Saturday, July 12, 2025
 

انسانی مجبوری ایک منافع بخش صنعت ہے

 



اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے بقول غزہ کے فلسطینی باڑے میں بند وہ مویشی ہیں جنھیں گھیر گھیر کے مٹایا جا رہا ہے اور ان کی امداد کے نام پر جاری سنگین مذاق بھی تاریخ میں بے مثال ہے۔ اسرائیل نے دو برس نو ماہ کے دوران پہلے تو غزہ کی تمام بیکریوں ، کھیتوں اور کنوؤں کو تباہ کیا۔غزہ میں انسانی امداد کے داخلے پر جامع پابندی لگائی اور پھر ستتر برس سے فلسطینیوں کی تعلیم ، رہائش ، صحت ، غذا اور دیگر بنیادی ضروریات کی دیکھ بھال کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ادارے انرا کے دفاتر ، گودام ، اسکولوں اور طبی مراکز تباہ کر کے انرا کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے کر فلسطینیوں کے سر سے انسانی امدادی چادر بھی چھین لی۔ اس کے بعد سابق بائیڈن حکومت نے اہلِ غزہ کی امداد کے لیے ایک مصنوعی بندرگاہ کی تعمیر کا ڈرامہ رچایا۔جب یہ بندرگاہ زیرِ تعمیر تھی تو سمندری لہریں اس کے تختے بہا لے گئیں۔ یوں یہ ڈرامہ بھی ختم ہوا۔ دو مارچ سے غزہ اس صدی کے سب سے بھیانک مصنوعی قحط کی لپیٹ میں ہے۔اس بابت بڑھتی ہوئی عالمی بے چینی سے توجہ ہٹانے کے لیے غزہ کے بھوکوں کی امداد کے لیے ایک اور سنگ دل ڈرامہ ’’ غزہ ہومینیٹرین فاؤنڈیشن ‘‘ ( جی ایچ ایف ) کے نام سے اسٹیج کیا گیا۔ فروری میں سوئٹزرلینڈ میں رجسٹر ہونے سے پہلے کسی بین الاقوامی مستند امدادی ادارے نے جی ایچ ایف کے نام اور کام کے بارے میں نہیں سنا تھا۔مگر سب جانتے تھے کہ جی ایچ ایف نیتن یاہو اور امریکا کا وہ مشترکہ جال ہے جس میں بھوکے فلسطینیوں کو پھنسا کے ان کا شکار جاری رکھنا ہے۔ انسانی بے بسی کو ہتھیار بنانے کی ایسی نادر مثال ہٹلر کے بعد اب دیکھنے کو ملی۔شاید اسی لیے تمام مصدقہ بین الاقوامی امدادی اداروں نے اس امدادی نسل کشی سے لاتعلقی کا اعلان کیا ( اس بابت ایک پچھلے مضمون میں تفصیلاً روشنی ڈالی جا چکی ہے )۔ مگر گزشتہ پونے تین برس میں محصور فلسطینیوں سے یہ پہلا مذاق نہیں ہوا۔گزشتہ برس کے اواخر میں غزہ پر امداد گرانے کے لیے اردن کی رائل ایرفورس کو اجازت ملی اور یہ مشق چند پروازوں کے بعد منقطع ہو گئی۔موقر جریدے مڈل ایسٹ آئی کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں نے تصدیق کی ہے کہ نصف ٹرک کے برابر امداد فضا سے کہیں بھی گرانے کے لیے ایک پرواز کا معاوضہ دو لاکھ ڈالر وصول کیا گیا جب کہ کسی مخصوص جگہ امدادی گٹھا گرانے کی فیس چار لاکھ ڈالر رکھی گئی ۔ اردن کی سرکاری فلاحی تنظیم ہاشمی چیرٹی آرگنائزیشن ( جے ایچ سی او ) نے اس رپورٹ کی تصیح کرتے ہوئے کہا کہ درحقیقت غزہ میں کسی بھی جگہ گرائے جانے والی رسدی کھیپ کا خرچہ دو لاکھ دس ہزار ڈالر اور مخصوص مقامات پر گرائی جانے والی رسد کا پروازی خرچہ ساڑھے چار لاکھ ڈالر ہوا۔تاہم اس سرکاری تصیح کے بعد سرکار کو بدنام کرنے کی کوشش کے الزام میں میڈیا کمیشن نے مڈل ایسٹ آئی کی ویب سائٹ سمیت بارہ ویب سائٹس بلاک کر دیں۔ ایک برس قبل اردنی صحافی حبہ ابو طحی کو میڈیا کمیشن کی شکائیت پر سائبر قوانین کے تحت افواہ سازی کے الزام میں ایک برس قید کی سزا سنائی گئی۔انھوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ کچھ اردنی کمپنیاں یمنی ہوثیوں کی جانب سے بحیرہ قلزم کی ناکہ بندی کے بعد زمینی کاریڈور کے ذریعے اسرائیل کو درآمد و برآمد کی سہولت فراہم کر رہی ہیں۔اردن کے وزیرِ اعظم نے اس اطلاع کو غلط قرار دے کر مسترد کر دیا۔  سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے بعد سے حماس اور اسرائیل کے مابین مصر مصالحتی سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔تاہم مصر کی ایک کمپنی ہالا کنسلٹنگ اینڈ ٹورزم سروسز کے بارے میں مڈل ایسٹ آئی سمیت عرب ذرایع ابلاغ میں گذرے فروری میں یہ رپورٹیں شایع ہوئیں کہ حماس اور اسرائیل کے مابین انیس جنوری سے شروع ہونے والی دوسری جنگ بندی کے دورانیے میں غزہ میں داخل ہونے والے امدادی اور کمرشل ٹرکوں سے بیس ہزار ڈالر فی کس تک فیس لی جا رہی ہے۔ رفاہ کراسنگ پر امدادی ٹرانسپورٹ سے رقم کی وصولی کا ٹھیکہ حاصل کرنے والی اس کمپنی کے مالک شمالی سینا کے بااثر قبائلی و سیاسی رہنما ابراہیم ال اورگانی ہیں۔گزشتہ برس مئی میں ہالا کنسلٹنگ کے بارے میں یہ خبریں بھی شایع ہوئی تھیں کہ غزہ سے جو شہری نکلنا چاہتے ہیں ان سے یہ کمپنی بھاری معاوضہ وصول کر کے انھیں ترجیحی ’’ وی آئی پی لسٹ ‘‘ میں شامل کر رہی ہے اور کمپنی کو اس مد میں روزانہ دو ملین ڈالر کی آمدنی ہو رہی ہے۔فروری تا اپریل دو ہزار چوبیس کے عرصے میں اس کمپنی کو ایک سو اٹھارہ ملین ڈالر کی آمدنی ہوئی۔تب تک قاہرہ میں متعین فلسطینی سفیر زہاب الوہی کے مطابق غزہ سے اسی ہزار سے ایک لاکھ تک شہریوں کا رفاہ کراسنگ سے انخلا ہوا۔ کمپنی ایک بالغ شہری کو غزہ سے نکلنے کی سہولت فراہم کرنے کے عوض پانچ ہزار ڈالر اور سولہ برس سے کم عمر کے بچوں کے لیے ڈھائی ہزار ڈالر فی کس وصول کرتی رہی ہے۔جب کہ سات اکتوبر سے پہلے غزہ سے باہر نکلنے والے شہریوں سے یہی کمپنی ساڑھے تین سو ڈالر فی کس وصول کرتی تھی۔یعنی جنگ کے بعد اس رقم میں چودہ گنا اضافہ کر دیا گیا۔ مصری صحافی اور جزیرہ نما سینا کے سیاسی امور کے ماہر مہند صابری کا کہنا ہے کہ ابراہیم ال اورگانی کی کمپنی دراصل اسٹیبلشمنٹ کی فرنٹ کمپنی ہے۔وہ کس قانون یا ضوابط کے تحت غزہ کے رسدی ٹرکوں اور وہاں سے نکلنے والوں سے مذکورہ ریٹس وصول کرتی ہے اور اس کا کام کس حد تک حکومت کے زیرِ نگرانی ہے۔یہ واضح نہیں۔ جو بات واضح ہے وہ ابراہیم ال اورگانی کے سیاسی و تجارتی روابط ہیں۔دو ہزار بائیس میں السیسی حکومت نے ابراہیم اورگانی کو تعمیراتی منصوبوں کی ذمے دار سینا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا رکن نامزد کیا۔ابراہیم اورگانی کی کمپنی کے طرزِ عمل کے خلاف گزشتہ برس اپریل میں مقامی سطح پر مظاہرے بھی ہوئے۔اور ان مظاہروں کے منتظمین پر افواہ طرازی اور دہشت گرد تنظیموں سے روابط کی فردِ جرم عائد کی گئی۔ گزشتہ برس مصری وزیرِ خارجہ سمیع شکری نے سکائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ حکومت رفاہ کراسنگ پر امدادی ٹرکوں اور فلسطینی شہریوں سے بھاری معاوضہ وصول کرنے کی اطلاعات کی چھان بین کرے گی۔مگر ابراہیم اورگانی کی کمپنی اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہے۔جب کہ رفاہ کراسنگ کے انتظامی معاملات مصری سیکیورٹی اداروں اور انٹیلی جینس حکام کی ذمے داری ہیں۔ یہ مثال بلا وجہ نہیں کہ جنگ اور مجبوری کا شمار سب سے منافع بخش اجناس میں ہوتا ہے۔جنگ لاکھوں انسانوں کو برباد کرتی ہے مگر کچھ کی نسلیں سنوار دیتی ہے۔ (وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل