Loading
اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ تیزکردیا ہے، گزشتہ روز غزہ بھر میں بمباری، فائرنگ اور حملے کرتے ہوئے خواتین اور بچوں سمیت 118فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا۔ دوسری جانب برطانوی اخبار دی ٹائمز کے مطابق قطری ثالثوں نے دوحہ میں موجود حماس کی اعلیٰ قیادت سے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے لیے اپنے ذاتی ہتھیار حوالے کردیں۔ اس وقت دنیا کی نگاہیں غزہ میں جنگ بندی کی جانب مرکوز ہیں، ٹرمپ نے کہا تھا کہ اسرائیل نے حماس کے ساتھ 60 روزہ جنگ بندی کے لیے درکار شرائط مان لی ہیں جب کہ حماس کا کہنا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ ’’حتمی‘‘ جنگ بندی تجویزکا جائزہ لے رہی ہے۔ اس وقت حماس کی کوشش ہے کہ اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی پر عمل کے لیے گارنٹیز مل جائیں۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اگر حماس راضی ہو جائے تو اسرائیلی وفد فوری طور پر دوحہ روانہ ہو جائے گا تاکہ معاہدے کی باضابطہ تفصیلات طے کی جا سکیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس سے پہلے بھی درجنوں بار ایسے امن معاہدے کاغذوں پر تو طے پائے، لیکن حقیقت میں زمینی صورتِ حال بدستور خون ریزی میں ڈوبی رہی۔حماس بہت کمزور ہونے کے باوجود ابھی بھی زندہ ہے اور حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے دوران یرغمال بنائے گئے کئی یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں کچھ غلطی سے اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ اسرائیلی اپنے اسیروں کی واپسی کو ایک مقدس فریضہ کے طور پر دیکھتے ہیں، جو کہ بڑی تعداد میں حماس اور القسام بریگیڈز کے قیدیوں کو یک طرفہ معاہدوں میں رہا کرنے کی اذیت ناک قیمت ہے۔ مہینوں کے مذاکرات کے ذریعے کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی نے اسرائیل کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ نیتن یاہو نے مکمل فتح اور تمام اسیروں کی واپسی کا وعدہ کیا تھا، لیکن انھیں اپنی ہی مخالفت میں اسرائیلی عوام کے بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یرغمال خاندانوں سمیت کچھ ناقدین نے، ان پر الزام لگایا کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی پر اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس دوران اسرائیل کی فوجی مہم کو عالمی سطح پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے نسل کشی کے الزامات پر غور کیا اور بین الاقوامی فوجداری عدالت نے نیتن یاہو، ان کے سابق وزیر دفاع پر جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام لگاتے ہوئے گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے تھے۔اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے امکان کافی زیادہ ہوگئے ہیں۔ جنگ بندی کے لیے یہ کوششیں بارہ روز حالیہ جنگ کے بعد تیز کر دی گئی ہیں۔ اسرائیل کو امید ہے کہ جنگ بندی کے نتیجے میں اسرائیلی قیدیوں کو حماس کے عسکری ونگ کی حراست سے رہائی مل جائے گی۔ یہ اسرائیلی قیدی تقریباً 21 ماہ سے غزہ میں قید ہیں۔ اسرائیلی عوام کے لیے یہ بہت تشویش کی بات ہے کہ ان کی فوج غزہ سے اکیس ماہ کے دوران قیدی چھڑانے میں ناکام ہے۔ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پانے والا ممکنہ معاہدہ امن کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ اس وقت غزہ کی فضاؤں میں ایک بار پھر بارود کی بو ہے، ایک بار پھر نہتے فلسطینی، بچے، بوڑھے، عورتیں زمین پر اپنے جسموں پر ہونے والے ظلم کی ایک نئی داستان رقم کر رہے ہیں۔ بمباریاں، ٹینکوں کی گھن گرج، لڑاکا طیاروں کی گونج اور فضا میں بکھری انسانی لاشیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں، مگر عالمی طاقتیں اب بھی مصلحت اور مفادات کی سیاست میں الجھی ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی خاموشی، اسلامی دنیا کی بے حسی، اور مغربی دنیا کی دہری پالیسی فلسطینیوں کے زخموں کو مزید گہرا کر رہی ہے۔ گزشتہ روز اسرائیل کی طرف سے غزہ پر ہونے والے شدید حملوں میں 118 معصوم فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں بلکہ ہر ایک جان کے پیچھے ایک خاندان، ایک دنیا، ایک خواب اور ایک کہانی دفن ہوگئی ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ حماس کے عسکری ڈھانچے کو تباہ کر رہا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اسکول، اسپتال، کیمپوں اور رہائشی عمارتوں پر ہونے والی بمباری کن بنیادوں پر کی جا رہی ہے؟ دنیا کیوں خاموش ہے جب ایک پورے خطے کو زمین بوس کیا جا رہا ہے؟قطر میں موجود حماس کی اعلیٰ قیادت سے کہا گیا ہے کہ وہ جنگ بندی کے بدلے اپنے ذاتی ہتھیار حوالے کر دے، ایک ایسا مطالبہ جسے کوئی بھی عسکری تنظیم بغیر سیاسی ضمانت کے تسلیم نہیں کرے گی۔ حماس کی سوچ شاید یہی ہے کہ بغیر مکمل اسرائیلی انخلاء اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے کسی قسم کا ہتھیار ڈالنا دراصل فلسطینی مزاحمت کا خاتمہ ہوگا، جس کے بعد اسرائیل مزید ظلم کی راہ پر کھل کر چل سکے گا۔فلسطینی عوام کے لیے یہ صورتِ حال دو دھاری تلوار ہے۔ ایک طرف مسلسل جنگی کارروائیوں سے ان کی زندگی اجیرن بن چکی ہے، دوسری طرف بین الاقوامی دباؤ کے تحت اگر حماس جنگ بندی پر راضی ہو جائے تو فلسطینیوں کو خطرہ ہے کہ اسرائیل اپنے اہداف حاصل کرنے کے بعد دوبارہ حملہ آور ہو جائے گا۔ ماضی کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کے اعلانات کے باوجود اپنی کارروائیاں جاری رکھتا رہا ہے۔غزہ کی صورتحال کو انسانی بحران کہنا اب کافی نہیں رہا۔ اب یہ بحران ایک مکمل نسل کشی کا روپ دھار چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ، ریڈکراس اور دیگر انسانی تنظیمیں بار بار کہہ رہی ہیں کہ غزہ میں خوراک، پانی، ادویات اور بنیادی سہولیات ختم ہو چکی ہیں۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، اسپتال زمین بوس ہیں اور بچے غذائی قلت کا شکار ہو کر دم توڑ رہے ہیں۔ پھر بھی دنیا کی بڑی طاقتیں محض بیان بازی اور رسمی مذمت تک محدود ہیں۔ امریکا کے لیے یہ ایک نازک موقع ہے، اگر وہ واقعی ایک دیانت دار ثالث کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے صرف اسرائیل کے مفادات کا تحفظ نہیں بلکہ فلسطینیوں کی بقا کو بھی مساوی اہمیت دینا ہوگی۔ جب تک جنگ بندی کے منصوبے میں فلسطینی عوام کی مکمل سیکیورٹی، بنیادی سہولیات کی بحالی اور اسرائیلی فوج کا غزہ سے مکمل انخلاء شامل نہیں ہوگا، تب تک کوئی بھی معاہدہ دیرپا ثابت نہیں ہو سکے گا۔دوسری جانب اسرائیل میں بھی سیاسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ وزیر اعظم پردباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ اس جنگ کو جلد از جلد ختم کرے کیونکہ ملک کے اندر معاشی دباؤ اور بین الاقوامی ساکھ کا بحران جنم لے چکا ہے۔ امریکا اور یورپی یونین کی طرف سے مسلسل اسرائیل پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ جنگ بندی کی جانب بڑھے، تاکہ خطے میں امن قائم ہو سکے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل اپنے اہداف حاصل کرنے کے بعد ہی کسی قسم کی بات چیت پر آمادگی دکھاتا ہے۔حماس کے پاس بھی اب وقت محدود ہے، اگر وہ جنگ بندی پر رضامند ہوتی ہے تو اسے یقین دہانی حاصل ہونی چاہیے کہ فلسطینی قیدی رہا ہوں گے، غزہ میں دوبارہ تعمیر کا عمل شروع ہوگا اور اسے ایک سیاسی فریق کے طور پر قبول کیا جائے گا، اگر یہ شرائط پوری نہیں ہوتیں تو حماس کے لیے جنگ بندی قبول کرنا اپنی سیاسی ساکھ کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہوگا۔یہ ایک سفارتی جنگ ہے جو بند کمروں میں لڑی جا رہی ہے، جب کہ میدان میں عام فلسطینی اپنی جان سے لڑ رہا ہے۔ دنیا کے ضمیرکو جھنجھوڑنے کے لیے اب مزید کتنی لاشیں درکار ہیں؟ مزید کتنے معصوم بچے خون میں نہلا کر دنیا کو دکھایا جائے کہ ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے؟فلسطینی عوام کا مستقبل اس وقت غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ ایک طرف مکمل تباہ حال انفرا اسٹرکچر ہے، دوسری طرف مستقبل کا کوئی روڈ میپ موجود نہیں۔ تعلیم، صحت، روزگار، رہائش، سب کچھ ملبے کے ڈھیر میں دفن ہو چکا ہے، اگر عالمی برادری سنجیدہ ہے تو اب اسے صرف جنگ بندی کے لیے نہیں بلکہ ایک مکمل بحالی پروگرام کے لیے بھی آگے آنا ہوگا۔ فلسطینیوں کو اپنے پیروں پرکھڑا ہونے کے لیے مالی، فنی اور سیاسی مدد درکار ہے۔ دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ غزہ کے لوگ صرف امداد نہیں چاہتے، وہ عزت، خود مختاری اور ایک آزاد ریاست کا حق چاہتے ہیں۔ جب تک انھیں یہ حق نہیں دیا جائے گا، تب تک نہ کوئی جنگ بندی دیرپا ہوگی، نہ کوئی معاہدہ موثر۔یہ وقت ہے جب امریکا، قطر، مصر، اور دیگر ثالث ممالک کو اپنے کردار کو سنجیدگی سے ادا کرنا ہوگا۔ اسرائیل کو اپنی جارحیت بند کرنی ہوگی، حماس کو بھی سیاسی حکمت عملی اپنانی ہوگی اور دنیا کو فلسطینیوں کو صرف ایک مظلوم قوم کے طور پر نہیں بلکہ ایک باوقار قوم کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔آخر میں سوال وہی ہے جو دنیا کا ہر حساس انسان اپنے آپ سے کر رہا ہے: کیا ہم واقعی انسان ہیں؟ کیا ہم واقعی ظلم کے خلاف ہیں؟ اگر ہاں، تو پھر ہمیں صرف خاموش تماشائی بننے کے بجائے، اس نسل کشی کو رکوانے کے لیے عملی قدم اٹھانا ہوگا۔ اگر امریکی کوششیں کامیاب ہو جاتی ہیں، اگر حماس اور اسرائیل کسی عبوری معاہدے پر پہنچ جاتے ہیں، تو یہ ایک پہلا قدم ہوگا ایک طویل اور کٹھن سفر کی طرف۔ اس کے بعد سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ غزہ کو پھر سے زندگی دینا اور فلسطینیوں کو امید دینا کہ ان کا کل آج سے بہتر ہو سکتا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل