Loading
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وبا سے پہلے اور بعد کی دنیا میں ایک نمایاں فرق محسوس کیا گیا ہے، جس کا اظہار اگرچہ تقریباً ہر شعبہ میں ہوا لیکن صحت کے معاملہ میں یہ زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے، دنیا بھر کے ممالک میں بسنے والوں افراد نے صحت کو وہ اہمیت دینا شروع کر دی ہے، جو شائد وہ پہلے نہیں دے پا رہے تھے۔ لہذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کورونا وبا کے بعد دنیا بھر میں صحت سے متعلق شعور میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں ایک عام سوال یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ آیا روزانہ وٹامنز لینا واقعی فائدہ مند ہے یا یہ محض ایک بے فائدہ عادت ہے؟ اگرچہ اس حوالے سے کوئی باقاعدہ اعداد و شمار موجود نہیں لیکن مختلف رپورٹس یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کی نصف آبادی روزانہ مختلف اشکال میں وٹامن لیتی ہے۔ امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق، تقریباً ایک تہائی بالغ امریکی روزانہ ملٹی وٹامنز لیتے ہیں۔ کچھ رپورٹس میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ 86 فیصد افراد وٹامن یا سپلیمنٹ استعمال کرتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسی رپورٹس میں یہ بتایا گیا ہے کہ صرف 21 فیصد افراد میں وٹامن کی کمی کی باقاعدہ تشخیص ہوئی ہے۔ یہی الجھن پاکستان جیسے دیگر ترقی پذیر ممالک میں بھی عام ہے۔ اکثر افراد بغیر کسی خون کی جانچ یا ڈاکٹر کی رائے کے وٹامنز لینا شروع کر دیتے ہیں، یہ سوچ کر کہ یہ جسم کے لیے ہر صورت مفید ہوں گے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہو سکتی ہے، کیوں کہ بغیر تشخیص یا ڈاکٹر کے مشورے، خود سے وٹامن لینا بعض اوقات نفع کے بجائے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ وٹامنز لینا کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے؟ انسانی غذا کے اندر بنیادی طور پر 6 چیزیں شامل ہوتی ہیں، جن میں کاربوہائیڈریٹ (Carbohydrates)، پروٹین (Proteins)، چربی (Lipids)، نمکیات، پانی اور وٹامن شامل ہیں۔ یہ تمام اجزاء انسانی جسم کے لئے نہایت ضروری ہیں تاہم یہاں ہمارا موضوعِ سخن وٹامن ہے۔ وٹامن کا لفظ انگریزی کے ایک لفظ وائٹل سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ناگزیر۔ حیاتین یا وٹامن ’’حیات‘‘ کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں، اس لیے اردو میں انہیں حیاتین کہا جاتا ہے۔ وٹامن دراصل قدرتی اجزاء ہیں، جو کھانے کی چیزوں میں پائے جاتے ہیں۔ جن کا کام انسانی جسم کی نشوونما کرنا، پٹھوں کو مضبوط کرنا، خون کو صاف رکھنا، کھانے کو ہضم کرنا اور نقصان دہ اجزاء کو تباہ کرنا ہے۔ جبکہ ان وٹامن کی کمی سے طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ لہذا انسانی جسم کو درست طریقے سے کام کرنے کے لیے مختلف وٹامنز اور معدنیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ وٹامنز نہ صرف توانائی کی پیداوار، جلد کی صحت، ہڈیوں کی مضبوطی، اور مدافعتی نظام کو بہتر بنانے میں مدد کرتے ہیں بلکہ دماغی افعال اور ہارمونی توازن کے لیے بھی ضروری ہیں۔ مثلاً؛ وٹامن D ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے۔ وٹامن B12 اعصابی نظام کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔ وٹامن C مدافعتی نظام کو متحرک کرتا ہے اور زخم جلدی بھرنے میں مدد دیتا ہے۔ آئرن اور فولیٹ خون کے سرخ خلیات بنانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ تاہم، اگر یہ تمام اجزاء متوازن غذا سے حاصل ہو رہے ہوں، تو اضافی وٹامنز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ماہرینِ صحت کیا کہتے ہیں؟ ڈاکٹر سیموئل میتھیس، جو کہ خاندانی طب کے ماہر اور یونیورسٹی آف ٹیکساس میڈیکل برانچ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، کہتے ہیں کہ کسی شخص کو اگر واقعی کسی وٹامن کی کمی ہو تو ملٹی وٹامن لینا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر ایسی کوئی کمی نہیں، تو پھر اثرات ظاہر نہیں ہوتے۔ ماہر غذائیت جولیا زومپانو، کلیولینڈ کلینک سے وابستہ ہیں، ان کا کہنا ہے اگر کسی شخص کی خوراک متوازن ہو اور وہ پہلے سے سپلیمنٹ لے رہا ہو تو ملٹی وٹامن لینا اکثر غیر ضروری ہوتا ہے۔ تاہم کچھ خاص حالات میں یہ مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ملٹی وٹامنز کیا ہوتے ہیں؟ وٹامنز ایسے غذائی سپلیمنٹ ہوتے ہیں جن میں کئی ضروری وٹامنز اور معدنیات ایک ساتھ شامل ہوتے ہیں، جیسے: وٹامن A، B-complex، C، D، E اور K معدنیات جیسے آئرن، کیلشیم، میگنیشیم، زنک، سیلینیم یہ گولیاں، کیپسول، سفوف یا مائع شکل میں دستیاب ہوتے ہیں اور اکثر لوگ انہیں روزمرہ توانائی یا صحت کے لیے جامع سپلیمنٹ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔ تاہم ماہر غذائیت جولیا زومپانو تجویز کرتی ہیں کہ ملٹی وٹامن خریدتے وقت ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؛ عمر اور جنس کے مطابق منتخب کریں (خواتین، مرد، بزرگ، حاملہ خواتین وغیرہ) اضافی شکر، رنگ یا غیر ضروری فلرز سے پاک ہو ہدایات کے مطابق مناسب مقدار میں استعمال کی جائے کن لوگوں کو وٹامنز کی ضرورت ہو سکتی ہے؟ حاملہ خواتین: فولک ایسڈ، آئرن اور کیلشیم کی اضافی ضرورت ہوتی ہے۔ بوڑھے افراد: وٹامن B12، D اور کیلشیم کی کمی عام ہوتی ہے۔ ویگن یا سبزی خور افراد: وٹامن B12، آئرن اور زنک کی کمی کا خطرہ ہوتا ہے۔ طبی مریض: مخصوص بیماریوں میں مخصوص وٹامنز تجویز کیے جاتے ہیں۔ کمزور یا ناکافی غذا لینے والے افراد: جیسے جن کی خوراک میں پھل، سبزیاں یا دودھ کی مصنوعات شامل نہیں ہوتیں۔ وٹامنز جسم میں کیسے جذب ہوتے ہیں؟ جسم وٹامنز کو غذا یا سپلیمنٹ سے حاصل کرتا ہے، لیکن ہر وٹامن ایک ہی انداز میں جذب نہیں ہوتا۔ مثلاً؛ (A, D, E, K) Fat-soluble vitamins کو چکنائی کے ساتھ کھانے سے بہتر جذب کیا جاتا ہے۔ Water-soluble vitamins (B-complex, C) جسم سے خارج ہو جاتے ہیں اگر ضرورت سے زیادہ ہوں۔ جذب بہتر بنانے کے لیے؛ وٹامنز ہمیشہ کھانے کے ساتھ لیں چکنائی والی خوراک جیسے انڈہ، دودھ، مچھلی کے ساتھ لینا مفید ہوتا ہے اگر معدے کی کوئی بیماری ہو، جیسے السر، سیلیک یا IBS، تو وٹامنز کا جذب متاثر ہو سکتا ہے وٹامن لینے کے بعد اثرات ظاہر ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ ڈاکٹر میتھیس کے مطابق کچھ وٹامنز، جیسے وٹامن سی، کے اثرات چند دن میں ظاہر ہو جاتے ہیں۔ جیسے تھکن میں کمی، جلد کی چمک، یا مدافعتی نظام کی بہتری۔ جبکہ دیگر وٹامنز، جیسے B12 یا D کے اثرات ظاہر ہونے میں چار سے چھ ہفتے یا اس سے زیادہ وقت لگتا ہے۔ زومپانو کے مطابق مکمل نتائج کے لیے دو سے تین ماہ کا عرصہ درکار ہو سکتا ہے۔ روزانہ ملٹی وٹامن لیناسے فوائد اور احتیاط روزانہ وٹامن لینے سے ممکنہ فوائد ہو سکتے ہیں جیسے کہ تھکن میں کمی سردی زکام سے بچاؤ دماغی اور جسمانی کارکردگی میں بہتری ہڈیوں اور دانتوں کی مضبوطی بالوں اور جلد کی حالت میں بہتری ممکنہ نقصان یا مضر اثرات پیٹ کی خرابی اسہال یا قبض متلی، گیس، یا بدہضمی پیشاب کا رنگ پیلا یا نارنجی ہو جانا الرجی (خارش، دانے، سانس میں تنگی) زیادہ مقدار کا نقصان وٹامن اے یا ڈی کی زیادتی جگر کو نقصان دے سکتی ہے آئرن کی زیادتی خون کے سرخ خلیات پر منفی اثر ڈال سکتی ہے وٹامن سی کی زیادتی سے گردے کی پتھری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے غذائی ذرائع بہتر یا سپلیمنٹ؟ ماہرین صحت ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں کہ وٹامنز خوراک سے حاصل کیے جائیں، کیوں کہ؛ قدرتی غذا میں موجود اجزاء ایک دوسرے کی مدد سے بہتر جذب ہوتے ہیں اضافی شکر، مصنوعی رنگ، یا فلرز شامل نہیں ہوتے غذا میں فائبر اور اینٹی آکسیڈنٹس بھی موجود ہوتے ہیں مثال کے طور پر وٹامن C = لیموں، مالٹا، ٹماٹر وٹامن A = گاجر، پالک، آم وٹامن D = سورج کی روشنی، انڈے کی زردی، مچھلی کیلشیم = دودھ، دہی، پنیر، تل کیا آپ کو ملٹی وٹامن لینا چاہیے؟ ہر شخص کی غذائی ضروریات مختلف ہوتی ہیں۔ اگر آپ متوازن غذا کھا رہے ہیں، متحرک طرزِ زندگی رکھتے ہیں اور کسی بیماری کا شکار نہیں، تو شاید آپ کو الگ سے وٹامنز کی ضرورت نہ ہو۔ تاہم اگر تھکن، بال گرنا، کمزوری، کمزور مدافعت، یا خوراک میں کمی محسوس ہو تو وٹامنز لینا مفید ہو سکتا ہے، مگر صرف کسی ماہر کی نگرانی میں۔ یاد رکھیں! وٹامنز دوا نہیں، غذا کا نعم البدل نہیں، اور نہ ہی فوری توانائی دینے والے جادوئی سپلیمنٹ ہیں۔ یہ صرف تب ہی فائدہ دیتے ہیں جب آپ کے جسم کو واقعی ان کی ضرورت ہو۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل