی دوسری برائی دل میں انی کی طرح اٹک گئی کہ جنگ کا مطلب ہے گھر میں روشنی نہ ہو۔ اگلی صبح کا اخبار جنگ میں ڈوبا، نہایا، لہولہان آیا۔ لاہور، سیالکوٹ، چونسہ، قصور، سرگودھا، جہلم، کھاریاں، ٹینک، توپیں، جہاز، بم، بندوقیں، لاشیں، شہید، غازی، گاؤں سے آبادی کا انخلا، ماریں گے مرجائیں گے۔ لہولہان اخبار میں سب ہی کچھ تھا، ایک نہیں تھا تو اسکولوں کے بارے میں کچھ نہیں تھا۔ جب ہی ریڈیو پر شکیل احمد کی کڑکڑاتی آواز گونجی،’’ہم ایک زندہ قوم ہیں اور زندگی کے معمولات روز کی طرح چلیں گے۔ تعلیمی اداروں، دفاتر میں کام ہوگا۔‘‘ البتہ زندہ قوم نے تعلیمی اداروں میں آدھے وقت کی چھٹی بند کرکے تعلیم کا ایک گھنٹہ کم کردیا۔ ’’ایسی جنگ کا کیا فائدہ‘‘ سوچتے ہوئے ہم اسکول کی طرف چل پڑے۔ پھر زندگی کے معمول جنگ کے ساتھ چلنے لگے۔ چاند دیر سے نکلنے لگا تو سائرن بھی دیر سے پچھلے پہر بجنے لگے، راتوں کو جب دھمادھم ہوتی تو چاند کی روشنی میں اکثر جہاز قلابازیاں لگاتے نظر آتے۔ سول ڈیفنس والوں کی سیٹیاں بھی سنائی دیتیں، ہر طرف ہو کا عالم ہوتا، مغرب بعد سڑکیں ویران ہوجاتیں، پیدل چلنے والوں کو سول ڈیفنس کے ہرکارے سڑک سے ہٹ کے چلنے کی ہدایت کرتے، ایک شب ریڈیو سے اعلان ہوا کہ سابق فوجی اگلے حکم کا انتظار کریں تو امی نے رورو کے ڈھیر لگا دیے۔ سارے گھر کی تسلیاں ،دلاسے ایک طرف اور امی کے آنسوؤں کا سیلاب ایک طرف تھا۔ جنگ شروع ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا تھا اور جنگ کچھ کچھ سمجھ آنے لگی تھی کہ جنگ کا مطلب موت اور تباہی ہے۔ ایک دوپہر اخبار چاٹتے، چاٹتے دل، ذہن اور آنکھوں کی سوئی اس خبر پے اٹک گئی جس میں لکھا تھا،’’فوجی جوانوں کے لیے خون کی اشد ضرورت ہے، خون لینے کے مرکزوں کی نشان دہی بھی کی گئی تھی۔‘‘ میں، نویں جماعت کی طالبہ نے اپنی بی اے سال اول کی تایازاد بہن کو شام تک اس بات کے لیے راضی کرلیا کہ ’’ کل ہم فوجی بھائیوں کو خون دینے جائیں گے۔‘‘ اسی رات کو کھانا کھاتے ہوئے میں نے پوچھا،’’پاپا! خون کیسے دیتے ہیں؟‘‘ انھوں نے نظر اٹھائے بنا پوچھا، ’’کون دے رہا ہے؟‘‘ قبل اس کے کہ بات آگے بڑھتی تایا نے خون دینے کا پورا عمل سمجھایا، پھر پوچھا کون دے رہا ہے؟ ان کا جواب تھوڑا حوصلہ افزا تھا سو میں نے جلدی سے کہا،’’میں اور— باجی پروگرام بنا رہے ہیں‘‘ پانی پیتے ہوئے انھوں نے ٹھیک ہے کہا اور پوچھا سول اسپتال کا پتا ہے؟ بہتر ہے کسی بڑے کے ساتھ جاؤ۔ اگلی صبح ہم دونوں کی حوصلہ شکنی کے خیال سے گھر کی دونوں بڑی خواتین نے ساتھ جانے سے انکار کردیا تو میری تایازاد نے اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ چلنے پر آمادہ کرلیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے۔ جس بس کے ہم مسافر تھے اس کا آخری اسٹاپ صدر تھا، اور ہمیں آگے کا کچھ پتا نہ تھا۔ لہٰذا راہ چلتے لوگوں سے پو چھتے پوچھتے ہم سول اسپتال پہنچے تھے۔ وہاں پہنچ کے پتا چلا کہ کیمپ برابر میں واقع کراچی کالج نامی ایک عمارت میں لگا ہے۔ کالج کے بڑے سے ہال میں درجنوں بستروں پر خون دینے والے لیٹے ہوئے تھے اور درجنوں لوگ اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ خون دینے سے قبل خون لینے والوں نے ضروری کارروائی کرتے ہوئے ہمارا نام، عمر اور دیگر معلومات لینے کے بعد ہمارے لمبے قد کو دیکھتے ہوئے کہا آپ کی عمر کم ہے، آپ خون نہیں دے سکتیں، ایک ڈاکٹر نے آگے بڑھتے ہوئے کہا بیٹا! بچیوں کو کم ازکم اٹھارہ سال کا ہونا چاہیے۔ ہم آپ کی بہن اور بھائی کا خون لے سکتے ہیں۔ بھائی اندر کے مناظر سے گھبرا کے باہر نکل گیا اور ہم کھڑے ضد کرتے رہے کہ خون دے کے جانا ہے۔ بہرحال گروپ چیک ہوا اور ساتھ ہی شاید ہیمو گلوبن بھی۔ کچھ دیر بعد ایک ڈاکٹر کی آواز آئی ’’بچی کا ہیمو گلوبن اچھا ہے۔ خون دے سکتی ہے۔‘‘ وہ میری زندگی کا پہلا عطیۂ خون تھا۔ ہم دونوں بہنیں اس کارنامے کے بعد اسی طرح پیدل چل کے صدر آئیں اور بس میں سوار ہوکے گھر پہنچے تو دونوں کی مائیں پریشانی کے بدترین تاثرات کے ساتھ منتظر تھیں۔ اسی شام ریڈیائی نشریات کہہ رہی تھیں کہ خون کے او گروپ کی اشد ضرورت ہے اور میں خود کو بادلوں کے سنگ سنگ محسوس کر رہی تھی کہ میرا گروپ او تھا اور بقول تایا کے فوراً کام آگیا ہوگا۔ ابھی جنگ چل رہی تھی کہ ایک صبح اسکول میں ٹرک سے ڈھیروں ڈھیر اون کے بنڈل اترے اور آٹھویں سے دسویں جماعت تک کی لڑکیوں میں چار، چار کے گروپ بناکے سوئیٹر بننے کی ذمے داری سونپ دی گئی۔ مجھے نٹنگ کا شوق بھی تھا اور ہاتھ بھی تیز چلتا تھا لہٰذا میں نے نہ صرف اپنے گروپ کا سوئیٹر مکمل بنایا دوسروں کے ساتھ بھی ہاتھ بٹایا۔ چونڈا کے محاذ پر ٹینکوں کی تباہی کے بعد ایوب خان نے قوم سے اپیل کی کہ ایک پیسہ چندہ دیں تو ہم نئے ٹینک خرید سکتے ہیں۔ جذباتی قوم نے پیسوں کے ڈھیر لگا دیے۔ نورجہاں نے ’’کرنیل نی، جرنیل نی‘‘ گاکے تمام کرنلوں، جرنلوں کو امر کردیا۔ نسیم بیگم نے’’اے راہ حق کے شہیدو!‘‘ یوں گایا کہ پھر کوئی آواز اس کو چھو نہ سکی۔ درجنوں محبت عقیدت میں ڈوبے نغمے گیت نہ صرف زبان زد عام تھے انھیں سن کے لوگ دیوانے ہوجاتے تھے۔ جنگ ایسی بھی ہوتی ہے! قوم مرمٹنے کو تیار، ایک آواز پر فنا فی الفور۔ پھر ایک دن اچانک جنگ ختم ہوگئی۔ خوشی اس بات کی تھی کہ بلیک آؤٹ ختم ہوگیا۔ شامیں مسکرانے لگیں اور رات جگمگانے لگی۔ سالوں اس جنگ کا ڈنکا ہم سب کی زندگیوں میں بجتا رہا۔ وقت کا پہیا چلا اور خوب چلا—-ہم بھی چلتے چلتے بی اے میں پہنچ گئے۔ دماغ نے سوچنا اور بے تحاشا سوچنا شروع کردیا تھا۔ ہر وقت بحث کے لیے تیار رہتے ایسے ہی ایک دن پڑھاتے، پڑھاتے آج کے لیڈر کل کے استاد نے بحث پر آمادہ دیکھ کے کہا، لڑکی میں ہارا تم جیتیں، اب چپ کرکے بیٹھ جاؤ۔ سیاسیات پڑھاتے ہوئے، مساوات کی مثالیں دیتے ہوئے انھوں نے مشرقی بھائیوں کو ناشکرا اور نہ جانے کیا کچھ کہنا شروع کردیا تھا۔ ۱۹۷۰-۷۱ کا پورا زمانہ ہنگاموں، خون ریزیوں، شرپسندیوں، عزتوں کی پامالیوں میں گزرا۔ لوگ یا عوام گاجر مولیوں کی طرح کٹتے رہے، آبادیاں قبرستان بنتی رہیں، قبرستان مسکراتے رہے، سب مل کے موت بوتے رہے موت کاٹتے رہے، ایک دوسرے کا گریبان تار تار کرتے رہے۔ ابھی چھے سال پہلے کی جنگ کے زخم مندمل نہ ہوئے تھے کہ ایک اور جنگ شروع ہوگئی۔ جنگ کا مقصد اس بار بھی سمجھ نہ آیا۔ بھلا کوئی اپنے ملک میں اپنے لوگوں سے بھی جنگ کرتا ہے۔ اپنوں سے تو ٹھنڈے کمرے میں چائے پیتے سمے، کھانا کھاتے کھاتے، ٹی وی دیکھتے، شام ڈھلے، سورج نکلتے، ندیا کنارے، چائے کے ڈھابے، گول میز، چوکور میز، آم کے باغ، چاول کے کھیت، پٹ سن کے ڈھیر، کٹھل، لیچی، جامن، چھالی، ناریل کی تھوک مارکیٹ سے لے کے ہر ہر جگہ بات ہوسکتی ہے۔ کیا میدان جنگ بہت ضروری ہے۔ ایک بار پھر سے دن اور رات کے اوقات میں سائیرن بجنے لگے، دھادھم ہونے لگی، بلیک آؤٹ آنکھیں دکھاتا رہا البتہ اس بار کھڑکیوں کے شیشے سیاہ کرکے گھروں میں روشنیوں کے دیپ جلتے رہے۔ دماغ کی فیکٹری دن رات چلتی رہتی بلکہ اوقات کار سے زیادہ چل رہی تھی بنا صلے کے۔ وہ نویں جماعت والی جذباتیت میں ٹھہراؤ آگیا تھا۔ لہریں اٹھتی تھیں لیکن لمحوں میں دم توڑ دیتی تھیں۔ لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیوں میں بات کرتے کبھی کوئی بات کانوں تک پہنچنے میں کام یاب ہوجاتی تو اندازہ ہوتا لوگ یعنی عوام لڑنا نہیں چاہتے۔ یہ بھی اندازہ ہوا کہ عام انسان سُکھ چین کی چھاؤں تلے ٹانگیں پھیلا کے زندہ رہنا چاہتا ہے۔ پھر جنگ کون چاہتا ہے؟ دماغ کی بھٹی اسی ایک بات کو دن رات دہکاتی رہتی۔ اس بار نہ کسی نے خون مانگا نہ ہی ہمارے خون نے جوش مارا۔ بس دوستوں کے ساتھ مل کے ایک معصوم سی سول ڈیفنس کی تربیت مکمل کرلی۔ جنگ جاری تھی، لہو میں تر سچی جھوٹی خبریں چلتی رہتی تھیں۔ عجیب بات تھی کہ پچھلی جنگ کی طرح اس بار کوئی بھی اپنی خبریں نہیں سنتا تھا۔ سب کی خبروں کا کعبہ بی بی سی تھا۔ اسے سنے بغیر نہ تو کھانا ہضم ہوتا نہ ہی نیند آتی تھی۔ ابھی جنگ چل رہی تھی کہ ایک رات بہ حالت مجبوری ریڈیو نے اس بات کو قبولا کہ پاکستان کی اکلوتی آب دوز دس دن سے missing ہے۔ جب کہ یہ خبر دوسرے نشریاتی ادارے کئی دن سے نشر کر رہے تھے۔ ہمارے اپنے خاندان میں تو اس بات کا چرچا اور بھی زیادہ تھی کہ آب دوز کے سربراہ ظفر امی کے دور پار کے رشتے دار تھے۔ وہ آب دوز سمیت نہ سمندر کے اوپر ملتے نہ تہہ میں نظر آتے تھے۔ خبروں میں جھوٹ سچ کا کھیل اور مرمٹنے اور جینے مرنے کے بیانات چلتے رہے، مونچھوں کو بل لگتے رہے، سینے کھینچ کھینچ کے چوڑے کیے جاتے رہے، پرانے نغمے، گیت نئی بوتلوں میں بند ہوتے رہے، دہلانے والی خبریں سینہ در سینہ چلتی رہیں، وطن کے سجیلے جوانوں کی ڈبابند باقیات ان کے گھروں پر پہنچتی رہیں، جیسور، ڈھاک ، چٹگانگ، کھلنا، لاہور، سیالکوٹ، جہلم، کھاریاں، کراچی کے نام ایک تواتر سے جھوٹی سچی خبروں کے حوالے بنتے رہے۔ لیکن! ایک دن کا سورج غروب آفتاب سے کچھ قبل پانچ کروڑ جوانوں، بوڑھوں، عورتوں، بچوں کے منہ پر کالک ملتا اپنا پژمردہ منہ چھپا گیا۔ اگلی صبح سات کروڑ کا سورج ان کی نئی صبح بن کے طلوع ہوا۔ پانچ کروڑ سیاہ منہ والوں کی وہ صبح بہت عجیب سی تھی۔ کوئی کسی سے بات نہیں کر رہا تھا۔ بڑوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ رات سے برائے نام سا تھا۔ بچوں میں سے کسی کی آواز نکلتی سنائی دیتی تو فوراً ایک لمبی ’’ہوں‘‘ کا سامنا کرنا پڑتا۔ کوئی بولتا کیوں نہیں، دل چاہا ایک لمبی چیخ ماروں مگر آواز گھٹ گئی، دوپہر ڈھلے میں نے بہت ہمت کرکے پوچھا،’’پاپا!! کیا میں کبھی جیسور نہ جا سکوں گی، میرے بچپن کے دو سال اس زمین پر کھیلے تھے، ہم وہاں سے اپنی زندگیوں میں ایک بھائی کا تحفہ لے کے لوٹے تھے۔‘‘ پاپا نے سنجیدگی سے آسمان کو دیکھتے ہوا جواب دیا،’’اب کبھی نہیں۔‘‘ ایسی جنگ کا کیا فائدہ؟ دماغ نے فوراً سوال داغا، کوئی جواب نہ ملا، البتہ اندرون خانہ سوالوں، جوابوں کی جنگ شروع ہوگئی تو زبان کو بہ مشکل بتیس دانتوں کے درمیان قید کیا کہ سوال بہت باغیانہ تھے اور ان کا جواب گھر میں نہ تھا۔ بھائی، بھائی کو چھوڑ گیا، وہ جو مرمٹنے کی باتیں کر رہے تھے وہ سب کہاں ہیں؟ کیا کر رہے ہیں؟ سوچوں کی فیکٹری ہر وقت کھٹا کھٹ چلتی رہتی، خود سے سوال جواب کا سلسلہ نیند میں بھی چلتا رہتا۔ جنگ، جنگ سے وابستہ افراد سے نفرت کے سنگ میل میں ایک اور میل کا اضافہ ہوگیا۔ خالی اوقات میں اکثر سوچتی یہ کیسی جنگ تھی، ختم بھی ہوگئی ، نہ کسی نے خون مانگا، نہ سوئیٹر بُنے گئے، نہ ٹینکوں کے لیے چندہ جمع ہوا اور جنگ ختم ہوگئی۔ دل میں اکثر ایک لہر سی اٹھتی کہ یہ جنگ کرنے والے ہم سے چندہ اور خون تو مانگتے ہیں۔ جنگ کرنے سے پہلے ہم سے پوچھتے کیوں نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ پچھلی جنگ کے مقابلے میں اس بار یہ ضرور ہوا کہ لوگوں میں چہ می گوئیاں بڑھ گئیں، بلند آواز، دھیمی آواز میں سوال اٹھنے لگے، محاسبے کی باتیں ہوتیں، سزاجزا کا تذکرہ ہونے لگا، ریاستی ظلم کی باتیں ہوتیں۔ اس جنگ نے جہاں ایک بازو توڑا وہیں ریاستی ظلم میں بے تحاشا اضافہ بھی کیا، ظلم وستم کی وہ سیاہی پھیلے جا رہی ہے۔ ریاست کے ایوانوں میں آنے جانے کی گاڑی مسلسل چل رہی ہے کبھی بنا آہٹ، کبھی دندناتے ہوئے، جو آتا ہے وہ پہلے والے سے زیادہ خوںخوار ہوتا ہے تو جانے والا معصوم لگنے لگتا ہے۔ جنگ کیوں ہوتی ہے؟ کیسی ہوتی؟ کس رنگ کی ہوتی ہے؟ اس کا کوئی رنگ بھی ہوتا ہے کہ نہیں؟ سوچ کے صحرا میں پتا نہیں کس جانب نکل گئی ہوں۔ جنگ کے بادل اندر، باہر، چاروں اُور چھائے ہوئے ہیں، جنگ کی گھن گھورگھٹا میں روشنی، زندگی کی روشنی بڑی مشکل سے جگہ بنا پارہی ہے۔ ہفتوں پہلے کی تو بات ہے۔ جنگ نامی ایک شے ہمارے سروں پر سے سرسراتی ہوئی گزری ہے۔ وہ جنگ تھی، جھڑپ تھی، منہ ماری تھی، دل پشوری تھی، نہ جانے کیا تھی اور کیا نہیں؟ اس دن سے، آج کے دن تک جنگ کے کاغذی گھوڑے ادھر سے ادھر تک دوڑے پھر رہے ہیں۔ گلیوں میں، سڑکوں پر، چوراہوں پر۔ اب تک لاکھوں نہیں تو کروڑوں روپے کے بینر لگ چکے ہوں گے۔ بہت ممکن ہے کہ بات اربوں تک بھی پہنچ چکی ہو۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل