Loading
ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ کے خطرات فی الحال معدوم ہوگئے ہیں لیکن اس جنگ کا آغاز کرنے والے ملک اسرائیل اور اس کے پشت پناہ امریکا کے عزائم اور منصوبے اپنی جگہ موجود ہیں جو پھرکسی وقت ایک نئی محاذ آرائی کا سبب بن کر خطے کے امن کو تباہ کر سکتے ہیں۔ نیتن یاہوگریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل کا خواہاں ہے اور امریکا و دیگر مغربی طاقتیں ایران کو ایٹمی قوت بننے سے روکنا چاہتی ہیں۔ ایران ایک سے زائد مرتبہ یہ یقین دہانی کرا چکا ہے کہ اس کا یورینیم افزودگی پروگرام صرف توانائی کے حصول کے لیے ہے۔ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی آئی اے ای اے جس نے ایران پر اسرائیلی حملے سے چند روز قبل ایرانی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا تھا کہ فی الحال ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود نہیں، البتہ چار سوگرام یورینیم موجود ہے۔ اسرائیل نے اسے اپنے وجود کے لیے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ایران پر حملہ کیا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اکیلا ایران کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن ایران نے جوابی میزائل حملوں سے اسرائیل کو دندان شکن جواب دیتے ہوئے اس کے غرور، طاقت کے نشے اور گھمنڈ کو خاک میں ملا دیا۔ ایرانی میزائلوں نے اسرائیل میں جو تباہی پھیلائی اس کا اعتراف تو اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کر دیا ہے کہ ایران نے بہت بہادری سے جنگ لڑی۔ اسرائیل کو ایران سے بہت مار پڑی۔ ایرانی بیلسٹک میزائلوں نے اسرائیل میں کافی تباہی پھیلائی اور کئی عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اعتراف در حقیقت اسرائیل کی شکست اور ایران کی فتح کا اعلان ہے کہ اس جنگ میں ایران فاتح بن کر سامنے آیا اور مسلم امہ کا پرچم سر بلند کیا۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے ایران پر اپنے ابتدائی حملوں میں ایران کی ٹاپ فوجی قیادت اور سائنس دانوں کو شہید کردیا تھا لیکن ایران کے سپریم رہنما علی خامنہ ای نے پیرانہ سالی اور بڑے نقصانات کے باوجود اسرائیل پر حملے جاری رکھے اور اسے شکست ماننے پر مجبورکردیا۔ نیتن یاہو نے اپنی ممکنہ شکست کے خوف اور اس کی شدت کو کم کرنے اور رسوائی سے بچنے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے لیے اکسایا نتیجتاً امریکا نے تمام تر عالمی قوانین، اصولوں اور اپنے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران پر حملہ کردیا۔ امریکا کو اپنی فوجی قوت، صلاحیت اور جدید ترین حربی ہتھیاروں پرکامل بھروسہ ہے کہ وہ ہر میدان میں امریکا کا پرچم بلند رکھتے ہیں۔ اسی بھروسے پر امریکا نے اپنے سب سے قیمتی، جدید ترین اور محفوظ سمجھے جانے والے طیارے B-2 بمبارکے ذریعے ایران کی تین ایٹمی تنصیبات فردو، نطنز اور اصفہان کو بنکر بسٹر بموں سے نشانہ بنایا جو زمین کے اندر 60 فٹ گہرائی یا 200 فٹ مٹی میں گھسنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حکومتی اکابرین کو یقین ہے کہ ایران پر حملہ کامیاب رہا اور ایران کی ایٹمی تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ہے۔ اب وہ ایٹمی طاقت نہیں بن سکتا۔ اس کی جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی قوت ختم کردی گئی ہے۔ دوسری طرف ایران کا دعویٰ ہے کہ امریکی حملے سے قبل ہی اس نے اپنے جوہری اثاثے محفوظ مقام پر منتقل کر دیے تھے۔ امریکی حملے سے صرف متعلقہ ایٹمی مقامات کو نقصان پہنچا ہے۔ امریکی میڈیا کی رپورٹس اور خبریں بھی ایرانی دعوے کو تقویت اور امریکی دعوے کی نفی کر رہی ہیں۔ خاص طور پر سی این این، اے بی سی اور این بی سی کی رپورٹس کے مطابق امریکی حملے سے ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئیں۔ ٹرمپ میڈیا رپورٹس پر شدید برہم دکھائی دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جعلی خبریں پھیلا کر ہماری کامیابی اور کارکردگی کو کمزور ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ادھر ایرانی پارلیمنٹ نے امریکی حملے کے ردعمل میں عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون معطل کرنے کا بل منظور کرایا ہے جس کے مطابق عالمی ایجنسی کو اب کوئی گارنٹی نہیں دی جائے گی، نہ عالمی ادارے انسپکٹرز کو انسپکشن کی اجازت دی جائے گی اور نہ ہی انھیں رپورٹس جمع کرائی جائیں گی تاوقت یہ کہ ایرانی جوہری تنصیبات سے متعلق سیکیورٹی کی ضمانت نہ دی جائے۔ ایرانی پارلیمنٹ کے فیصلے پر عالمی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ایران کا تعاون سے انکار اس کی عالمی تنہائی کا سبب بن سکتا ہے جب کہ روس کا موقف ہے کہ ایران کا یہ فیصلہ اس کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کا ردعمل ہے جو بجا طور پر قابل فہم بات ہے۔ صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ ایران سے اگلے ہفتے معاہدہ ہو سکتا ہے۔ چوں کہ صورت حال امریکی حملے سے سنگین ہوئی ہے، لہٰذا اسے درست کرنا بھی صدر ٹرمپ کی ذمے داری ہے۔ انھیں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو رکوانے میں بھی آگے بڑھ کر نیتن یاہو کے ہاتھ روکنا ہوں گے تب ہی مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکتا ہے۔فاتح ایران کو اپنے دفاع کے لیے جوہری صلاحیت حاصل کرنے کا پورا حق ہے۔ امریکا اور عالمی برادری کو کسی بھی ملک کی آزادی، خود مختاری اور قومی سلامتی کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل