Loading
پاکستان کے ایک ذمے دار ادارے نے یہ انکشاف خیز رپورٹ پاکستان کی وزارتِ داخلہ کے ذمے داران کے حضور پیش کی ہے کہ پچھلے تین برسوں کے دوران اسلام آباد میں 600افراد قتل کیے گئے ہیں : یعنی ہر سال 200افراد کا بہیمانہ قتل!ہم اِسی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت ، اسلام آباد، میں شہریوں کو کتنی سلامتی حاصل ہے ؟ اسلام آباد کے مکین قاتلوں ، رہزنوں اور ڈاکوؤں سے کتنے مامون اورمحفوظ ہیں؟ اگر پاکستان کا وفاقی دارالحکومت قاتلوں کی دست برد سے محفوظ نہیں ہے تو پاکستان کے باقی حصوں اور خطوں کی سلامتی بارے کیا کہا جا سکتا ہے ؟ ایک نجی ٹی وی کے رپورٹر نے مذکورہ رپورٹ پر ، اسلام آبادی پولیس کا دعویٰ ہے کہ کچھ عرصہ سے اسلام آباد میں جرائم کی شرح خاصی کم ہُوئی ہے ۔ یہ شرح کتنی کم ہُوئی ہے ، راقم آپ کو آپ بیتی سناتا ہے : میرا بیٹا حال ہی میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کراسلام آباد کے ایک نجی ادارے میں انٹرن شپ کررہا ہے ۔ شام گئے اُسے چھُٹی ملتی ہے ۔ چند روز قبل وہ چھُٹی کے بعد بس اسٹاپ پر اپنی گاڑی کے انتظار میں کھڑا تھا کہ دو موٹر سائیکل سوار آئے اور پستول دکھا کر اُسے موبائل فون اور بٹوہ نکالنے کا کہا۔ وہ بیچارہ حواس باختہ ہو گیا ۔ چند ہی قدموں کے فاصلے پر چند اور لوگ بھی کھڑے تھے ۔ کوئی بھی مگر مدد کو نہ آیا ۔ سہمے ہُوئے میرے بیٹے نے موبائل فون بھی رہزنوں کے حوالے کر دیا اور بٹوہ بھی۔ بٹوے میں تین ہزار روپے پڑے تھے ۔ دفتر اور ذاتی آئی ڈی کارڈز بھی ۔ سب رہزنی کا ہدف بن گئے ۔ میرے کہنے پر میرا بیٹا اسلام آباد کے ایک نزدیکی تھانے میں ایف آئی آر درج کروانے گیا مگر متعلقہ ’’صاحب‘‘ نے رپٹ درج کرنے سے صاف انکار کر دیا ، یہ کہہ کر کہ پہلے چھینے گئے موبائل فون کی اصل رسید دکھاؤ ، پھر ایف آئی آر درج کروں گا۔ بیٹے نے دفتری دوستوں سے قرض لے کر ایک سستا سا نیا موبائل فون خرید لیا ہے ۔لیکن میرا بیٹا وفاقی دارالحکومت میںسرِ عام رہزنی کی اِس واردات سے نفسیاتی اعتبار سے اس قدر خوف کا شکار ہو چکا ہے کہ اب دفتر سے واپسی پر تاخیر کی صورت میں اُس کی والدہ اُسے فون کرکے خیر خیریت دریافت کرنا بھی چاہے تو وہ مارے ڈر کے فون ہی نہیں اُٹھاتا ۔ اِس خوف کے زیر تسلّط کہ کہیں یہ موبائل بھی چھِن نہ جائے ۔ملک بھر میں موبائل فون چھینے جانے کی اِس طرح کی ہزاروں، لاکھوں وارداتیں ہو چکی ہیں ۔ کئی لوگ مزاحمت میں جانوں سے ہار چکے ہیں، لیکن قانون شکن اس قدر دلیر ہو چکے ہیں کہ موبائل فون چھیننے کی وارداتیں رُک نہیں رہیں ۔اور یہ ایسے ملک میں وارداتیں ہو رہی ہیں جو خیر سے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ بھی کہلاتا ہے اور ’’اسلام کا قلعہ ‘‘ بھی ۔ اِس قلعہ میں مگر کوئی محفوظ بھی ہے ؟ بلند بانگ دعوؤں کے باوصف لاہور بھی ایسی وارداتوں سے محفوظ نہیں ۔ راقم آپ کو ایسی ہی ایک سچی واردات سناتا ہے : میرے بچپن کے دوست، ملک محمد قدیر، کے یہ بڑے بھائی صاحب ہیں ۔ نام اُن کا ملک محمد نیاز ہے ۔ میٹرک کے بعد ہی والد صاحب کی خاصی بڑی کریانے کی دکان پر بیٹھ گئے ۔ رفتہ رفتہ والد صاحب کی ساری بزنس ذمے داریوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا ۔ اپنے ایک بھائی کو ایم ایس سی کروایا اور پھر امریکا بھجوایا۔ دوسرے بھائی کو الیکٹریکل انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم دلوائی ۔ وہ ایس ڈی او بن گئے مگر پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کینیڈا چلے گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ ملک نیاز صاحب کا کاروبار اچھا بھلا چل رہا تھا ، لیکن پھر اچانک زوال کا شکار ہونے لگا ۔ دوسری جانب چھ بچے تیزی سے جوان ہو رہے تھے ۔ اُن کے تعلیمی اخراجات بھی روز افزوں تھے ۔ ایک بیٹا لاہور کے ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج میں داخل تھا ۔ اُس کے بھاری اخراجات اُٹھانا مشکل ہورہے تھے ۔ بہرحال بیٹا ایم بی بی ایس کر گیا اور لاہور کے ایک سرکاری اسپتال میں ملازم ہو گیا ۔ تنخواہ بھی اچھی ملنے لگی تھی ۔ شام کے وقت وہ ایک نجی اسپتال میں جز وقتی کام کرکے اضافی یافت بھی کرنے لگا تھا ۔ ملک نیاز قدرے مطمئن تھے کہ اللہ کا شکر ہے اب معاشی تنگدستی کے دن گزر گئے ہیں ۔ مگر نہیں ۔ ابھی سخت آزمائشیں اُن کی تاک میں تھیں ۔ مجھے ملک نیاز صاحب کا گزشتہ روز فون آیا ۔ لرزتی اور کانپتی آواز میں مجھے بتایا:’’ یار، کیا بتاؤں ۔ پچھلے تین ماہ سخت عذابوں اور آزمائشوں میں گزرے ہیں ۔ میرا ایم بی بی ایس بیٹا شام کے وقت، سرکاری ڈیوٹی کے بعد، جِم سے واپس آرہا تھاکہ راستے میں دو مسلح لڑکوں نے اُس کا راستہ روکااور اُس کا موبائل فون بزور چھیننا چاہا ۔ بیٹے نے مزاحمت کی تو دونوں مسلح لڑکوں نے اُسے گولی مار دی ۔ مَیں اُس وقت نماز پڑھ کر مسجد میں ذکر اور تسبیح کررہا تھا کہ مسجد کے سامنے واقع میرے گھر سے برہنہ پا میری بیٹی روتی کرلاتی مسجد میں میرے پاس آئی اور کہا:ابا جی، بھائی کو کسی نے گولی مار دی ہے ۔ ‘‘وہ بتا رہے تھے :’’ سن کر میری آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا ۔ جوتا پہنے بغیر میں جائے وقوعہ کی جانب بھاگا ۔ وہاں زمین پر میرا بیٹا خون میں لَت پَت پڑا تھا ۔ فوری طور پر اُسے اُسی سرکاری اسپتال پہنچایا جہاں وہ بطور ڈاکٹر ملازمت کررہا ہے ۔ پتہ چلا کہ گولی بیٹے کی پسلیوں کو چیرتی ہُوئی ایک پھیپھڑے اورجگر کے نچلے حصے کو شدید گزند پہنچاتے ہُوئے باہر نکل گئی ہے ۔ بیٹا موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا کئی روز تک اسپتال میں زیر علاج رہا ۔میری تو دُنیا ہی اندھیر ہو چلی تھی ۔ بڑھاپے کی لاٹھی ٹوٹتی محسوس ہو رہی تھی ۔ کوئی پانچ ہفتوں کے بعد شدید مجروح بیٹا ہوش میں آنے لگا ۔ پھرمعلوم ہُوا کہ اُس کے پھیپھڑوں میں پانی بھر گیا ہے ۔ ساتھ ہی شدید بخار نے آ گھیرا ۔ میرے لیے تو اسپتال ہی ٹھکانہ بن چکا تھا ۔‘‘ وہ ٹوٹتی آواز میں مزید بولے:’’ بیٹا اب تقریباً صحتیاب ہو چکا ہے ۔ ایک پھیپھڑا مگرپورا کام نہیں کررہا ۔ اِس جزوی صحت پر بھی خدا کا شکر ہے ۔ ابھی بیٹا سرکاری ڈیوٹی ادا کرنے سے قاصر ہے ۔ چلنے پھرنے میں تکلیف ہے ۔لاٹھی کے سہارے چلتا پھرتا ہے ۔ اللہ کا شکر ہے بیٹے کی زندگی بچ گئی ۔ مکمل صحت بھی ، انشاء اللہ، مل جائے گی ۔ آپ بھی میرے بیٹے کی صحتِ کاملہ و عاجلہ کے لیے دعا کیجیے ۔‘‘ سانحاتی واقعہ سُن کر اب تک راقم لرزہ براندام ہے ۔دل اور دماغ پر فکر و پریشانی کا ایک کہر سا جم گیا ہے ۔ اِس کے برعکس ایک غیر اسلامی ملک کا واقعہ سُنئے : ہمارے ایک انگریزی معاصر میں یہ واقعہ ایک خط کی شکل میں شایع ہُوا ہے ۔ واقعہ کے مطابق ، امریکا سے جاپان آئی ایک پاکستانی نژاد فیملی اپنے ایک دوست کے ہاں ٹھہری ۔ واپسی پر جاپانی ائر پورٹ پر ہی اُن کے بڑے بیٹے کا انتہائی قیمتی موبائل فون کہیں گر گیا ۔ نوجوان بیٹا خاصا پریشان تھا اور شور مچا رہا تھا ۔ اوپر سے فلائیٹ کا ٹائم بھی ہورہا تھا ۔ ایسے میں میزبان جاپانی فیملی نے اُسے کہا: گھبراؤ مت بیٹا، تم بس ائر پورٹ پولیس کو یہ شکائت درج کروا دو اور اپنے پاسپورٹ کی ایک کاپی بھی فراہم کر دو ۔ ایسا ہی کیا گیا ۔ کوئی دو ہفتے بعد امریکا سے پاکستانی فیملی نے اپنے جاپانی دوست خاندان کو مطلع کیا کہ کھویا گیا موبائل فون ہمیں بذریعہ ڈاک مل گیا ہے۔ یہ ائر پورٹ کی پارکنگ میں گرگیا تھا اور جاپانی پولیس کے ایک اہلکار کو مل گیا تھا ۔یہ خط پڑھ کر مجھے خود پر بیتے ہُوئے مذکورہ بالا دونوں سانحات پھر سے یاد آنے لگے ۔ دل میں ایک ہُوک سی اُٹھی ۔ خود سے کہا: کاش،جاپانی پولیس کا کردار ہمارے مبینہ اسلامی قلعہ میں بھی کہیں نظر آتا!
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل