Loading
چودہ سو سال قبل دس محرم الحرام اکسٹھ ہجری کو حق و باطل کا جو معرکہ میدانِ کربلا میں پیش آیا، اس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔ تاریخ آج تک ایسے خونیں معرکے اور دل سوز واقعات کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے، جہاں ایک طرف سپاہ یزید اپنی عددی برتری اور ہتھیاروں سے لیس رعونت، تکبّر، سنگ دلی اور بے رحمی کا مجسمہ بنی ہوئی تھی وہاں دوسری طرف حسینی فوج کے چھے ماہ کے شیر خوار بچے سے لے کر اسّی سالہ عمر رسیدہ گنے چنے مجاہد صبر، حوصلے، استقامت، بہادری اور جواں مردی کی زندہ مثال بنے ہوئے تھے۔ فرش تا عرش اس قلیل فوج کی بہادری اور حوصلے کی گونج تھی۔ جہاں نوجوان یداﷲ کی نظیر بنے ہوئے تھے۔ وہاں بچے بھی اس معرکے میں اپنے جوہر دکھانے کو بے تاب نظر آئے۔ مستورات بڑے حوصلے اور استقامت سے اپنے پیاروں کو تیار کرکے میدانِ جنگ میں پیش کر رہی تھیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ چہرے کبھی دوبارہ دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جب امام عالی مقام حسین ابن علی کرم اﷲ وجہہ نے ایک رات قبل جب تمام رفقاء کو بلا کر رات کے اندھیرے میں چلے جانے کا کہا، تو کوئی ایک فردِ واحد بھی امام عالی مقام حضرت حسینؓ کو چھوڑنے کو تیار نہ ہُوا بل کہ جذبے اور جوش سے ساتھ دینے کو تیار تھے۔ ان تمام ہستیوں کے ذہن میں صرف یہی امر قابل حال تھا کہ چند دنوں کی زندگی کو بچا کر وہ اپنی اخروی دنیا کو نیست و نابود نہیں کرنا چاہتے تھے۔ سب کی ایک ہی سوچ تھی کہ دنیا فانی ہے اور اگر اس حق و باطل کے معرکے میں حسین ابن حیدرؓ کا ساتھ چھوڑ دیا، تو آخرت میں ناکامی اور رسوائی ان کا مقدر ہوگی۔ یہی فکرِ آخرت اور سوچ حضرت حر کو یزیدی فوج سے نکال کر فوجِ حسینی میں لے آئی۔ یہی فکر آخرت موت کا ڈر و خوف ختم کیے ہوئے تھی۔ بوڑھوں میں تازگی، جوانوں میں جوش اور بچوں میں جذبہ اور عورتوں میں حوصلہ پیدا کیے ہوئے تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بہتّر افراد پر مشتمل قلیل اور مٹھی بھر فوج نو لاکھ فوج سے معرکہ زن ہوئی۔ ان کو جب حوضِ کوثر یاد آتا تو اپنی پیاس کی شدت کو بھول جاتے۔ جب سایۂ تختِ رحمت ذہن میں آتا تو آگ اُگلتے ریت کے صحرا اور سورج کی قہر برساتی تپش کو فراموش کر دیتے تھے۔ یہ ہستیاں حق کا ساتھ چھوڑ کر روزِ محشر اﷲ اور اس کے بھیجے ہوئے آخری پیام بر خاتم الانبیاء جناب رسول کریم ﷺ کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتی تھیں۔ ان ہستیوں نے اپنے خون سے شجرِ توحید کی ایسی آب یاری کی کہ تا حشر یہ شجر برگ و بار رہے گا۔ امام حسینؓ اگر چاہتے تو یزید ملعون کی بیعت کرکے اپنی اور اپنے رفقاء کی زندگی بچا سکتے تھے اور باقی زندگی آرام و سکون سے بسر کر سکتے تھے، مگر آپؓ کے سامنے فکرِ آخرت تھی لہٰذا آپؓ نے ایسا نہ کیا۔ آپؓ نے آخرت کو دنیا پر ترجیح دی اور حق کی خاطر لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ معرکہ کربلا نے جہاں سچائی اور منافقت کے درمیان خطِ امتیاز کھینچ دیا، وہاں فکر آخرت کی دعوت بھی دی کہ یہ دنیا فانی ہے۔ ہر چیز کو فنا حاصل ہے، کام یاب اور کام ران وہی لوگ ہیں جنھوں نے عارضی دنیا اور لذتوں کو اخروی اور ابدی زندگی پر قربان کیا۔ اﷲ نے ایسے ہی لوگوں پر اپنی نعمتیں تمام کی ہیں۔ آسائشِ دنیا کو اسلام کی خاطر چھوڑنے والوں کے لیے ابدی سکون اور نعمتوں کا وعدہ کیا ہے۔ حق اور سچائی کی خاطر لڑنے والوں کے لیے اور جان نثار کرنے والوں کے لیے شہادت جیسا اعلیٰ مرتبہ رکھا ہے۔ آج کے موجودہ حالات میں معرکہ کربلا درس دیتا ہے کہ کبھی بھی یزیدی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہونا چاہیے۔ یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے، ہمیں ابدی زندگی کی فکر کرنی چاہیے اور حق و سچائی کا ساتھ دینا چاہیے۔ اور جتنے زیادہ مصائب اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑے صبر و استقامت سے کام لینا چاہیے۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جس نے حق کا ساتھ دیا اور دشمن سے مرعوب نہ ہوا اُسی نے دائمی کام یابی حاصل کی اور فلاح پائی۔ صرف اپنے سواد کے لیے جینا ہی زندگی نہیں بل کہ حق کی راہ میں جان دینے کا نام بھی زندگی ہے۔ ایسے لوگ ہی ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں اور آخرت میں بھی جنت میں اپنا اعلیٰ ٹھکانا حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآن مجید میں اﷲ رب العزت نے فرمایا ہے، مفہوم: ’’یہ لوگ دل پسند اور عیش و عشرت والی زندگی میں مگن ہوں گے، نہ وہ رنجیدہ ہوں گے اور نہ ہی انھیں کوئی غم ہوگا، اور وہ ایسی جنت میں ہوں گے جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل