Monday, June 30, 2025
 

کیا ایشیا کپ ہو گا؟

 



 ’’ایک ارب 80 کروڑ روپے یہ رقم تو بہت زیادہ ہے، اگر بھارت نے حصہ نہیں لیا تو ایشیا کپ تو شاید ہو ہی نہیں سکے گا‘‘ پاکستانی ٹی وی چینل کے نمائندے نے جب حیرت سے بھارتی براڈ کاسٹر سے یہ پوچھا تو جواب ملا ’’ فکر نہ کریں ٹورنامنٹ ستمبر میں ہی ہوگا،ہماری ٹیم بھی شرکت کرے گی‘‘ یہ بات چیت حال ہی میں ہوئی ہے،پاکستان میں اس وقت چار اسپورٹس چینلز ہیں، ان میں سے ایک سرکاری ٹی وی کی مالی حالت اتنی اچھی نہیں، دوسرا چینل ماضی میں بلیک لسٹ ہو کر اب پرانی ویڈیوز دکھا کر ہی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، حال ہی میں ایک انٹرنیشنل اسپورٹس چینل سے الحاق یافتہ جبکہ ایک اور میڈیا گروپ ہی رائٹس کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں، ہماری مارکیٹ بڑی نہیں،ایسے میں اربوں روپے کی لاگت وصول کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ثابت ہو گا۔ خیر ہمارا ٹاپک یہ نہیں، ہمارے لیے اس میں مثبت بات ایشیا کپ کے حوالے سے مثبت اشارے ہیں، جنگ میں ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارتی میڈیا نے یہ خبریں اڑائی تھیں کہ ٹیم ایشیائی مقابلوں کا حصہ نہیں بنے گی، البتہ بی سی سی آئی نے باضابطہ طور پر ایسی رپورٹس کو مسترد کر دیا تھا۔  حال ہی میں ویمنز ورلڈکپ کیلیے پاک بھارت ٹیموں کو آئی سی سی نے ایک ہی گروپ میں شامل کیا جس پر پڑوسی ملک میں کوئی شور نہ مچا، جونیئر ہاکی ورلڈکپ میں بھی پاکستانی ٹیم کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے، پاکستان اور بھارت میں میڈیا مینجمنٹ الگ انداز سے ہوتی ہے، بھارت میں کرکٹ بورڈ حکام شازونادر ہی سامنے آتے ہیں، وہ صحافیوں کو خبریں فیڈ کر کے ذرائع کے حوالے سے چلواتے ہیں، جیسا چیمپئنز ٹرافی کے دوران ہوا۔ پی سی بی حکام پھر بھی کبھی کبھار میڈیا سے بات کر ہی لیتے ہیں، ایشیا کپ کے حوالے سے بھارتی میڈیا آج کل منفی خبریں نہیں دے رہا، اس کا مطلب ہے انھیں بھی بی سی سی آئی سے یہی اشارے ملے ہیں کہ ایونٹ ہوگا۔ ایشیائی کرکٹ کے 8 سالہ میڈیا رائٹس گذشتہ برس ہی 170 ملین ڈالر کے عوض بھارتی میڈیا گروپ کو جے شاہ نے ہی فروخت کیے، جنگ تو ابھی ہوئی اس سے پہلے دونوں ممالک کے تعلقات کون سے مثالی تھے؟ اس کے باوجود اتنا بڑا معاہدہ ہوا جس میں چار ایشیا کپ اور دیگر ویمن اور جونیئر ایونٹس شامل ہیں ، ہر میں روایتی حریفوں کے کم از کم 2 میچز کا یقین دلایا گیا ہے۔  ذرائع بتاتے ہیں کہ سونی کو بھی بی سی سی آئی کی جانب سے اب یہی کہہ دیا گیا ہے کہ ڈرو نہیں ہماری ٹیم ایشیا کپ میں کھیلے گی، باہمی تعلقات جتنے بھی خراب ہوں آج تک بھارتی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کیخلاف آئی سی سی ایونٹ میں مقابلے سے کبھی انکار نہیں کیا، اس کی واحد وجہ میڈیا رائٹس ہیں جو بھارتی چینلز کے پاس ہی ہوتے ہیں۔  اربوں روپے کی سرمایہ کاری کو ایسے ضائع نہیں کیا جا سکتا، اس وقت ’’دشمنی‘‘ بھلا دی جاتی ہے، اتنے بڑے معاہدوں میں ظاہر ہے سیاست دانوں کا بھی شیئر ہوتا ہوگا لہذا وہ بھی اعتراض نہیں کرتے، خوش قسمتی سے پاکستان کبھی کھیلوں میں سیاست کو نہیں لاتا، ہماری حکومت بھی نہیں کہتی کہ اس سے کھیلو اس کیخلاف نہ کھیلو،اس واضح پالیسی کی وجہ سے بورڈ کو فیصلے کرنے میں مشکل نہیں ہوتی۔  اس بار ایشیا کپ کا بھارت میزبان ہے اور رپورٹس کے مطابق وہ امارات کرکٹ بورڈ سے میچز کرانے کیلیے بات بھی کر چکا،12 سے28 ستمبر تک انعقاد متوقع ہے، پہلے بھی ایشیا کپ دبئی میں ہو چکا اب بھی ایسا ممکن ہوگا، پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ملک میں نہ جانے اور نیوٹرل وینیو پر کھیلنے کا معاہدہ کر چکے ہیں،ایشیائی ایونٹ پر بھی اس کا اطلاق ہوگا۔  پاک بھارت کرکٹ تعلقات میں توازن لانے کا کریڈٹ محسن نقوی کو جاتا ہے، انھوں نے چیمپئنز ٹرافی سے قبل واضح موقف اپنایا جس پر بھارت معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا،ورنہ ہماری ٹیم تو آئی سی سی ایونٹس کیلیے وہاں جاتی تھی وہ نہیں آتے تھے۔  اب بی سی سی آئی کو بخوبی علم ہے کہ وہ جیسا کرے گا پاکستان کی جانب سے زیادہ سخت ردعمل سامنے آئے گا، اس لیے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ستمبر میں ایشیائی کرکٹ کے حکمران کا تعین کرنے کیلیے میدان سجے گا، البتہ بھارت کا کوئی بھروسہ نہیں، کیا پتا عین وقت پر وہ کوئی شرارت کر دے اس لیے محسن نقوی کو بطور ایشیائی کرکٹ چیف پلان بی بھی تیار رکھنا ہوگا۔  ویسے بھی جنگ میں بھارت کا جو حال ہوا اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ اب کرکٹ میچ میں ہی پاکستان کو ہرا کر اپنی عوام کو کوئی خوشی فراہم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے، یا اکشے کمار یا اجے دیوگن کی ایک، دو فلمیں بنا کر ان میں خیالی کامیابی سے اپنی قوم کو مطمئن کیا جا سکتا ہے۔  خیر جو بھی ہو شائقین کیلیے روایتی حریفوں کے میچز ہمیشہ دلچسپی کا باعٹ ہوتے ہیں اب بھی یہی توقع ہے، پاکستانی تو ویسے ہی کرکٹ کے منتظر ہیں، حیرت اس بات کی ہے کہ پی ایس ایل سے قبل سیریز رکھ کر اپنے کھلاڑیوں کو تھکا دیا گیا اور اب کوئی میچ ہی نہیں ہے۔  اگر بنگلہ دیش جولائی میں تین اضافی ٹی 20 میچز کھیلنے پر آمادہ نہ ہوتا تو یہ آف سیزن مزید طویل ہو جاتا، ان دنوں بیشتر ٹیمیں کرکٹ کھیلنے میں مصروف ہیں،زمبابوے تک کے میچز ہو رہے ہیں اور ہماری ٹیم فارغ ہے،ایک اسٹار کھلاڑی اپنے شوروم مالک دوست کے ساتھ یورپ میں چھٹیاں منا رہے ہیں، دیگر کہیں اور ٹائم پاس کر رہے ہیں، گوکہ کیمپ تو لگایا گیا لیکن اس کا کوئی اتنا زیادہ فائدہ نظر نہیں آتا، بورڈ کے بھی بعض آفیشلز لاہور کی گرمی سے تنگ آ کر بیرون ملک جا چکے۔ آج کل زیادہ فراغت والا دور نہیں ہے، 15،20 دن کا آرام کافی ہوتا پھر چند میچز رکھ دیتے،آئندہ فیوچر ٹور پروگرام کے حوالے سے بھی پاکستان کو خاصی محنت کی ضرورت ہے، سمیر سید کو کرکٹ کا علم نہیں لہذا پرانے آفیشلز کو ان کی رہنمائی کرتے رہنا چاہیے، میدان آباد ہی اچھے لگتے ہیں،کیمپ میں جو بھی کر لیں میچ کی بات ہی الگ ہے، ایشیا کپ اور پھر ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈکپ بھی ہوگا، اس کی تیاری بنگلہ دیش کو ہرا کر ممکن نہیں مضبوط ٹیموں سے جتنے میچز ہوئے اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ (نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل