Loading
پاکستان کے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل حمید گل مرحوم کا کسی اخبار کے لیے آخری انٹرویو میں نے کیا تھا۔ صحافتی زندگی میں جن شخصیات نے ذہن پر گہرا نقش چھوڑا ان میں جنرل حمید گل بھی شامل ہیں۔ اس انٹرویو کے دوران انھوں نے بتایا کہ افغان جہاد کا آغاز سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ یہ بات یقیناً ہمارے لیے کچھ حیرت کا باعث تھی۔ اُن کا کہنا تھا ریاستوں کی بنیادی پالیسیاں شخصیات کی باہمی چپقلش کی نذر نہیں ہوا کرتیں۔ حالانکہ بھٹو صاحب سیاسی اعتبار سے بائیں بازو کے نظریات کی جانب جھکاؤ رکھتے تھے اور بعد میں بائیں بازو سے نظریاتی مطابقت رکھنے والی ملکی سیاسی جماعتوں نے اس جنگ میں افغانستان کے مذہبی عناصر کے خلاف روس نواز طبقوں کی حمایت کی، لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ بھٹو صاحب اور ہمارے ادارے اس بات کو بھانپ چکے تھے کہ افغانستان میں بائیں بازو کی سیاسی قوتوں ’خلق اور پرچم‘ ( پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کے دو دھڑے )کی جانب سے انقلاب ثور کے ذریعے صدر محمد داؤد کا تختہ اُلٹ دیے جانے کے بعد اب پاکستان کی مغربی سرحد پر حالات موافق نہیں رہیں گے۔ سو ہوا بھی یہی، 1979 میں روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوگئیں اور اُس طویل جنگ کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں ہمارا یہ خطہ دہائیوں تک غیر معمولی مشکلات کا شکار رہا۔ جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ ہم نے اُسی وقت سے انقلاب مخالف قوتوں کی مدد کا آغاز کر دیا تھا۔ طویل عرصہ تک خانہ جنگی اور بیرونی عسکری مداخلت کا شکار رہنے والے علاقوں میں ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ مار دھاڑ کرنے والے عسکری گروہ ایک دائمی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں، حالانکہ ان کی ضرورت وقتی ہوتی ہے۔ یہی کچھ افغانستان میں بھی ہوا۔ افغانستان میں اُترنے والی عسکری قوتوں نے افغانستان کے ساتھ پاکستان کو بھی اس لیے نشانے پر رکھا کیونکہ ان کے پاکستان کے ساتھ قریبی نسلی تعلق کی بنا پر افغانستان میں جاری تصادم میں پاکستان کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا۔ پاکستان کے اثر کو کمزور کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہوئے ریاست مخالف سیاسی اور عسکری سرگرمیوں کو منظم کیا گیا۔ دہشت گردی کے جس طوفان کا پاکستان نے سامنا کیا ہے اور ابھی تک کر رہا ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اس صورتحال کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جب ہم اس جنگ میں اُلجھ گئے تو ہمارے سب دشمن اس میں کود پڑے۔ انھیں یہ نظر آرہا تھا کہ مشکل کے اس دور میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا مقصد زیادہ آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے لہٰذا بھارت نے پہلے سے موجود غیر ریاستی عسکری قوتوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی روش کو نہ صرف یہ کہ جاری رکھا ہوا ہے بلکہ اسے ایک نئی سطح پر پہنچا دیا۔ بھارت نے پوری قوت کے ساتھ صوبائیت اور نسلی منافرت کو ہوا دی۔ پاکستان کے اندر ریاست مخالف تحاریک اور عسکری گروہوں کو منظم کیا اور پوری شدت کے ساتھ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش جاری رکھی۔ اس دوران حالات اس قدر بگڑ چکے تھے کہ پاکستان کے کئی علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کے ذریعے ریاستی عملداری کو بحال کرنا پڑا۔ یہ مسلح افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مُنہ بولتا ثبوت ہے کہ مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال کو انتہائی کامیابی کے ساتھ سنبھال لیا گیا۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں دشمن کا ایک اہم ہدف بلوچستان بھی رہا ہے۔ اپنی غیر معمولی جغرافیائی اہمیت کے اعتبار سے یہ صوبہ تمام عالمی طاقتوں کی نظروں میں ہے۔ چین کے ون بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں کلیدی حیثیت کے باعث بین الاقوامی سیاسی کشمکش میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے، لہٰذا اسی تناسب سے یہاں غیر ملکی مداخلت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو بلوچستان میں تخریب کاری پر ہی مامور تھا جو اب پاکستان کی قید میں ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں جہاں عسکری ذرایع استعمال کرکے مقاصد حاصل کرنے پڑتے ہیں وہیں یہ بھی نہایت ضروری ہو جاتا ہے کہ اُن مسائل کا سد باب ہو جن کے باعث ریاست مخالف سرگرمیوں کے لیے افرادی قوت میسر آ رہی ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا عسکری آپریشنز کے ذریعے آپ دشمن کی ایما پر ریاست کے خلاف برسر پیکار جنگجوؤں کا زور تو توڑ سکتے ہیں، ان کے ذہن نہیں بدل سکتے۔ آپریشن ایک فوری خطرے کے تدارک کی سبیل ہے جب کہ قوم کی ذہن سازی ایک ایسا عمل ہے جس کے اثرات اگلی نسلوں تک چلتے ہیں۔ اس عمل کا ہراول دستہ قوم کے دانشور ہوتے ہیں اور ان کے قلم کی تاثیر سے ایسی جوہری تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے جو ’کارواں کے دل میں احساس زباں پیدا کر دے‘۔ گزشتہ دنوں ایک ایسی ہی موثر کوشش میری نظر سے گزری جسے پڑھنے کے بعد شدت سے یہ احساس ہوا کہ اس کتاب کا ذکر جس قدر ہونا چاہیے وہ نہیں ہوسکا۔ یہ کتاب بلوچستان کے ایک ایسے سرکردہ جنگجو کی داستان حیات ہے جس نے ریاست کے خلاف طویل عرصہ تک جنگ لڑی اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ اپنے لوگوں کے حالات بدلنے کے لیے دلیل بندوق سے کہیں زیادہ موثر اور کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ کہانی ہے ’میر ہزار خان مری، کی، جن کی زندگی کا بڑا حصہ ریاست کے خلاف لڑتے ہوئے گزرا۔ یہ کہانی اس لیے نہایت اہم ہے کیونکہ اس کے ذریعے اس حقیقت کو ایک ایسے شخص کی نظر سے دیکھا جاسکتا ہے جو خود اس کا حصہ رہا کہ کس طرح عالمی طاقتیں اپنے مقاصد کے لیے لوگوں کو اپنی ہی ریاست کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔ دہشت گردی کے اس پیچیدہ منظر نامے میں فرقہ واریت کو بھی استعمال کیا جاتا ہے اور سیاسی وابستگیوں کو بھی۔ بلوچستان میں جس ابتری کا ہمیں سامنا ہے اس میں ریاست کی غلطیاں اور عدم توجہ اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ کتاب ’میر ہزار خان مری: مزاحمت سے مفاہمت تک‘ ، گوکہ بظاہر ایک شخصیت کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے لیکن درحقیقت اس شخصیت کے ذریعے ہم بلوچستان کے اصل مسئلے اور اس کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ کتاب کے مصنف عمار مسعود کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ یوں تو صحافت سے منسلک ہیں لیکن افسانہ نگاری کا ہُنر اِن کی تحریر کا امتیازی وصف ہے۔ اُن کے تعارف میں ٹیلی ویژن بھی شامل ہے۔ افسانہ نگاری کے علاوہ مضامین بھی لکھتے ہیں اور مضامین کا مجموعہ شایع ہوچکا ہے۔ سیاست پر بھی لکھتے، بولتے ہیں۔ اس کتاب کو تکمیل تک پہنچانے میں ایک اور اہم نام خالد فرید کا ہے جو بلوچستان کے معاملات کی غیر معمولی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ اپنی اہم سرکاری ذمے داریوں کی ادائیگی کے لیے طویل عرصہ بلوچستان میں رہے۔ اس کے علاوہ افغانستان اور ایران میں بھی وقت گزرا۔ ان خدمات کے اعتراف میں اعزازات سے نوازے گئے۔ میر ہزار خان سے ان کا تعلق دوستانہ تھا۔ اس کہانی کی بہت سی خفیہ تفصیلات خالد فرید کی میر ہزار خان مری سے طویل ملاقاتوں کے دوران ہونے والی بات چیت کے توسط سے ہم تک پہنچی ہیں، جب کہ کہانی کے مرکزی کردار کی زندگی کے تمام ادوار سے متعلق تصاویر بھی خالد فرید ہی نے فراہم کی ہیں۔ کتاب میں شامل اہم تفصیلات کو ہم تک پہنچانے میں بیورغ مری نے بھی ہاتھ بٹایا۔ بیورغ، میر ہزار خان کے پوتے ہیں جو تمام عمر اپنے دادا کے ساتھ رہے۔ انھوں نے اس عرصہ میں جو دیکھا اس کو بیان کیا ہے۔ عمار مسود نے اس کتاب کا آغاز ’اعتراف‘ سے کیا ہے۔ اعتراف اس بات کا کہ ملک کے دیگر حصوں کے بسنے والوں نے بلوچستان کو ’یہاں کے لوگوں کو اور ان معاملات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ کتاب کا پہلا باب میر ہزار خان کی وفات کے حالات کا احاطہ کرتا ہے یوں کتاب کا بیانیہ اختتام سے آغاز کی جانب سفر کرتا ہے اور حقیقت ہے بھی یہی کہ بھٹکے ہوؤں کا لوٹ آنا ہی درحقیقت آغاز ہوتا ہے۔ کتاب کا پیش لفظ صدر مملکت آصف علی زرداری جب کہ دیباچہ وزیر اعظم شہباز شریف نے لکھا ہے۔ : وہ کہتے ہیں ’’میری نظر میں میر ہزار خان کی یہ کہانی لائبریریوں کی زینت بننے کے لیے نہیں بلکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر نصاب میں متعارف کرانے کے لیے ہے۔ اس لیے کہ اس میں نوجوانوں کے لیے وہ رہنما اصول موجود ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ملک دشمنوں کی سازشوں کو بروقت سمجھا اور ان کا سدباب کیا جا سکتا ہے‘‘۔ بلوچستان میں جاری بد امنی کو سمجھنے کے لیے اس سے بہتر مواد میری نظر سے نہیں گذرا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل